ایک دن کا مجسٹریٹ



دولت، عزت، شہرت، منصب، کرسی، جاہ وجلال اور پروٹوکول کسے پسند نہیں۔ لوگ مال و دولت اور کشور کشائی کے لیے ہی تو اپنی تمام تر صلاحتیں صرف کردیتے ہیں۔ عام طور پر انسان یہ تمام عہدے اپنی محنت و کوشش سے حاصل کرتا ہے لیکن اگر یہ عہدے خود کسی پر لاد دیے جائیں تو بسا اوقات مصیبت میں بھی گرفتار ہو جاتا ہے۔

ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسے ہی ہوا۔ ہمیں بذریعہ فون اطلاع دی گئی کہ آپ کو ایک اہم قومی ذمہ داری سونپی جا رہی ہے، آپ کچہری سے اپنے آرڈر وصول کرلیں۔ ہم جب عدالت پہنچے تو اپنے جیسے کئی مجسٹریٹ نظر آئے جو مختلف امور زیر بحث لارہے تھے۔ جج صاحب نے مجھے سر سے پاوں تک دو بار دیکھا اور غیر یقینی انداز سے نام نسب پوچھ کر مطلوبہ دستاویزات حوالے کردیں۔ گھر واپس آئے تو گھر والوں کی خوشی دیدنی تھی، شاید انہیں کسی نے مجسٹریٹ کے اختیارات کے بارے میں بتا دیا تھا، مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس مجسٹریٹی میں دوسروں کو جیل بھیجنے کی بجائے اپنے جیل میں جانے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔

مقرر روز ہم صبح سویرے اٹھے اور نہادھو کر نئے کپڑے زیب تن کیے، گھر والو ں نے تیاری کا سامان کچھ زیادہ ہی عزت سے پیش کیا، وہ سمجھ رہے تھے کہ ما بدولت اگلے دو دن کسی بڑی کرسی پر تشریف فرما رہیں گے اور ماتحتوں کی ایک فوج حکم بجا لانے کے لیے بے تاب ہوگی۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی، ہم جو اپنی تیاری میں مصروف تھے فون ایک ہاتھ سے کان سے لگائے دوسرے سے جوتے کی تسمے باندھنے لگے۔ دوسری طرف سے ایک تیز آواز قدرے ادب سے سنائی دی۔

”سر! آپ کہاں ہیں، سب لوگ اپنا سامان وصول کرچکے ہیں، آپ جلدی پہنچیں اور اپنا سامان وصول کرکے رپوٹ کریں، ہم گاڑی کا بندوبست کررہے ہیں۔ میں آپ کے حلقے کا پٹواری بات کر رہا ہوں“۔

”ٹھیک ہے، میں آدھے گھنٹے تک پہنچ جاتا ہوں“۔ میں نے جواب دیا اور جلدی جلدی سے تسمے باندھنے لگا۔
ماں جی نے پوچھا۔ ”بیٹا گاڑی گھر سے لینے آئے گی کیا“؟
”نہیں امی۔ گاڑی عدالت میں تیار کھڑی ہے، وہاں تک میں پرائیویٹ گاڑی سے چلا جاوں گا“۔

عدالت کے احاطے میں بہت سارے مجسٹریٹ سامان کے تھیلے سر پر اٹھائے دوڑ دھوپ میں مصروف تھے۔ ہم بھی اپنی باری کے انتظار میں قطار میں کھڑے ہوئے اور آدھے گھنٹے کی صبر آزما کوشش کے بعد سامان کے بھاری تھیلے وصول کرنے میں کامیا ب ہوئے۔ گاڑی تک پہنچنے میں پسینا تمام پرفیومز کی خوش بوئیں ختم کر چکا تھا۔ پولنگ اسٹیشن پہنچے تو معلوم ہوا کہ ہماری طرح کے دو مزید مجسٹریٹ اپنی ٹیموں کے ہم راہ پہنچ چکے ہیں۔ اب تینوں مجسٹریٹ اپنا اپنا مورچہ سنبھالنے کے لیے بھاگ بھاک کر مطلوبہ سامان اکٹھا کرنے لگے۔ کمروں کی حالات زار، سامان کی عدم موجودی، جگہ کی کمی، راستوں کی تنگی اور صفائی ستھرائی کی غیر تسلی بخش صورت احوال نے پریشانی میں مزید اضافہ کر رکھا تھا۔

شام کے چھہ بج چکے تھے، بھوک کی شدت سے نڈھال ، پیاس سے جان بہ لب کھانے کی تلا ش میں نکلے تو دور دراز کے ہوٹلوں میں روٹی تھی تو سالن ختم ہوچکا تھا اور اگر بچا کچھا سالن باقی ہے تو روٹی کے لیے تندور میں لکڑیاں ڈال رکھی ہیں جسے گرم ہونے کے لیے آدھ گھنٹا درکار ہے۔ رات کے اندھیرے بڑھنے لگے تو تھکاوٹ ختم کرنے اور اگلے دن کا معرکا سر کرنے کے لیے آرام کی ضرورت پیش آنے لگی، بیس سے پچیس لوگوں کے سونے کے لیے اسکول کے بینچ یا زمین کی ننگی پیٹھ حاضر تھی ، مشقت برداشت نہ کرسکنے کی صورت میں قریب میں موجود مسجد انتظامیہ سے بات کی جاسکتی تھی۔

رات جیسے تیسے گزر گئی ، صبح ہم موذن سے بھی پہلے جاگے۔ سامان کی ترسیل، جگہ کی فراہمی، آمد و رفت کے راستوں کا تعین اور عوامی گزر گاہوں پر علامتی پوسٹر چسپاں کرنے سے فارغ ہوئے تو پولنگ ایجنٹوں کی پوری بٹالین تشریف لاچکی تھی۔ ان سے نمٹے تو بیلٹ پیپرز، بیلٹ بکس ، پلاسٹک کی سیلیں، مہریں اور اسٹیشنری پہنچا کر عوام کی آمد کے لیے تیار ہوئے۔

پورا دن لوگوں کو سبز، سفید ڈبوں کی پہچان کرانے، پرچی کو تہہ لگانے کا طریقہ بتانے، مہر پر سیاہی لگانے کی ہدایت کرنے اور قطار میں لگے رہنے کی درخواست کرتے رہنے میں گزرا۔ جہاں چائے رکھی وہی ٹھنڈی ہوئی، جہاں پانی رکھا وہی گرم ہوا، چاول کی پلیٹ ہاتھ آئی تو چمچ نہ جانے کہاں چھوڑ آئے۔ معلوم نہیں ظہر کی اذان کب ہوئی اور عصر کا وقت کیسے ختم ہوا۔ ووٹنگ مکمل ہوئی تو گنتی کی پریشانی نے آن گھیرا؛ گنتی جیسے تیسے پوری کی تو فارم 45، 46 نے خوب ستایا۔ آر ٹی ایس سسٹم کی تلوار جب تک لٹکتی رہی سانس گلے میں اٹکی رہی۔ دن بھر کی کاغذی کاروائی نمٹانے میں رات کے بارہ بج گئے۔ اصل مرحلہ اب بھی باقی تھا۔ رزلٹ جمع کرانے میں جتنی تکلیف اٹھانا پڑی۔ دن بھر کی مشقت اس کے سامنے ہیچ تھی۔

رات کے تین بجے ضروری کارروائی سے فارغ ہوئے تو بارش نے آ گھیرا۔ بھیگی بارش میں گیلے ہوئے جب صبح کے سات بجے گھر پہنچے تو یاد آیا کہ آج کے دن تو ہم مجسٹریٹ درجہ اوّل میں رہے ہیں، اور جتنی خواری مجسٹریٹ بن کراٹھائی، اتنی تو چوکیدار بن کر بھی نہ اٹھاتے۔

محسن عباسی
Latest posts by محسن عباسی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).