اسٹیبلشمٹ سے ہٹ کر بھی ایک دنیا ہے


عمران خان کے حریف سیاستدان حسب توقع میدان میں اتر چکے۔ہارے ہوئے لشکر کی کمان مولانا فضل الرحمان نے سنبھالی ہے جو گزشتہ تیس برسوں سے مطلع سیاست پر آب وتاب سے چمکتے رہے ۔ سیاسی جماعتیں دکھی ، حیران اور پریشان ہیں کہ آخر 25جولائی کو ووٹروں پر ایسا کو ن سا جادو چلا کہ وہ عمران خان کے ہاتھوں نقد دل ہارے بیٹھے۔

اپوزیشن والے ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے خان کی پشت پناہی کی ۔کیا وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ شہریوں کے دل ودماغ کو اپنی مرضی کا رخ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے ‘ سیاستدان نہیں۔ کوچۂ سیاست میں طاری ماتم کی کیفیت ذرا رکے تو سیاستدان ٹھنڈے دل اور دماغ سے غور کریں کہ آخر شہریوں نے ان کے بیانیے کو کیوں مسترد کیا؟

ایک ایسے شخص پر اعتماد کیا جسے برسوں سے لوگ ٹانگا پارٹی کا نام دیتے اور تمسخر اڑاتے تھے۔ آباد ی کے ایک بہت بڑے حصے کو اس نے آخر کس طرح اپنا ہمنوا بنایا۔ ملک کے مالدار طبقات خاص کر جہانگیر خان ترین کی طرح کے لوگوں نے اپنی تجوریوں کے منہ خان کی محبت میں کھولے یا وہ حقیقی تبدیلی کے دل سے قائل ہوگئے؟ اس طالب علم نے تحریک انصاف کے بتدریج عروج کا قریب سے مشاہدہ کیا۔

استاد محترم ہارون الرشید کی عمران خان سے دوستی نہیں بلکہ گاڑی چھنتی تھی۔اب اگرچہ وہ پس منظر میں چلے گئے لیکن عمران خان کو سیاست میں متعارف کرانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ درجنوں بار ان کے ہمراہ خان کے گھر یا دفتر میں ملاقاتیں ہوئیں۔ اکثر رات گئے وہ ہارون الرشید کو گھر ڈراپ کرنے خود دریائے سواں کے کنارے ڈرائیو کرکے جاتے۔

صدر جارج بش اسلام آباد کے دورے پر آئے تو عمران خان نے احتجاج کا اعلان کردیا۔ بنی گالہ میں انہیں نظر بند کردیاگیا۔ ہارون الرشیدصاحب ، امریکی صحافی کم بارکر اور یہ طالب علم راولپنڈی اور اسلام آباد کے داخلی راستوں سے گزر کر بنی گالہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ۔درجنوں بھر پنڈی کے کارکن احتجاج کناں تھے۔ خان ہمیں دیکھ کر خوش ہوا۔حسب عادت طویل گفتگو کی ۔

کم بار کر، خان کی آمد پر احتراماًکھڑی تک نہ ہوئیں۔ ہارون الرشید صاحب کو اس کی یہ ادا پسند نہ آئی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی جو شخص دودرجن لوگ جمع نہیں کرسکاوہ کل کو پاکستان کا مقبول ترین لیڈر اور وزیراعظم ہوگا۔ عمران خان کوئی جاگیردار نہیں۔صنعت کار بھی نہیں۔

اس کا دستر خوان کبھی بھی وسیع نہیں رہا۔ اس کے باوجودالیکشن کے دن پولنگ بوتھ کے گردونواح میں میں نے ایسے لوگوں کو بھی جمع دیکھا جو جسمانی طور پر معذور تھے۔ کچھ بڑھاپے اور نقاہت کی وجہ سے ٹھیک سے کھڑے نہ ہوپاتے۔ اس کے باوجود ووٹ دینے پہنچ گئے۔ ذہنی طور پر مفلوج افراد بھی پی ٹی آئی کا جھنڈا اور عمران خا ن کافوٹو سینے پر سجائے نظر آئے۔

میرا ایک ہی سوال تھا کہ آپ ووٹ دینے کیوں آئے؟ وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔ ایسی حکومت جو ان کی خبر گیری کرے۔جہاں ریاست ہو ماں جیسی۔ شہریوں کی فلاح وبہبود اس کی سرگرمیوں کا مرکزی نکتہ ہو۔گفتگو میں اکثر لوگ اسی طرح کے خیالات کا اظہا رکرتے۔ خان کی کامیابی کو محض اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی عینک سے دیکھنے والے ایک بار بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں۔

وہ پاکستانی سماج کے اندر در آنے والی تبدیلی کا ادراک نہیں کررہے یا اعتراف کرنا ہی نہیں چاہتے۔وہ اس بات کا بھی ادراک نہیں کررہے کہ نظریاتی تقسیم پاکستان میں اب باقی نہیں رہی۔ مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک بھی دم توڑ چکا ہے۔علاقائیت اور لسانی تقسیم بھی اپنی کشش کھوچکی ہے۔خاندانی اور وارثتی سیاست بھی دم توڑ رہی ہے بلکہ مذاق بن چکی ۔

نون لیگ نے شریف خاندان کے چشم وچراغ حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کی کرسی کے لیے نامزد کرکے اپنی ’’جمہوریت پسندی‘‘ کا ایک اور ثبوت دیا ۔جو آئیڈیا شہریوں کو متاثر کررہاہے وہ ہے ایک اچھی حکومت کی فراہمی۔سماجی اور معاشی انصاف ۔شہریوں کو تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا عزم۔بڑے منصوبوں پر نہیں بلکہ صاف پانی اور امن وامان کے قیام پر سرمایاکاری تاکہ عام لوگ سکون سے سو سکیں۔بچے گھر سے نکلیں تو مائیں تو خوف سے ہلکان نہ ہوں کہ کوئی انہیں ماردے گا۔

یہ وہ خدمات ہیں جو ماضی کی حکمران جماعتیں فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ حالیہ الیکشن کے نتیجے میں کچھ خوشگوار تبدیلیاں آئیں جن پر کم گفتگو ہورہی ہے لیکن ان کے قومی سیاست پر دور اثرات مرتب ہوں گے۔ الیکشن میں شہریوں نے بیک وقت ملائیت اور علاقائیت کے خاتمے کا علان کرکے ایک عالم کو حیران کیا۔درجن بھر جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کو شکست فاش کا سامنا کرناپڑا ۔

ایم ایم اے کو محض پچیس لاکھ ووٹ ملا حالانکہ ملک میں پچیس لاکھ سے زیادہ تو صرف مدرسے کے طالب علم پائے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس حال ہی میںقائم ہونے والی تحریک لبیک پاکستان کو بائیس لاکھ ووٹ پڑا۔یہ شکست قدمت پسندانہ خیالات خاص کر عورتوں ، اقلیتوں اور سخت گیر خارجہ پالیسی کے حامیوں کی ناکامی ہے۔مولانا مودودی زندگی بھر ملائیت اور پاپائیت کے مخالف رہے ۔

جماعت کی موجودہ قیادت نے اسے کٹر مذہبی گروہوں کی جھولی میں ڈال کر اعتدال پسند پاکستانیوں کو تحریک انصاف اور نون لیگ کی طرف دھکیل دیا۔ علاقائی اور لسانیت کی بنیاد پر چلنے والی پارٹیوں کو بھی عبرت ناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

چودھری نثار علی خان جیسا خودساختہ اصول پسند سیاستدان بھی خاک چاٹنے پر مجبور ہوا۔ اسفند یار ولی ،آفتاب شیرپاؤ، ذوالفقار کھوسہ اور ڈاکٹر فاروق ستار کی شکلیں دیکھ دیکھ کر لوگ عاجز آچکے تھے۔سندھ سے عام نشستوں پر تین ہندو امیدوار کامیاب ہوئے۔

پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر مہیش کمار ملانی براہ راست نشست پر کامیابی حاصل کرکے قومی اسمبلی میں براجمان ہوں گے۔ تحریک انصاف کی سیاست کا کمزوز پہلو اس کی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے متذبذب سوچ اور حکمت عملی رہی ہے۔اپوزیشن میں رہتے ہوئے سیاستدان شہریوں کے جذبات سے کھیل کر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے غیر معقول اعلانات،مطالبات اور وعدے کرتے ہیں لیکن حکومت سنبھالنے کے بعد صورت حال بدل جاتی ہے۔

عمران خان خوش قسمت ہیں کہ وہ ایک ایسے وقت میں وزیراعظم بن رہے ہیں جب امریکہ اور طالبان کے درمیان قطراور کئی ایک دوسرے مقامات پر بات چیت کا عمل شروع ہوچکا ہے۔اطلاعات کے مطابق پاکستان نہ صرف اس عمل میں شریک ہے بلکہ بڑے شراکت دار کے طور پر ابھرا ہے۔

یہ عمل اگر کامیاب ہوتاہے تو پاکستان کے اندر بھی دہشت گرد گروہ غیر موثر ہوجائیں گے۔ ان کی سرگرمیاں خودبخود دم توڑ جائیں گی۔ امید ہے کہ نئی حکومت جوش وخروش کے ساتھ افغانستان میں مفاہمت کے عمل کی حمایت کرے گی۔افغانستان میں ہونے والی پیش رفت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بھی سرگرم جوشی پیدا کرسکتی ہے ۔پاکستان کو درپیش مالی مشکلات اور عالمی تنہائی سے نکالنے کا راستہ کابل سے گزرتاہے۔

بشکریہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood