دوغلی پالیسی


اس بات کے باوجود کہ طویل سیاسی سفر کے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اقتدار حاصل کررہے ہیں لیکن موصوف کے لئے اقتدار پھولوں کی سیج نہیں ہوگا۔ اس بات کا اندازہ تو کپتان کو حکومت سازی میں بھی لگ رہا ہے کہ ان کے امیرترین کو ان سیاسی جماعتوں اور آزاد منتخب ارکان کے پاس عددی اکثریت حاصل کرنے کے لئے جانا پڑا رہا ہے جن کے بارے میں موصوف کی رائے کبھی اچھی نہیں تھی بلکہ یہاں تک دعوی کیاہوا تھا کہ حکومت ملے یاپھر انہیں اپوزیشن میں بیٹھنا پڑے لیکن وہ ان کے ساتھ ہاتھ تک نہیں ملائیں گے۔ اس صورتحال میں سمجھداروں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان زندگی کے ایک مشکل دور میں یوں داخل ہوگئے ہیں کہ ایک طرف انہوں نے پاکستانی عوام کو اپوزیشن لیڈر کی حیثیت میں خوابوں کی دنیا میں رکھاہوا تھا تو دوسری طرف نواز لیگی اور پیپلزپارٹی سے بری طرح ستائی ہوئی عوام نے بھی ان کے ساتھ تبدیلی کی بڑی امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں۔ ادھر نواز لیگی حکومت جوکہ اڈیالہ جیل کے قیدی نوازشریف کی سربراہی میں اپنے پانچ سال مکمل کرگئی ہے، اس کی قیادت نے خاص پر جہاں کپتان کو اقتدار سے دوررکھنے کے لئے بڑی انوسٹمنٹ کی ہوئی تھی، وہاں پراس بات کا خاص طورپر خیال رکھا تھا کہ اگرعمران نے اپنے طاقتور قوتوں کی کوششو ں سے حکومت حاصل کر بھی لی تو اتنے مسائل موجود ہوں کہ اس کوسرکجھانے کی فرصت بھی نہ ملے اور مسائل ہوں کہ ختم ہی نہ ہوسکیں۔

اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتاہے کہ پاکستانی سیاست کبھی بچوں کا کھیل نہیں رہا ہے اک آگ کا دریاہے، ایک طرف سیاسی جماعتوں کے اندرونی کھلاڑی اپنے مفادات کی خاطر لیڈرشپ کو الجھانے کے دھندے میں شروع دن سے ہی ملوث ہوجاتے ہیں تو تو دوسری طرف طاقتورقوتوں کا بھی حکومت میں اپنا ایجنڈا ہوتاہے جس کی پیروی ازحد ضروری ہوتی ہے وگرنہ ٹکراؤ کی پالیسی کا سامنا کرنا پڑتاہے اور اقتدار کے ساتھ عزت سادات بھی جاتی ہے۔ پھر دلچسپ صورتحال یوں ہوتی ہے کہ ان قوتوں کے بارے میں پبلک میں سرگوشی بھی نہیں کیجاسکتی ہے، چاہے حکومت آخری جھٹکے لے رہی ہوتی ہے مطلب اتنی تلخ صورتحال میں بھی اشاروں اور کنایوں میں بات کرنی پڑتی ہے۔ ادھر پاکستان جیسے ملک کے لئے عالمی قوتوں کی بھی شرائط کوئی آسان نہیں ہوتی ہیں بلکہ گلے کا پھندا ہوتی ہے اور وہ وضاحتوں کی بجائے اپنی شرائط پر عمل درآمد کے لئے تکرارکرتے ہیں، اس کے علاوہ ان کو کوئی توجہیہ قابل قبول نہیں ہوتی ہے۔

ان ساری حقیقتوں کے باوجود ایوان کو چلانے کے لئے بھی سائنس کی ضرورت ہوتی ہے وگرنہ حالیہ جانیوالی نواز لیگی حکومت کی طرح کورم ہی پورا نہیں ہوتاہے اور حکومت تماشہ بن کر رہ جاتی۔ ادھر اپوزیشن کی تقریروں کی شکل میں ڈھولکی بھی جلتی پر تیل کا کام کررہی ہوتی ہے اور اس تاڑ میں ہوتی ہے کہ حکومت ذرا لوز بال کروائے اور وہ شور مچادیں کہ پاکستان کی خود مختاری کا سود کیجا رہا ہے۔ ادھر جیسے جیسے وقت گزرتاہے عوام ریلیف کے لئے واویلا شروع کردیتے ہیں کہ ہم مرگئے اورہم تک تبدیلی کی ہوا نہیں پہنچی ہے بلکہ وزیروں، مشیروں کی زندگی بدلی ہے۔ ان مستقل عذابوں کے باوجود ایسا تو نہیں کہاجاسکتاہے کپتان اقتدار ہی حاصل نہ کریں۔ یقینا ان کو حکومت بھی لینی ہوگی اور اپنے وعدوں کا پاس بھی کرنا ہوگا لیکن پچھلے جو کارروائی ڈال گئے ہیں اس کے بعد کپتان کے لئے غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے لئے حکومت میں پہنچتے ہی ایک ایسا ایشو بھی انتظار کر رہا ہے جس پر موصوف سمیت ساری جماعتوں کا اتفاق بھی ہے اور اختلاف بھی ہے، اور وہ اہم ایشو پنجاب، سندھ، خبیر پختونخواہ اور بلوچستان میں نئے صوبوں کے قیام کا ہے۔ دلچسپ صورتحال یوں ہے کہ اپوزیشن میں ساری سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ اس کی دل وجان حمایت کرتی ہے لیکن جونہی حکومت ملتی ہے ان کو نئے صوبوں کے قیام کے بارے میں بات کرنا زہر لگتاہے۔

مثال کے طورپر نوازشریف اپوزیشن میں تھے تو موصوف پنجاب میں ایک صوبہ کی بجائے دو صوبوں کا قیام چاہتے تھے مطلب سرائیکی صوبہ کے ساتھ بہاول پور صوبہ بحالی کی بات کرتے تھے لیکن وزیراعظم ہاوس میں جاتے ہی دو تو درکنا ایک کو بھی موصوف چلاکی کے ساتھ گول کر گئے۔ پھر بھی عوام نے اپنے تئیں کوشش کیں کہ کوئی ان کی فلور آف دی ہاوس نئے صوبوں کے قیام کے لئے آواز بنے لیکن اس با ت کا رسک چوری کھانے والے مجنوں کب لیتے ہیں کہ اپنے ”گارڈ فادر“ کی اجازت کے بغیر عوام کے ایشوز کا ایوان میں تذکرہ بھی کرسکیں، خسرو بختار جیسے سرائیکی دھرتی کے نام نہاد سرخیل بھی بھول گئے تھے اور نوازشریف کی خوشنودی کے لئے اس کی حمایت میں ڈیسک بجاتے رہے اور آخری دنوں میں اپنی سیٹ بچانے کے لئے پنجاب کی تقسیم پر اداکاری کرنے لگے۔

ادھر اسی طرح ایک اور مشکل بھی نئے صوبوں کے قیام حوالے سے یوں چل رہی ہے کہ جس سیاسی جماعت کا جس صوبہ میں ہولڈ ہے، وہ وہاں پر نئے صوبوں کے بارے میں بات کرنا جرم سمجھتی ہے۔ جیسے پیپلزپارٹی سندھ میں ایم کیوایم کے کراچی کو صوبہ بنانے کے مطالبہ کے جواب میں بلاول سے کراچی کے عوامی جلسہ میں کہلواتی ہے کہ مریسوں مریسوں سندھ ناڈیسوں، مطلب مرجائیں گے لیکن سندھ کو تقسیم نہیں ہونے دینگے۔ دوسری طرف وہی بلاول بھٹو زرداری جب ملتان کے جلسہ میں شریک ہوتاہے تو گیلانی کے ساتھ کھڑا ہوکر نعرے لگواتاہے کہ ”گھنسوں گھنسوں، سرائیکی صوبہ“ مطلب پنجاب کی تقسیم جائز ہے اور سندھ کی حرام ہے۔ دراصل اس پالیسی کے پیچھے موصوف کے سیاسی واردات یوں ہے کہ سندھ اسی طرح ان کی سیاسی جاگیر رہے۔

ادھرنوازلیگی لیڈرشپ کی بھی پیپلزپارٹی سے ملتی جلتی پالیسی ہے کہ پنجاب کی تقسیم کی بات چلے تو آنکھیں چراؤ اور جب سندھ کی بات ہو تو اس کی بڑھ چڑھ کر حمایت کرو۔ دراصل یہ ان دونوں جماعتوں کی دوغلی پالیسی ہے جوکہ عوام کے ارمانوں کا خون ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی اپوزیشن میں پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام کے حامی تھے بلکہ انہوں نے تو زرداری اور نواز سے دوہاتھ بڑھ کر باقاعدہ صوبہ محاذ والوں کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ کیاہے جس میں اس بات کی گارنٹی دی گئی ہے کہ وہ پنجاب کی تقسیم کے وعدے کو پورا کریں گے۔ امید تو کی جاسکتی ہے کہ وہ پیپلزپارٹی اور نواز لیگی قیادت کی طرح دوغلی چال نہیں چلیں گے بلکہ دوٹوک انداز میں اپنے وعدے کو پورا کریں گے اور عوام کو برابری کی بنیاد پر با اختیار بنائیں گے، آخرپر اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں نئے صوبوں کا مطالبہ پنجاب اور سندھ کی تقسیم کی حدتک نہیں ہے بلکہ بلوچستان میں بھی نئے صوبہ کی آوازیں اٹھ رہی ہیں، اسی طرح خبیر پختونخواہ میں بھی صوبہ ہزارہ کے لئے ایک درجن کے قریب جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ اسی طرح عمران خان کے آبائی علاقہ تھل میں بھی علیحدہ سیاسی اکائی کے لئے آوازبلند کررہے ہیں، یوں تحریک انصاف کے کپتان کو پنجاب، سندھ، خبیرپختونخواہ اور بلوچستان میں ایک ساتھ نئے صوبوں کے معاملے کو عوام کی توقعات کے مطابق دیکھنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).