مولانا گزارش یہ ہے کہ



فرض کیجیے آپ کرسی پر تشریف رکھنے والے ہیں اور اچانک کوئی نیچے سے کرسی کھسکا دیتا ہے اور آپ تشریف کے بل دھڑام سے زمین پر جا گرتے ہیں تو کیسا لگے گا؟ اگر تو آپ کو اس حادثے کا ذاتی تجربہ ہے تو آپ کو اس کے نتیجے میں ابھر نے والے ”مہان مثبت جذبات“ کا بخوبی اندازہ ہو گا اور اگر نہیں ہے تو الیکشن دو ہزار اٹھارہ کے نتیجے میں گرنے والے سیاسی برو ج کی مثال آپ کے سامنے ہے۔

ان میں سےمولانا فضل الرحمان صاحب باوجہ انت غم وغصہ قابل ذکر ہیں۔ جو یہ بھول گئے کہ جس کرسی کو انہوں نے ذاتی سمجھا اور ”چوپھڑ“ مار بیٹھے، منسٹر انکلیو کا وہ بنگلہ جس میں وہ گزشتہ دس سال سے مقیم ہیں، ہر روز بھارتی فوج کے ظلم و ستم سہتے جان، مال و عزت لٹاتے اور شہید ہوتے کشمیریوں کے نام پر بنائی جانے والی کمیٹی میں بطور چیئرمین منسٹر کے جس پروٹو کول کو انہوں نےخوب انجوائے کیا یہ سب سہولیات عوام کے خون پسینے کی کمائی اور ان کی ہڈیوں سے نچوڑے ہوئے ٹیکسوں سے دی جانے والی امانت ہیں۔

یہ سب اختیارات ووٹو ں کی نظر نہ آنے والی رسی کے اک سرے سے بندھے ہوے ہیں جس کا دوسرا سرا عوام کے ہاتھ میں ہیں جسے وہ ہر پانچ سال بعد وہ ووٹ ڈال کر کھینچنے اور“وٹ ”نکالنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

مولانا یقیناً قومی دھارے کی سیاست میں کئی حوالوں سے بھاری شخصیت ہیں جن کے وعدوں پر عوام نے کئی دفعہ اعتبار کر کے اقتدار بخشا لیکن ان کی ترجیع حصول اقتدار رہی اور اسی بنیاد پر اس عوام نے انھیں مسترد کر دیا۔

تو پھر“تہتر کے آ ئین کے تناظر“ میں اس کا ردعمل کچھ یوں سامنے آیا ”کہ ہماری گڈی دھاندلی کے ٹرک سے جا وجی اور پھیتے پھیتے ہو گئی ہے اس لیے ریس دوبارہ شروع کی جائے“
مولانا گزارش یہ ہے کہ عوام کے حال پہ رحم کے ساتھ ساتھ اس ہار کو تھوڑا ٹھنڈا کرکےکھائیے۔ پانچ سال اسمبلی سے باہر بیٹھ کر تسلی سے ان عوامل کا جائزہ لیجے جن کی وجہ سے آپ کو یہ دن دیکھنا پڑا۔ اس فرق کو پائیے اور اس خلیج کو پاٹئیے جو حقیقی فلاح و بہبود اور آپ کے ”ذاتی خدمت ماڈل ”کے درمیان حا ئل ہے۔ اور اس ہیجانی کیفت سے باہر آنے کی کوشش کیجئے۔

آخر میں آتے ہیں مولانا کے اس د عوے پر ”کیونکہ ہم پارلیمنٹ نہیں جا رھے سو کوئی دوسرا بھی نہ جا وے گا“ ذاتی خواہشات کو زمینی حقائق کہنے سے حقیقت ہرگز نہ بدلے گی۔ انتہائی نزدیک محسوس ہونے والے اتحادیوں کو دور کی عینک سے ہاتھ ہلا کر ٹا ٹا بائے بائے کرتے دیکھا اور باطنی کانوں سے ”روک سکو تو روک لو گاتے“صاف سنا جا سکتا ہے۔

مبشر وسیم مرزا
Latest posts by مبشر وسیم مرزا (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).