دائرہ…..مختصر کہانیاں



دی اینڈ

“F”دبایا، فائر ہوا، چار آدمی ہلاک۔
فکر کی کوئی بات نہیں برے آدمی تھے سالے!
برائی پندرہ سو افراد فی مربع کلومیٹر کی شر ح سے بڑھتی ہے۔
اچھائی نگوڑی نیگیٹو گروتھ کی پٹیاں پڑھتی ہے۔
“J”پہ انگلی رکھی تو ہیرو جمپ لگا کر برے آدمیوں کے سروں کے عین اوپر ۔
“K”کی مدد سے کِک بنا کر دشمنوں پہ دھاوا بول دیا۔
دشمن کی ناک چپٹی ، منہ لمبوترا اور رنگ کالا ہے۔
ہیرو دبا کے گورا، نہایت لمبا اور چوڑے شانوں والا ہے۔

“B”پریس کرنے پر ایک ہزار ڈالر کا فوری بیلنس موصول ہوا جس کی مدد سے ایک چنچل پورن سٹار کے مخملی بر یزر کا ہک کھیول کر فٹیگ کا پارہ نیچے لایا گیا۔
30سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں پاور کا بار ایکدم فل ہو چکا تھا۔

فل پاور سے فل تباہی کا آغاز کرتے ہوئے دومرتبہ “F”دبایا اور دشمن کے خیموں میں بم اچھا ل دیئے ۔
بے تکی عورتیں اور بے ہودہ مرد چیخیں مارتے ہوئے باہر نکل آئے۔
بم پھٹنے پر “بوم”،”بوم” کی آواز آئی اور میرے ریکارڈ میں ایک لاکھ پوائنٹس ایڈ ہو گئے۔

واؤ! اس کا مطلب ہوا کم از کم سو راسکل تو ضرور مر گئے ہونگے ۔
جو سائیڈ کک بچ گئے ہیں وہ میرے گرد دائرہ بنا رہے ہیں۔
مجھے غصیلی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے منہ ہی منہ میں کچھ بڑ بڑا رہے ہیں ۔

احمق سالے!
مجھے پتا ہے یہ میری اگلی موو کے بارے میں کچھ نہیں جانتے!
ابھی میں “S”دباؤں گا تو انہی میں سے ایک دھماکے سے پھٹ جائے گا۔
محض ایک معمولی کلک سے خطرے کا بادل چھَٹ جائے گا۔

جونہی میں نے “S”دبایا، ایک زوردار دھماکا ہوا ، اور میرے پرخچے اُڑ گئے۔

دائرہ

ایک دیوہیکل اڑن طشتری پر سوار ٹائم ٹریولر نے انکشاف کیا کہ چوبیسویں صدی عیسوی، پانچ ہزار سال قبل مسیح جیسی ہے۔

انتظار

میں پیاسا کنواں ہوں ۔
وہ خوفزدہ ہرنی ہے۔
ہمارا وصال اب محض ایک شکاری کتے کی دوری پررہ گیا ہے۔

رحمدلی

وہ جنگل کا سب سے رحم دل درندہ تھا۔
بکری نے نرخرہ کٹنے سے پہلے اتنی آہ و زاری کی کہ شیر کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

ایک پرندے کی موت

ابو، بڑے ماموں ،چھوٹے چچا،پنک پینتھر اور ٹارزن کی چیدہ چیدہ خصوصیات پر سیر حاصل غور کرنے اور ایک بھرپور تقابلی جائزہ لینے کے بعد میں نے ٹارزن بننے کا فیصلہ کیا (کوئی بھی ہوش مند بچہ یقینا یہی کرتا)۔محلے اور سکول کے سبھی دوستوں نے اِس فیصلے کو خوب سراہا۔جہانگیر شاہ عرف جونی غدّار نے تو منکو بننے کی آفر بھی کی (جو میں نے بخوشی قبول کرلی) لیکن جونہی اس نے بیعانے کی بات چھیڑی اور میرے نئے نویلے جیومیٹری باکس کو للچائی نگاہوں سے دیکھا،میں فی الفور اپنی بات سے مکر گیا ۔ جواباً وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا۔

اُس نے پہلے تو مکاری سے لبریز ایک فلک شگاف قہقہہ مارا،پھر بائیں آنکھ میچتے ہوئے بولا کہ جنگل تو دور کی بات،درخت نگوڑے بھی خال خال بچے ہیں۔ابھی میں اُس کی باتوں کے وزن کو تول ہی رہاتھا کہ اُس نے مجھے چشماٹو کہا اور میرے کانوں کو لمبوترا اور گالوں کو پچکا ہوا قرار دیا۔میں چاہتا تو اُس کے بازو یا کان پہ ایسی بتیسی گاڑتا کہ اُسے نانی یاد آجاتی مگر اُس کے چہرے پہ ایک دھتکارے ہوئے بندر جیسی مسکینی رقم تھی چنانچہ میں نے اُسے دکھ کا فائدہ دیتے ہوئے معا ف کردیا۔

جونی غدّار کم ازکم اِس حد تک تو سچا تھا کہ گردونواح میں کوئی جنگل وغیرہ موجود نہ تھا،تاہم اُس کی اندھا دھند سچائی ایک نیک نیت آلہ بصیرت کے بجائے دشمن ملکوں کے مذموم پروپیگنڈے جیسی تھی جس کے منفی اثرات سے بچنا جتنا ضروری تھا ، اتنا محال بھی تھا؛وہ اس وقت تک اپنی ہرزہ سرائیوں اور گُل افشانیوں سے باز نہ آیا جب تک اس نے میری خوداعتمادی کی فالز سیلنگ میں ایک وسیع دراڑ نہ ڈال لی۔

ایک حقیقی اور ٹیکسٹ بک ٹارزن بننے کا امکان معدوم ہوتا دکھائی دیا تو میں نے اپنی تمام تر تخلیقی قوتوں کو بروئے کا رلاتے ہوئے شہری ٹارزن بننے کاارادہ کیا مگر ایک شہری ٹارزن کا تصور (جو دھاری دار لنگوٹ کے بجائے ڈھیلا ڈھالا برمودا یا گھٹنوں سے پھٹی ہوئی جینز پہنتا ہو اور جس کے کاندھوں پر منکو کے بجائے ایک چیاؤں چیاؤں کرتا پوڈل یا دم ہلاتی سیامی بلی ہو)دوسری اور تیسری بار سوچنے پر نہایت مضحکہ خیز اور بے ہودہ محسوس ہوا۔

ٹارزن ہی کیوں ؟ کچھ اور بھی تو بنا جاسکتا ہے؟
کیا یہ ٹو ٹنے کا عمل تھا؟
میں ایک دم ٹھٹھر سا گیا…….
کمسن آنکھوں کا پہلا خواب ابھی ٹھیک سے پَر بھی نہ کھولنے پایا تھا کہ حقیقت کی سنگلاخ دیوار سے ٹکرا کے گرپڑا !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).