تخت لاہور کی جنگ – کون بنے گا وزیر اعلٰی؟


تخت لاہور کی جنگ آج کی نہیں، گیارہویں صدی سے قبل بھی زمین کے اس لاجواب اور قدرتی وسائل سے مالا مال ٹکڑے کے لئے جنگیں لڑی جاتی رہیں۔ غزنوی عہد سے آغاز کریں تو محمود غزنوی نے گیارہویں صدی میں تخت لاہور کے لئے ایسی خونخوار جنگ لڑی جس میں طویل محاصرے اور معرکے کے دوران لاہور جل کر خاکستر ہو گیا۔ پھر محمود نے ملک ایاز کو یہاں حکمران مقرر کیا۔ ملک ایاز نے لاہور کو پہلے مسلم حکمران کے طور پر تہذیب و تمدن کا گہوارہ بنایا۔ لاہور کبھی سلطنت دہلی کا حصہ رہا تو کبھی خلجی، تغلق، لودھی، سید اس کو بگاڑتے بناتے رہے۔ تخت لاہور پر قبضے کے لئے 1785 میں مرہٹہ فوج لاہور میں داخل ہوئی۔ اور بیٹل آف لاہور میں درانیوں کو شکست دی۔ لیکن مرہٹہ سرکار ضلعی سطح پر حکومت کی ناکامی اور لاہور کا حکمران یعنی وزیر اعلی مقرر نہ کیے جا سکنے کے سبب لاہور راجہ رنجیت سنگھ کی جھولی میں آگرا۔

تخت لوہر کی اس جنگ میں لاہور کئی مرتبہ اجڑا اور بسا۔ مٹ مٹ کر بننے والا یہ صوبہ آج پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ کہلاتا ہے اس کو فتح کرنے والا ہی سکندر ٹھہرتا ہے۔ گزشتہ کئی اداوار سے یہان شریفوں کا طوطی بولتا تھا، میاں شہباز شریف صاحب وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو، کئی صدیوں سے سلطنتوں کی اس من پسند سر زمین پر تین مرتبہ بطور وزیر اعلی حکمرانی کرنے کا شرف حاصل ہوا لیکن شاید ان کے بچے ان کے جیسے قسمت کے دھنی ثابت نہیں ہوئے۔ حمزہ شہباز کی باری آئی تو تخت لاہور پی ٹی آئی نے فتح کر لیا۔ مریم نواز بھی اپنی باری نہ لے سکیں۔

اب عمران خان جو اس وقت پوری دنیا سے مبارکبادیں سمیٹ رہے ہیں اور آنکھ کا تارہ بنے ہوئے ہیں ان کے لئے انتہائی اہم اور مشکل مرحلہ اس صوبے کا وزیراعلی منتخب کرنا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کو تو کوئی آدمی نہیں مل رہا یہاں لگانے کو، وہ مخالفت برائے مخالفت کرتے ہیں۔ کیونکہ پنجاب کے وزیراعلی کے لئے جو نام گردش میں ہیں وہ بہت قابل، تجربہ کار اور خان صاحب کے قابل اعتبار لوگ ہیں۔ اس فہرست پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ علیم خان ان کے پرانے وفادار ساتھی ہیں جنھوں نے ہر مشکل گھڑی میں پیسے سے زبان سے جان سے جس طرح ہو سکا پارٹی کے لئے کام کیا۔ لیکن اب سننے میں آرہا ہے کہ ان کا نام فائنل ہونے میں دشواری یہ ہے کہ ان پر نیب کے کیسز چل رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ کرپشن کے خلاف جدوجہد ہے۔ اب اگر علیم خان کو وزیر اعلی بنایا جاتا ہے تو ابھی سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ کس منہ سے پی ٹی آئی عوام کا سامنا کر پائے گی۔ لہازا علیم خان خاصی مشکل میں نظر آتے ہیں۔ جب تک نیب کے کیسز سے وہ بری نہیں ہوجاتے خان صاحب کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان دونوں کی بیڈ لک ہے کہ انتہائی مشکلات سے گزرنے کے باوجود ان کو ایک اور دریا کا سامنا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ کیا میڈیا کی تنقید کے باوجود خان صاحب یہ فیصلہ لے پائیں گے۔

ڈاکٹر یاسمین راشد ایک شاندار جانباز سپاہی ہیں۔ جو ایک عورت ہو کر مردوں سے زیادہ اچھا لڑیں لیکن شکست کھا گئیں۔ ان کی شکست اور جیت سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ اہم عہدے کی حقدار ہیں۔ مگر ان کے لئے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کو محکمہ صحت پر توجہ دینی چاہیے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے مسلم لیگ ن پر سب سے زیادہ تنقید پنجاب میں صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی پر کی گئی۔ انتخاب میں ایک نعرہ پنجاب کے ہسپتالوں کی زبوں حالی بھی تھی سو سب سے پہلی ضرورت پنجاب اور لاہور میں صحت کے محمکے پر توجہ دینا ہے۔ اور یہ کام ڈاکٹر یاسمین راشد سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔ اگر وہ وزیر اعلی بنتی ہیں تو محکمہ صحت کو درست کون کرے گا۔ وزارت صحت کسی ایسی شخصیت کو دی جائے جو پانچ سال میں کمال کر کے دکھا سکے۔ اور اس کے لئے ڈاکٹر صاحبہ سے بہتر کوئی نظر نہیں آتا۔

ایک خاتون وزیراعلی ہوگی تو پی ٹی آئی کا روشن چہرہ سامنے آئے گا لیکن یہ بات بھی درست کہ پنجاب کو سنبھالنے کے لئے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو مسلم لیگ ن کی کڑی اپوزیشن کا مقابلہ کر سکے جو دوبدو کئی محاذوں پر لڑنا اور پچھاڑنا جانتاہو۔ یہی وجہ ہے کہ فواد چودھری کا نام بہت فیورٹ کہا جا رہا ہے۔ انھوں نے جب سے پی ٹی آئی کے ترجمان کے طور پر کمان سنبھالی ہے پی ٹی آئی کو کافی طاقت ملی ہے۔ اس سے پہلے اپوزیشن کو کنٹرول کرنے کے معاملے میں پی ٹی آئی کمزور تھی۔ فواد نے آتے ہی ایسے تابڑ توڑ حملے کیے کہ پی ایم ایل این کے دفاع کے لئے طلال چودھری، دانیال عزیز اور مریم اورنگ زیب سب کو اکٹھے ہونا پڑا۔

اس دوران مخالفین کی جانب سے خان صاحب کے خلاف بہت سے ایسے اسکینڈل اور خبریں لانے کی کوشش کی گئی جس سے ان کو اور پارٹی کو شدید نقصان پہچ سکتا تھا لیکن فواد چودھری نے ہر ایسے لمحے میں دشمنوں کی زبانیں بند کر دیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ایسا کھل کر کھیلنے والا ہی پنجاب جیسے صوبے کو سنبھال سکتا ہے۔ ان کی کم عمری طاقت ہونی چاہیے کمزوری نہیں اور پی ٹی آئی نے یہ فتح ساٹھ فیصد کم عمر نوجوانون اور جوانوں کی وجہ سے ہی حاصل کی ہے۔ اس لئے فواد چودھری کو یوتھ کی حمایت بھی حاصل ہے اور وہ ڈیلیور کرنا بھی جانتے ہیں۔

اب بات کرتے ہیں شاہ محمود قریشی صاحب کی جو کہ شنید کہ ہر صورت وزارت اعلی کے متمنی ہیں۔ ظاہر ہے سینئیر سیاستدان ہونے کے ناطے ان کا حق بنتا ہے لیکن پی ٹی آئی میں ان کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ اس لئے ان کو مخالفتوں کا سامنا ہونے کی افواہیں بھی گردش کرتی رہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر پنجاب کے دو صوبے بن جاتے ہیں یعنی سرائیکی صوبہ تو پھر دو صوبے بن جانے کی صورت میں دوسرا وزیراعلی کون بنے گا ؟ کیا خان صاحب جنوبی ہنجاب کے صوبے کے لئے شاہ محمود قریشی صاحب کا نام تجویز کریں گے یا کچھ عرصے کے لئے میاں اسلم اقبال یا کوئی اور نوجوان ۔ شمالی پنجاب جو عددی قوت کے حساب سے دوسرے نمبر پر ہے اس کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

وزیراعلی کوئی بھی بنے اس کو ڈیلیور کر کے دکھانا ہو گا۔ ن لیگ نے دس سال حکومت کی اور شہباز شریف نے پنجاب کی کارکردگی کو نعرہ بنایا۔ سڑکوں کے اسی جال کو بنیاد بنا کر وہ پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینے کے لئے تیار ہیں۔ وزیراعلی کا انتخاب کرتے وقت اس بات کو مد نظر رکھنا ہو گا کہ کس میں اتنی انرجی اور قابلیت ہے ْ اوپر بیان کیے گئے ناموں می سے کوئی نام ہو یا میاں اسلم اقبال کا نام بھی لیا جا رہا ہے جو ہمیشہ اپنی نشست جیتتے ہیں۔ خان صاب تو کہہ رہے ہیں کوئی نیا چہرہ ہو گا یا سرپرائز دیں گے۔ خان صاب دیکھ لیں، سرپرائز دینے کے چکر میں آپ کو ہی سرپرائز نہ مل جائے۔

عالیہ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عالیہ شاہ

On Twitter Aliya Shah Can be Contacted at @AaliyaShah1

alia-shah has 45 posts and counting.See all posts by alia-shah