گیارھواں خواب نامہ۔۔۔ خو اب اور محبت تھکنے نہیں دیتے


18 مئی 2018
ایک درویش کو رابعہ سات سمندر پار سے آداب بھیجتی ہے۔
بہت مصروفیات کے دن ہیں۔ ماہ صیام اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ پوری دنیا میں مسکرا رہا ہے۔ یہ مسلمانوں کے ساتھ ہی منسلک مہینہ نہیں ہے۔ جب سے زمین بسی ہے۔ ہر مذہب میں کسی نا کسی طرح بھوک پیاس سے کنٹرول کے کچھ ایام مخصوص ہیں۔ مگر پھر بھی ہم انسان اس کھانے پینے کے لئے مسلسل کمانے میں اپنی تمام تر توانائیاں ضائع کرنے میں بخوشی مصروف و فاخر ہیں۔
رابعہ درویش کے گزشتہ خط میں موجود سوال کا جواب بعد میں کسی خط میں تفصیل سے لکھے گی کیونکہ ابھی ذہنی یکسوئی سے قاصر ہے۔ زندگی بہت سے خانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ جس میں اس کی اپنی ذات کا خانہ اتنا تنگ ہے۔ جتنا غالب کے لئے غزل کا تھا

کل جمعہ تھا سحری کے بعد رابعہ سو گئی۔ رات کی یکسانیت سے اس کو کسی طور نجات چاہیے تھی اس کے خالق نے اس کو خواب میں اتنی حسین جگہوں کی سیر کروائی کہ وہ جب اٹھی توخود کو بہت فریش محسوس کر رہی تھی۔ یہ خواب اور محبت انسان کو تھکنے نہیں دیتے۔ اگر رابعہ کے پاس اتنے سارے سوتی دنیا کے خواب نا ہوتے تو شاید اس کا جینا دشوارتر ہو جاتا۔

رابعہ کو خواب کے آخر میں گذشتہ رمضان کی ایک تلخ یاد بھی یاد دلائی گئی۔ گزشتہ رمضان میں وہ جس کرب سے گزری تھی وہ منظر اور اس ماہ صیام میں اس کا نتیجہ بھی دکھایا گیا۔ جب کسی ادبی فرعون نے اس کو اپنی فرعونیت کے باعث زیر کرنے کی کو شش کی تھی۔ مگر یہ تکبر و فرعونیت کا جادو خالی برتن کی کہانی ہے۔ فرعونیت اصل میں خود فنا ہے۔ اگرچہ سب فنا ہے۔ مگر فرعونیت موجودو وجود میں ہی فنا ہے۔ جس کو یہ سمجھ آ جاتی ہے اس کو صبر بھی نصیب ہو جاتا ہے۔
رابعہ بصری ؒ سے کسی نے پوچھا تھا کہ وہ جس کی عبادت کر تی ہیں کیا نظر بھی آتا ہے؟ تو ان کا جواب تھا کہ نظر نہ آتا تو عبادت کیوں کرتی۔
اب اس مقام ِبصیرت کو بصارت سے کیسے دیکھا جائے؟
زندگی بہت حسین ہے اور سکون کائنات کی سب سے بڑی دولت کہ جس کو مادیت خرید سکتی تو دنیا کا رنگ ڈھنگ ہی بدل جاتا۔

رابعہ سے جو سوال درویش نے کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ وہ اس خیال و سوچ سے ماورا تھا تو رابعہ تب سے یہ سوچ رہی ہے کہ ’اے درویش ایسا کیوں ہے اور کیوں ہوا؟ درویش کوکب یہ سب محسوس ہوا؟ درویش کے نزدیک مرد و زن کی محبت کی کیا معراج ہے؟ محبت کچھ ہے بھی یا نہیں؟

رابعہ تو بس اتنا سمجھ سکی مرد کے لئے محبت جسمانی لذت کے سوا کچھ نہیں۔ اس کو رومانس اور سیکس کا فرق بھی معلوم نہیں۔ وہ صرف محبت کے نام پہ سیکس پاٹنر ز چاہتا ہے۔ رابعہ کے لئے محبت دکھ اور سکھ کا ایک مکمل پیکج ہے۔ سارے موسموں کی مشترکہ کہانی ہے۔ اس لئے وہ مرد کی محبت پہ اعتبار کرنے کے قابل نہیں رہی۔ رابعہ اعتراف کر تی ہے کہ درویش کے سوال نے اسے اداس کر دیا۔ لیکن اس میں درویش کا کوئی قصور نہیں۔
دعا کیجئے رابعہ سونا چاہتی ہے۔ کبھی کبھی نیند بھی دعا چاہتی ہے۔

یا درویش یہاں مئی کا مہینہ ہے اور فروری کی خنک ہوائیں اس لمحے مہک چہک رہی ہیں جن کے سنگ درخت دور دور تک محو رقص ہیں۔ رابعہ جہاں رہتی ہے نہر پاس ہی ہے اور اس گلی کو درختوں والی گلی کہتے تھے۔ گرچہ اب یہاں درخت پہلے جتنے نہیں رہے۔ مگر پھر بھی بہت ہیں کہ موسم کو اپنی باہوں میں لے لیتے ہیں۔ نہر پہ اس وقت اتنا حسین نظارہ ہوتا ہے کہ دل چاہتا ہے وقت تھم سا جائے۔

۔ اب یہاں نہر پہ کچھ فاصلوں سے خوبصورت پل بن گئے ہیں۔ اگر پل کے وسط میں کھڑے ہو جائیں تو دونوں کناروں کے قدیم درخت سر جوڑے باتیں کرتے صاف دکھا ئی دیتے ہیں انہیں بھی دکھ ہے کہ سڑکیں چوڑی کرنے کے باعث انہیں ان کے ساتھیوں سے جدا کر دیا گیا۔ وہ بھی رابعہ کی طرح ہجر میں رو پڑتے ہیں کیونکہ رابعہ ان کناروں پہ بابا کے ساتھ واک کرتے بڑی ہوئی ہے اس نے ان کناروں کے آس پاس سڑکوں کی ویران تنہائی وخلوت کا حسن دیکھا ہے جو فطرت کے حسن کا منہ بولتا ثبوت تھا اس کے بعد اس نے ان کناروں پہ مادیت کا رقص بھی دیکھا ہے۔ اس نے ان کناروں پہ چلتے لوگوں کی آنکھوں میں محبت بھی دیکھی ہے۔ اور اس نے اب ان کناروں پہ علم کے فرعونوں کا کاروبار بھی دیکھا ہے جن کی آنکھیں پتھر کی ہیں، دل پتھر کے ہیں، دماغ سونے چاندی کے اور زبان سچ کے رنگ میں جھوٹ بولتی ہے۔

رابعہ ایک فرعون علم کا قصہ سنانا چاہتی ہے مگر ہمت کا جواب نفی میں ہے۔
رابعہ درویش سے اجازت چاہتی ہے۔
رب راکھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).