عمران آپ خود سیانے ہیں


ٹھڈے مار مار کے قسم کی گفتگو کرنے والے ایک کالم نگار تو ویسے ہی بدعنوان لوگوں کو چوراہوں پر لٹکانے بلکہ شاید گلوٹین نصب کرنے کے مشورے دیتے چلے آئے ہیں جنہیں پاکستان میں ”دبنگ دانشور“ تو ایک طرف رہا ”فلسفی“ سمجھا جاتا ہے۔ ویسے کبھی کسی نے کہیں کسی متشدد فلسفی کے بارے میں پڑھا ہو تو مجھے ضرور بتلائے۔

اپنے ہاتھ سے پھانسی لگانے کا دعوٰی کرنے والے عمران خان تو خیر سے کل پرسوں وزیراعظم پاکستان بن جائیں گے مگر پاکستان میں سیاست کرنے والوں کے لیے انتخابات سے پہلے ”بڑک بازی“ کو ایک عام روایت سمجھا جاتا ہے۔ پنجاب کے سابق وزیراعلٰی بھی ایک سابق صدر کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور ان کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت برآمد کرنے کے نعرے لگاتے دیکھے سنے گئے تھے۔ اس پر بھی ایک نکتہ اعتراض اٹھتا ہے کہ اگر نگلے ہوئے شکار کی لاش گلا کر اگلنے سے پہلے مگر مچھ ہاتھ لگ جائے اور اس کا پیٹ چیرا جائے تو شکار کیے گئے جانور یا انسان کی لاش برآمد ہو سکتی ہے یا پھر بہت بڑے اژدہے کے پیٹ میں پھنسی چھوٹے ہرن کی لاش نکالی جا سکتی ہے، کسی انسان کے پیٹ میں لوٹی ہوئی دولت کا خزینہ نہیں ہو سکتا۔

ایک اور صاحب ہیں جو سپاہی سے تھانیدار بنے کسی جاہل ایس ایچ او کی زبان بولتے ہیں جیسے چھترول کرنا یا آ جا مورے بالما تیرا انتظار ہے قسم کے شاہکار محاورے یا مصرعے بولنا جو آج اپنے مشوروں کے معاوضے میں مستقبل کے وزیر اعظم سے وزارت داخلہ کی سربراہی مانگ رہے ہیں تاکہ شریف برادران کو ”ڈرائنگ روم“ میں لے جا کر کارروائی کیے جانے کی بذات خود نگرانی کر سکیں۔

دو روز پہلے ایک خوشحال تاجر نے مجھے اور ماسکو میں پی ٹی آئی کے سربراہ کو پاکستان کے ماسکو میں سفارت خانے سے اپنی گاڑی میں بٹھا کر گھر چھوڑ آنے کی نوازش کی۔ چونکہ گاڑی والا اور پی ٹی آئی والا دونوں پشتو بولنے والے تھے اس لیے میں عقبی نشست پر بیٹھا تھا۔ ان صاحب نے مشورہ دیا کہ جس جس نے پاکستان کو لوٹا ہے، ان کو ایک جگہ پر اکٹھا کیا جائے اور سرعام پہلے روز ایک ٹانگ کاٹی جائے، دوسرے روز دوسری۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنی قصابیت کا کوئی اور مظاہرہ کرتا میں چیخ پڑا کہ ہم کیا تیرہویں صدی میں رہ رہے ہیں کہ اس نوع کی سفاک حرکتیں کریں گے۔ وہ نرم پڑ گیا اور کہنے لگا کہ ٹھیک ہے، ایسا نہ کریں مگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ لوٹ کے باہر لے جائی گئی دولت واپس لائی جائے اور ملک میں حالات اچھے کیے جائیں۔

تھوڑی ہی دیر میں بھائی صاحب نے گفتگو کا گیئر ایسا بدلا کہ لگنے لگا جیسے ماسکو ماسکو نہیں سارے کا سارا قحبہ خانہ ہے۔ پانچ روز میں ایک دنبہ کھا جانے، ہر روز کم عمر نوجوان لڑکیوں سے متمتع ہونے اور اجتماعی تعیش کا لطف اٹھانے کی باتیں کرنے لگا۔ طبیعت خاصی مکدر ہوئی۔ گفتگو کو روکنے کی خاطر میں نے کہا کہ گناہ پر مبنی باتیں نہ کرو بھائی تو بولا کہ گناہ کس بات کا؟ مطلب یہ کہ خود تو ایسی زندگی گذاریں اور ملک کے حالت بہتر کرنے کے لیے یا تو لوگوں کے اعضاء بریدہ کیے جانے کی باتیں کریں یا دولت واپس لانے کی غیر منطقی باتیں۔

اوپر سے نیچے تک ایک ایسی پرت وجود پا چکی ہے جو تشدد یا کم از کم تشدد سے متعلق گفتگو کو معمول کی بات سمجھنے لگی ہے۔ ایسا ہونے کی وجوہات گننے پر آئیں تو گھریلو تشدد سے لے کر دہشت گردی تک کے اسباب زیر بحث لائے جاسکتے ہیں مگر ان سب عوامل کو تشدد کرنے یا تشدد بھری نفسیات کے جواز کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ان عوامل کا سدباب کیے جانے کے جتن کیے جا سکتے ہیں۔ ایسا تب ہی ممکن ہوگا جب معاشرہ اعتدال پسندی کی جانب گامزن ہو۔

اعتدال پسند رویے ابھارنے کی خاطر لوگوں کی اکثریت کا خوشحال ہونا اور باقیوں کو عزت کی روٹی میسر آنا بہت ضروری ہے اور اس مقصد کو پانے کی خاطر بہتر روزگار کے ے تحاشا مواقع پیدا کیے جانا ضروری ہے۔ روزگار کے وسائل تخلیق کیے جانے کے لیے سرمایہ کاری درکار ہے اور سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لیے ملک میں پرامن حالات، بجلی ہونا، انفراسٹرکچر کا ترقی یافتہ ہونا اور افسر شاہی کی اڑچنیں کم سے کم ہونا ضروری ہے۔

عمران خان اپنی پہلی تقریر میں ہی سنبھل گئے لگتے ہیں مگر مزاج کے غصیلے اور جھنجھلاہٹ کا جلد شکار ہونے والی طبیعت پانے کے سبب کسی بھی وقت ہتھے سے اکھڑ سکتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ ایسا نہ ہو اور وہ اپنی مدت پوری کریں مگر نوشتہ دیوار کا کیا کیا جائے ایف اے ٹی ایف کی تیز اور غصیلی نگاہوں، امریکہ کے وزیر خارجہ کی آئی ایم ایف سے متعلق چیتاونی، چین کے قرضوں کی بروقت ادائیگی، آئی ایم ایف کی شرائط کا دھڑکا، اپوزیشن کا متحد ہو جانا، عددی حساب سے کمزور حکومت، انتخابات میں جس نے جو کچھ کیا اس کا سارا ملبہ تحریک انصاف کے سر پر ہونا۔ اللہ نہ کرے اگست ستمبر میں سیلاب آئے ورنہ نئی حکومت کی مشکلات دو چند ہو جائیں گی، یہ سب واضح کرتا ہے کہ عمران خان اور ان کی کابینہ کو قدم قدم پر مصلحتوں اور مصالحتوں سے کام لینا ہوگا بصورت دیگر دوچار قدم چل کے ہی ٹانگیں لڑکھڑا جائیں گی۔

آئی ایم ایف کے مقروض ہو کر نہ تو چین کے ساتھ سی پیک کو تیز رفتاری سے مکمل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی روس کے ساتھ تعلقات کو بہتر کیا جا سکے گا مگر آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی اور چارہ کار ہے بھی تو نہیں۔ چین، سعودی عرب، امارات بس کہ کوئی اور بھی ہے، شاید نہیں ان سے کتنا لیا جا سکتا ہے، چین اتنا ہی دے گا جتنا دینا اسے سہل رہے گا، مبینہ طور پر دو ارب ڈالر دیے ہیں مگر ساتھ ہی پومپیو نے پاکستان بلکہ عمران کی گردن پر تلوار تان لی ہے۔ سعودی عرب میں معیشت ویسے بھی دگرگوں ہے اوپر سے وہ یمن کے ساتھ جنگ میں مبتلا ہے، بہت زور لگا کے بھی دیا تو دو ارب ڈالر سے زیادہ نہیں دے پائے گا، امارات والے ایک تو اتنے مہربان نہیں اور اگر مہربانی کریں تو منافع خوری بھی پوری کرتے ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ عمران خان بھلے حکومت بنائیں جو ظاہر ہے وہ بنا ہی رہے ہیں مگر کھیر بہت ٹیڑھی ہوئی لگتی ہے۔ خیر میں کیا بتاؤں عمران خان آپ بہت سیانے بلکہ سو سیانے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).