فارغین مدارس دینیہ کو خود کفیل بنائیں


بہ نسبت دوسرے موضوعات کے یہ موضوع زیادہ خاردار ہے۔ اس لئے کہ بچپن سے دادا دادی اور ماں باپ نے یہی سکھایا کہ کبھی کسی سائل یا فقیر کو جھڑکنا نہیں، اگر جیب میں ہے تو دے دو، ورنہ کہہ دو معاف کرو بابا۔ واقعی جھڑکنا نہیں چاہیے اس لئے کہ اللہ نے قرآن مجید میں کہا ہے:
”واما السائل فلا تنہر“۔

دادا دادی نے جھڑکنے کے لئے منع کرتے وقت کچھ واقعات بھی سنائے تھے کہ کس طرح کسی نے ایک فقیر کو جھڑک کر لوٹا دیا اس کے بعد اس کے گھر کی تمام مٹھائیاں پتھر بن گئیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان باتوں سے وہ میرے ذہن میں یہ راسخ کرنا چاہتے تھے کہ بد دعا سے ہم بچیں۔ اسی طرح کے کچھ واقعات بزرگوں اور مولاناوں کے بارے میں بھی مشہور ہیں کہ ان کی شان میں کسی نے گستاخی کی تو اس کے گھر میں کبھی خوشیاں لوٹ کر نہیں آئیں۔ اس لئے عموماً لوگ ان سے جواب طلب کرنے سے ڈرتے ہیں ان کی کوتاہیوں کے بارے میں بات کرنے اور لکھنے سے ڈرتے ہیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہی علما اپنی تقریروں میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی کے واقعات سناتے ہیں کہ کس طرح بھری مجلس میں ایک بڑھیا کھڑی ہوگئی اور کہا، ”عمر کل قیامت کے دن میں تمہارا گریبان پکڑوں گی، کیوں کہ تم نے صحیح تقسیم نہیں کیا یا انصاف نہیں کیا“۔ اور جب ایسا ہے تو ان علما کی حیثیت تو بہر صورت خلفا راشدین کی نہیں ہے اور جب خلفا راشدین کی جواب دہی ہوتی تھی تو ان کی کیوں نہیں؟

مدارس کے نظام اور نصاب؛ نظام؛ اگر صحیح معنوں میں شورائی نظام پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہو اور حساب کتاب معلمین اور عملہ کی بحالی میں شفافیت نہ ہو تو عوام کی ذمہ داری ہے کہ ادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے منتظم پر صحیح نظم و ضبط کے لئے دباؤ بنائے۔ ان دنوں مدارس دینیہ میں ایک نیا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مدارس کے مہتمم، ناظم، متولی اور ذمہ دار مدرسوں کا سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کرا لیتے ہیں اور اس کے بعد اپنے آپ کو عوام کے جواب دہ نہیں مانتے۔

ایک دوسرا ٹرینڈ یہ ہے مقامی چندہ سے احتراز کرتے ہیں شاید اس خدشہ کے تحت کہ مقامی لوگ کہیں مالی اور انتظامی امور کے بارے میں سوال نہ کر بیٹھیں۔ ویسے فعال شوریٰ کی موجودگی میں خیر اندیشان مدرسہ کو زیادہ دخل دینا بھی مناسب نہیں ہے۔

نصاب؛ جمود ایک غیر محبوب کیفیت کا نام ہے۔ جب کہ حرکت زندگی کی علامت ہے۔ پانی میں اگر جمود ہو تو لا محالہ تعفن پیدا ہوگا ہے۔ دنیا بھر میں ماہرین مختصین دانشوران اور اسکالرز ہر لمحہ ریسرچ کر رہے ہیں تاکہ کس طرح خوب سے خوب تر حاصل کیا جائے۔ اس کے لئے ایک اصطلاح ہے کیس اسٹڈی، یعنی کسی مخصوص حالت کی چھان بین، خوبی اور کمی کے اسباب اور بہتر بنانے کے ذرائع کا پتا لگانا اور عملی طور کتنا ممکن ہے یہ بتانا کیس اسٹڈی کرنے والوں کا کام ہوتا ہے۔

کپڑے دھونے کا ڈیٹرجنٹ پاوڈر پورے شہر میں کپڑوں کو صاف شفاف اور چمکدار بناتا ہے مگر بعض علاقوں میں کپڑے صاف نہیں کرتا۔ کیس اسٹڈی کی گئی تو پتا چلا کہ اس کالونی کے پانی میں ہارڈنیس بہت ہے اس لئے ایسا ہوتا ہے۔ ٹیم نے پچاس سالہ مقبول صابن اور ڈیٹرجنٹ پاؤڈر کو حالات کے موافق بنانے کے لیے تبدیلی کی سفارش کی۔ مینوفیکچرز نے فارمولے میں تبدیلی کی اور اس علاقہ کے پانی کے مطابق ڈیٹرجنٹ بنایا یعنی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے پروڈکٹ میں ترمیم کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سب سے زیادہ مقبول ڈیٹرجنٹ بن گیا۔

مدارس کا نصاب ڈیڑھ سو سال پرانا ہے۔ اس وقت کے حالات کے تحت مرتب کیے گئے تھے وہ ایک اضطراری حالت تھی 1857 کا انقلاب ناکام ہو گیا تھا، مغلیہ سلطنت کا چراغ گل ہو گیا تھا، علما کرام کی ایک بڑی جماعت جس نے انگریزی اقتدار اور استعماریت کی مخالفت کی تھی، تہ تیغ کردیا گیا، پھانسیوں پر لٹکائے گئے اور جو بچ گئے انہیں گرفتار کر کے جزیرہ انڈمان بھیج دیا گیا، انگریزی حکومت نے اوقاف، جن کی آمدنی سے دینی درس گاہیں چلتی تھیں، ضبط کر لیا اور پادریوں کو بلایا گیا جنہوں نے عیسائیت کی تبلیغ شروع کی اور مشنریوں کی طرف سے اسلامی عقیدے کو چیلنج کیا جانے لگا۔ ایسے میں مولانا محمد قاسم نانوتوی نے اپنے رفقا کار کے ساتھ دیوبند میں 1866ء ”مدرسہ اسلامی عربی“ کے نام سے داغ بیل ڈالی جو بعد میں دارالعلوم دیوبند بنا ایک تن آور درخت جس کی شاخیں برصغیر ہند ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش اور افغانستان کے علاوہ چہار دانگ عالم میں کم و بیش پھیلی ہوئی ہیں۔

عیسائیت کی تبلیغ سے مقابلہ کرنے کے لئے پنڈت دیانند سرسوتی کی ایما پر پنڈت ہنس راج نے ہندووں کے لئے لاہور میں ”دیانند اینگلو ویدک“ اسکول کی داغ بیل 1886ء ڈالی تھی اور آج ہندوستان میں واحد غیر سرکاری تعلیمی سوسائٹی ہے جس کے پورے ملک میں 1000 سے زائد اسکول ہیں؛ 50000 سے زائد عملہ اور جو ہر سال بیس لاکھ بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں۔ جب 1947 میں ملک آزاد ہو گیا اور وہ صورت احوال (علت) باقی نہیں رہی تو اس نصاب تعلیم (معلول) کو حسب حال مرتب کیوں نہیں کیا گیا؟

روزانہ نئی نئی ریسرچ سامنے آرہی ہے کہ کس طرح کم وقت میں زیادہ حاصل کیا جائے۔ مدارس والوں نے اس نئی تحقیق کو شجر ممنوع کیوں بنا رکھا ہے؟ نصاب کو اگر صرف دینی تعلیم پر مرکوز رکھنا مقصد ہے تو وہ ضرورت بھی پوری نہیں ہورہی ہے۔ مقصد کا حصول اصل ہے اور ذرائع ثانوی ہوتے ہیں۔ تو مقصد اگر منطق پڑھانا ہے تو ہر روز ریسرچ کے نتیجے میں بہترین کتابیں مارکیٹ میں موجود ہیں جو logic اور reasoning کو اچھی طرح سمجھنے اور سمجھانے میں معاون ہو سکتی ہیں۔ علماء قضاة اور مفتیان کی ذمہ داریوں میں ایک اہم ذمہ داری ترکہ میراث کی تقسیم کی ہے۔ اس کے لئے زمانہ قدیم سے السراجی ہڑھائی جاتی ہے لیکن جائداد منقولہ اور غیر منقولہ کی قیمت نکالنا اور قرآنی تقسیم کے مطابق اس ترکہ کا ورثا میں تقسیم کرنا بہت مشکل کام ہے الا یہ کہ وہ طالب علم علم ریاضی پر دست رس رکھتا ہو لیکن صد افسوس مدارس کے طلبا ریاضی بسیط بھی نہیں جانتے، اس لئے جب السراجی میں مفروضات کی بنیاد پر تقسیم سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو باتیں سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں۔ اس کا دماغ یہ فرض کرنے کو راضی نہیں ہے کہ زید کے پاس اتنا اور بکر اور اس بھائیوں کے پاس اتنا۔ وہ اسی میں الجھا رہتا ہے۔ اسی لئے یہ مضمون پڑھنے والے کے لیے محبوب ہوتا ہے نہ پڑھانے والے کے لئے۔

قصہ مختصر یہ کہ جب آپ بنیادی ریاضیات نہیں پڑھائیں گے تو یہ بے چارے میراث ترکہ کی تقسیم کس طرح کریں گے۔ پچھلے بیس سالوں بلکہ اس سے زائد سے دنیا کے مختلف ممالک میں اسلامی بنکنگ اور بلا سودی بنکنگ کا کام شروع ہوا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جن بے چاروں نے اقتصادیات کا مضمون پڑھا ان کو فقہ اسلامی کی باریکیوں کی سوجھ بوجھ نہیں؛ ذرا سی لغزش سے حلال حرام میں بدل جائے گا اور جن علما کو فقہ اسلامی کی تعلیم دی گئی ان کو یہی نہیں معلوم کہ انشورنس یا تجارت کی کیا کیا شکلیں ہوتی ہیں؛ interest اور usury میں کیا فرق ہے۔

ہدایہ فقہ کی سب سے زیادہ مقبول درسی کتاب ہے وہ ایک پتلی جلد اول میں ہے اور عبادات پر مشتمل ہے جب کہ دوسری جلد خاصی ضخیم ہے جس میں مضاربت مشارکت اور تجارت سے لے کر اجارت اور ہر قسم کے معاملات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ یہ عام طلبا کے پلے ہی نہیں پڑتا اس لئے کہ ریاضیات اور اقتصادیات سے یہ نابلد ہوتے ہیں۔ اب موجودہ اسلامی بینک والے Sharia compliance graduate ڈھونڈھتے ہیں تو انہیں ملتے نہیں۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2