کہیں حلف برداری میں آنے والے مودی عمران خان کو بیچ نہ ڈالیں


بہت کم لوگوں کو یاد رہا ہے کہ آج سے کئی ماہ قبل تحریک انصاف کے رہ نما عمران خان صاحب ایک خصوصی جہاز لے کر بھارت گئے تھے اور وہاں ان کی نریندر مودی سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔ پاکستان میں کسی اپوزیشن جماعت کا سربراہ ہمارے ازلی دشمن سمجھے ملک کے وزیر اعظم سے ملاقات کرنے سے قبل سوبار سوچتا ہے۔

خاص کر ان حالات میں جب پاکستان کے تین باروزیر اعظم منتخب ہوئے نواز شریف کو چند سفارتی اقدامات اٹھانے کی وجہ سے مسلسل ’’مودی کا یار‘‘ ہونے کے طعنے برداشت کرنا پڑرہے ہوں۔ خان صاحب کی مودی سے ملاقات نے مگر ہمارے محبانِ وطن کو ہرگز پریشان نہیں کیا۔ رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوگیا۔

خارجہ امور کا طالب علم ہوتے ہوئے میرے ذہن میں اس ملاقات کے بعد سے یہ بات بیٹھ گئی کہ محض خان صاحب ہی نہیں بھارتی حکام بھی تحریک انصاف کے رہ نما کو پاکستان کا وزیر اعظم منتخب ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ان سے طویل المدتی تعلقات استوار کئے جارہے ہیں۔

حالیہ انتخابی مہم کے آخری ایام میں اگرچہ خان صاحب کے ترجمانوں نے بہت شدت کے ساتھ یہ افواہ پھیلائی کہ مودی حکومت تحریک انصاف کی ناکامی کی خواہاں ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت ہی برسراقتدار آئے۔ بالآخر خان صاحب نے بھی اس خیال کو شدت وتواتر سے اپنی تقاریر میں پھیلانا شروع کردیا۔

مجھے یقین ہے کہ ہمارے رائے دہندگان کی خاصی تعداد بھی ایسا ہی سوچ رہی ہوگی۔ پیر کی شام مگر بھارتی وزیراعظم نے تحریک انصاف کے رہ نما کو 25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد کا فون کردیا۔ فون پر ہوئی گفتگو کے دوران مودی نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ عمران حکومت کے دوران پاک‘ بھارت تعلقات میں بہتری اور گہرائی آئے گی۔

مودی کے ٹیلی فون کو پاکستانی میڈیا نے کماحقہ اہمیت نہیں دی ہے۔ابھی تک یہ طے کرنے میں مصروف ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلیٰ کون صاحب ہوں گے۔ وفاق اور پنجاب میں عمران خان صاحب کی حمایت میں کتنے اراکین کھڑے ہوں گے۔

بھارتی میڈیا میں لیکن رونق لگی ہوئی ہے۔ بہت ذہانت سے یہ فضا بنائی جارہی ہے کہ عمران خان صاحب نریندر مودی کو اپنی حلف برادری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دیں گے۔ وزیر اعظم کی حلف برادری کی تقریب میں غیر ملکی سربراہان کو مدعو کرنے کی روایت نریندرمودی ہی نے متعارف کروائی تھی۔ پاکستان کے وزیر اعظم کو براہِ راست مدعوکرنے کے بجائے سارک کے تمام ممالک کے سربراہوں کو اپنی تقریب حلف برادری میں شرکت کی دعوت دی۔

ہمارے میڈیا کی اکثریت نے اس وقت اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ نواز شریف کواس تقریب میں جانے سے انکار کردینا چاہیے۔وہ راضی نہ ہوئے۔ دلّی چلے گئے۔ ان کے اس دورے پر بے رحم تنقید ہوئی۔ اس بارے میں شدید دُکھ کا اظہار ہوا کہ اپنے مختصر قیامِ دہلی کے دوران پاکستانی وزیر اعظم نے کشمیری رہ نمائوں سے ملاقات کرنے سے گریز کیا۔ بجائے انہیں ملنے کے مبینہ طورپر اپنے فرزند حسین نواز شریف کو ساتھ لے کر ایک بھارتی صنعت کار سے ملنے چلے گئے۔

عمران خان صاحب خوش نصیب ہیں۔ وہ اگر مودی کی مانند سارک ممالک کے تمام سربراہان کو اپنی تقریب حلف برادری میں شرکت کی دعوت دیں تو بھارتی وزیر اعظم سفارتی اعتبار سے مشکل میں آجائیں گے۔ انکار کریں گے تو عالمی برداری کو پیغام جائے گا کہ انہوں نے پاکستان کی جانب سے نیک نیتی سے اٹھائے قدم کا مثبت انداز میں جواب نہیں دیا۔

وہ اگر پاکستان آگئے تو بھارت میں انہیں زیادہ تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ بھارتی میڈیا اپنے وزیر اعظم کو ’’غدار‘‘ کہنے کی جرأت نہیں رکھتا۔ یہ سہولت فقط پاکستان کے آزاد وبے باک میڈیا کو میسر ہے۔ اصل مسئلہ اگرچہ یہ اُٹھ کھڑا ہوگا کہ پاکستانی وزیر اعظم کی تقریب حلف برادری میں شرکت کے بعد وہ باہمی تعلقات کو آگے کیسے بڑھائیں گے۔

مودی کے لئے اس سوال کا جواب تلاش کرنا اس لئے لازمی ہے کہ آئندہ سال انہیں بھی عام انتخابات میں جانا ہے۔ نئی دہلی میں بلکہ یہ افواہیں بھی گردش کررہی ہیں کہ بھارتی پارلیمان کا موجودہ سیشن ختم ہونے کے بعد جو شاید ستمبر کے وسط تک چلے گا نریندر مودی قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرکے اپنی اپوزیشن کو چونکا دیں گے۔

آئندہ انتخابات کی جانب بڑھتے ہوئے ان کے لئے ضروری ہوگا کہ بھارتی عوام کو دکھائیں کہ بالآخر وہ پاکستان سے اپنے ملک کے لئے’’کچھ لینے‘‘ میں کامیاب ہوئے ہیں۔ عمران خان صاحب کی حکومت مگر مودی کی تسلی کے لئے فی الوقت ’’کچھ دینے‘‘ کی پوزیشن میں ہرگز نہیں ہے۔

بھارتی وزیر اعظم پاکستان آئے تو محض میڈیا کو رونق لگانے کاایک اور موقعہ مل جائے گا۔ سفارتی حوالوں سے کوئی ٹھوس پیش قدمی ممکن نظر نہیں آرہی۔

عمران خان صاحب کی تقریب حلف برادری میں مودی کو مدعو کرنے کی ترکیب لڑانے والوں کو اگرچہ یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنا ہوگی کہ بھارتی حکومت بہت سنجیدگی سے مقبوضہ کشمیر کی معطل اسمبلی کو بحال کرکے وہاں بھارتی جنتا پارٹی (BJP)کا وزیر اعلیٰ لانا چاہ رہی ہے۔

ایسا ہوگیا تو 1947کے بعد پہلی مرتبہ جموں سے آیا کوئی ہندو سری نگر میں وزارتِ اعلیٰ کے دفتر میں بیٹھا ہوگا۔ وادیٔ کشمیر کی بھارت نواز جماعتیں بھی یہ فیصلہ ہضم نہیں کر پائیں گی۔ مسئلہ فقط ہندو اور مسلمان کا نہیں ہے۔ جموں کو کشمیری ثقافت سے باہر اور پنجاب کے قریب تصور کیا جاتا ہے۔

بھارتی کانگریس کے ایک اہم رہ نما غلام نبی آزاد کا تعلق بھی اس خطے سے ہے۔ آج سے چند برس قبل اس کے مقبوضہ کشمیر کا وزیر اعلیٰ بن جانے کے امکانات بہت روشن تھے۔ وادیٔ کشمیر کے اجتماعی مزاج کی بدولت مگر ایسا نہ ہو پایا۔

مجھے خدشہ ہے کہ مودی اگر عمران خان صاحب کی تقریب حلف برادری میں آگئے تو یہاں سے اپنے وطن لوٹنے کے چند ہی دنوں بعد BJPکے جموں سے آئے کسی ہندوانتہاء پسند کو مقبوضہ کشمیر کاوزیر اعلیٰ لگادیں گے اور کشمیریوں کو تاثر یہ دیں گے جیسے یہ قدم انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم کو ’’اعتماد‘‘ میں لینے کے بعد اٹھایا ہے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).