پاکستان میں اکنامکس پر بات کرنا کیوں مشکل ہے ؟


کل ایک دوست خاتون نے مجھ سے ایک انتہائی سادہ سوال پوچھا۔ کیا اکنامکس صرف مسائل کی خبر دیتی ہے یا ان کا حل بھی پیش کرتی ہے؟

میں نے جواب دیا۔ اکنامکس سوشل سائنسز کی ایک شاخ ہے جیسے ریاست و سیاست کا علم سیاسیات کہلاتا ہے، سماج کا علم عمرانیات کہلاتا ہے، انسانی رویوں کا علم نفسیات کہلاتا ہے ویسے ہی معیشت کا علم معاشیات کہلاتا ہے۔ جس طرح باقی علوم اپنے موضوع کو اول سمجھتے ہیں، ان میں خوبیوں و خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور خوبیوں کی افزائش اور خامیوں کی روک تھام کے لئے حل ( Solution ) پیش کرتے ہیں وہی معاملہ اکنامکس کے ساتھ ہے۔

خاتوں مطمئن ہو گئی۔ مگر میرا جواب میرے سامنے سوال بن کر مجھ سے یہی پوچھتا رہا کہ کیا واقعی ایسا ہے؟
شاید نہیں۔ میرے خیال میں، میں غلط بیانی کر بیٹھا تھا۔

فزیکل سائنسز (فزکس کیمسٹری بیالوجی وغیرہ ) کے علوم میں حتمیت پائی جاتی ہے ویسے ہی جیسے ہم دو جمع دو کو چار ہی مانتے ہیں۔ پوری دنیا میں پانی کے مالیکیولز کی خصوصیات ایک جیسی ہی ہیں۔ انسانی جسم کی ساخت دنیا کے تمام انسانوں میں تقریبا ایک جیسی ہی ہے۔ اس لئے ان علوم میں تنوع کم ہی پایا جاتا ہے اور حتمیت زیادہ پائی جاتی ہے۔

ایک دور میں جب القاعدہ پوری دنیا کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا رہی تھی اور اس کے فسادی (بعضوں کے نزدیک جہادی ) خود کش حملے کر رہے تھے تو اہل مغرب میں ایک سروے کیا گیا تھا کہ وہ تمام نوجوان جو جہاد میں ملوث ہیں ان میں مشترک خصوصیات کیا ہیں؟ جو نتائج سامنے آئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اسی فیصد سے زائد طلباء ریاضی، انجینرنگ اور فزیکل سائنسز کے شعبوں سے تعلق تھے۔ اس نتیجہ کی جب ماہرین نے وضاحت کی تو یہ بتایا گیا چونکہ ان مضامین میں اختلاف رائے نہیں پایا جاتا (یعنی جو حتمی قوانین ہیں جیسے دو ہائیڈروجن اور ایک آکسیجن ایک مخصوص درجہ حرارت پر باہم مل کر ہمیشہ پانی ہی بنائیں گے، دو اور دو ہمیشہ چار ہی ہوں گے )، اس لئے ان مضامین کے طلباء میں بھی اپنی رائے کی ضد زیادہ پائی جاتی ہے۔

آپ جس مضمون کے سکالر ہیں اس مضمون کا آپ کے مزاج پر اثر یقینی ہے۔ میڈیکل ڈاکٹرز کی اکثریت روایت پسند ہوتی ہے۔ قانون کے ماہرین میں شک (Skeptism ) اور تنوع پسندی زیادہ ہوتی ہے۔ شعر و ادب کے لوگوں میں رومانیت اور تخیل پسندی زیادہ ہوتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

اکنامکس کا بنیادی موضوع فرد اور سوسائٹی، ریاست اور مارکیٹ ہے۔ خاص طور پر یہ کہ فرد اپنی خرید و فروخت، پیداوار و خرچ میں کن رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اداروں کا اس میں کیا کردار ہے۔ اب تمام افراد کا اس معاملہ میں رویہ تو ایک جیسا نہیں یوں معیشت دان مجبور ہو جاتے ہیں کہ افراد کو سمجھنے کے لئے انہیں گروپس میں تقسیم کریں جیسے آمدن کی بنیاد پر تقسیم یوں گی۔ امراء، مڈل کلاس کے لوگ، غریب لوگ وغیرہ وغیرہ۔ ڈیموگرافی کی بنیاد پر یوں ہو گی : دیہاتی اور شہری۔ جغرافیہ کی بنیاد پر یوں ہو گی : پنجابی سرائیکی سندھی بلوچ پختون کشمیری وغیرہ وغیرہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک گروپ کے تمام لوگوں کے رویوں میں بھی یکسانیت نہیں پائی جاتی۔ مگر اس کے سوا تحقیق کا کوئی اور طریقہ بہتر نہیں۔

اکنامکس کے لوگ جب ایک یا ایک سے زیادہ مشترک خصوصیات کے گروپس کا مطالعہ کر لیتے ہیں تو انہیں بھی جنرلائز (Generalize ) کرنے کی مشکل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جیسے کیمسٹری کے محققین پانی کے ایک مالیکیول کا تجزیہ کر کے جو نتایج حاصل کرتے ہیں وہ انہیں یوں جنرلائز کرتے ہیں کہ یہی نتائج دنیا میں پانی کے تمام مالیکیولوں میں پائے جاتے ہیں۔ ایسا اکنامکس یا دوسری سوشل سائنسز میں ممکن نہیں۔

اس کے باوجود بہت زیادہ تحقیق اور ان کے نتائج میں تقریبا ایک جیسی یکسانیت کے سبب معیشت دانوں کے ہاں چند چیزوں پر ہی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ جیسے :

۔ معاشی ترقی کا راستہ صنعتی ترقی (Industrialization ) سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بغیر صنعتی ترقی کے آج تک کوئی ملک معاشی ترقی نہیں کر سکا۔ عربوں نے تیل کی دولت سے جو ترقی کی ہے وہ عارضی اور gifted ہے۔ جب تیل ختم ترقی ختم۔ یہ ترقی انسانی صلاحیتوں کے بل پر نہیں جیسے باقی ترقی یافتہ ممالک نے کی ہے اور کر رہے ہیں۔

۔ بین الاقوامی آزاد تجارت (Free Trade ) کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ اس کی بھی یہ وجہ ہے کہ اپنی سرحدیں تجارت کے لئے بند کر کے آج تک کوئی ملک ترقی نہیں کر سکا۔

۔ مارکیٹ کے نظام کا نظام معیشت میں کوئی بہتر متبادل نہیں۔ اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ کوئی اور نظام اس کے مقابلے میں نہیں پنپ سکا۔

۔ انسان فطرتا معصوم ہے اور ترغیبات (Incentive ) کی جستجو کرتا ہے۔ بہتر ترغیبات ہوں گی تو بہتر رویے سامنے آئیں گے بری ترغیبات ہوں گی تو برے رویے سامنے آئیں گے۔

یہ اور چند دیگر بنیادی باتیں ہیں جن پر معیشت دانوں کے درمیان ایک درجے کا اتفاق رائے موجود ہے مگر یہ بھی نہیں کہ سب معیشت دان اس پر اتفاق کرتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد انہیں کسی خاطر میں نہیں لاتی۔

معیشت میں بہت زیادہ تنوع اور آراء پر مبنی اختلاف موجود ہے۔ یہی معاملہ دیگر سماجی علوم میں بھی ہے اور سب سے زیادہ علم نفسیات میں ہے جس کی بنیادی وجہ یہی جنرلائز کرنے میں ناکامی اور ہر انسان کا منفرد ہونا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی تعلیمی اداروں میں ایک مخصوص طرز کی ٹیکسٹ بک اکنامکس پڑھائی جاتی ہے جو میکرو (macro ) لیول پر کینزین اور مائکرو (Micro ) لیول پر بڑی حد تک نیو کلاسیکل معیشت سے متاثر ہے۔ اس کے علاوہ آسٹرین، لبرٹیرین، کلاسیکل، نیو کلاسیکل میکرو اکنامکس، نیو کینزین مائکرو اکنامکس اور دیگر مکاتب فکر کو نہ پڑھایا جاتا ہے اور نہ یونیورسٹی اساتذہ کی اکثریت اس سے واقف ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی ایسی بات ان کے کان تک پہنچتی ہے جو انہوں نے نہیں پڑھی ہوتی وہ فورا اسے ریجیکٹ کر دیتے ہیں۔ یعنی تنوع اور اختلاف رائے کی پسندیدگی کا انتہائی فقدان ہے اور یہ لمحہ فکریہ ہے۔ اسی سبب سے پاکستان میں اکنامکس بشمول پولیٹیکل اکانومی پرمعیشت کے طلباء و اساتذہ سے بھی بات کرنا بہت مشکل ہے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan