نئی حکومت سماجی بہبودکے پروگراموں میں کیسے بہتری لا سکتی ہے – چند تجاویز


پاکستان میں سرکاری سطح پر منسٹری آف پلاننگ، ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم نے یواین ڈی پی اور آکسفورڈ پاورٹی اینڈ ہومن ڈویلپمنٹ پروگرام کی تکنیکی معاونت سے سال 2016 کے دوران ملک میں غربت کے اعدادوشمار پر پہلی مرتبہ ایک جامع رپورٹ کا اجراء کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 39فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شہری علاقوں میں غربت کی شرح دس فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 54فیصد ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق فاٹا میں 73فیصد، بلوچستان میں 71فیصد، کے پی کے میں 49فیصد، گلگت بلتستان اور سند ہ میں 43 فیصدپنجاب میں31 فیصداور آزاد جموں و کشمیر میں 25فیصد لوگ خط غربت سے نیچے رہ رہے ہیں۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں غربت کا وسیع تفاوت پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جہاں ایک طرف اسلام آباد، لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں دس فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں وہاں قلعہ عبداللہ، ہرنائی اور بارکھان جو کہ بلوچستان کے اضلاع ہیں وہاں غربت کا تناسب 90 فیصد ہے۔ شہریوں کو ملنے والی خوراک، رہائش، تعلیم اور صحت وغیرہ جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے پاکستان میں ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI) کی شرح بھی دیگر ترقی پزیر ممالک کی نسبت بہت کم ہے اور پاکستان دنیا بھر میں 117 نمبر پر ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں ملک کے مختلف علاقوں میں ہیومن ڈویلپمنٹ کا بھی وسیع فرق اور تضاد پایا جاتا ہے جس پر توجہ دینے کی شدید ضرورت ہے ورنہ یہ محرومیاں وفاق پاکستان کو بہت کمزور کر سکتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں انتہائی امیر لوگوں کی تعداد دس فیصد، اپر مڈل کلاس کی تعداد بیس فیصد، لوئر مڈل کلاس تیس فیصد جبکہ چالیس فیصد افراد انتہائی غریب ہیں۔

کسی بھی معاشرے میں آبادی پر کنٹرول اور انسانی وسائل کی ترقی سے ہی غربت کے خاتمے کے اہداف طے کیئے جا سکتے ہیں اور ہمارے ہاں ابھی تک یہ انتہائی توجہ طلب امور ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان کے متوقع وزیر اعظم عمران خان نے اپنی وکٹری سپیچ میں ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ یقیناً ایسا راتوں رات ہونا ممکن نہیں لیکن بہتر، دیر پا اور قابل عمل حکمت عملی سے ہم فلاحی ریاست کے اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ملک کے ان علاقوں کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے جہاں غربت کی شرح بلند ہے خاص طور پر جنوبی پنجاب، فاٹا، تھراور بلوچستان کے علاقوں کا احساس محرومی دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں نئی حکومت کو ایک مربوط حکمت عملی کے تحت سماجی بہبود کے اداروں کی تشکیل نو کرنی چاہیے جبکہ ان اداروں کی سربراہی ایسے فعّال افراد کو دینی چاہیے جو اس میدان میں تعلیم، تجربہ اور اہلیت کے ساتھ ساتھ انسانیت کا درد رکھتے ہوں۔ پاکستان میں متعدد ادارے اپنے اپنے دائرہ کار کے تحت الگ الگ سماجی بہبود اور غربت کے خاتمے کے لئے کام کر رہے ہیں جن میں پاکستان بیت المال، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، پاکستان فنڈ برائے تخفیف غربت(پی پی اے ایچ)، ورکرز ویلفیئر فنڈ، ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن(ای او بی آئی)، محکمہ زکٰوۃ و عشر، سٹاف ویلفیئر آرگنائزیشن جبکہ نجی سطح پر بے شمار مائکروفنانس بینک اور متعدد این جی اوز بھی شامل ہیں۔ یہ تمام ادارے علیحدہ علیحدہ مینڈیٹ کے تحت کام کر رہے ہیں اور ان سب کا الگ الگ ڈیٹا بیس ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام اداروں کو ایک پلیٹ فارم یا ایک وفاقی وزارت کے تحت اکٹھا کیا جائے اور تمام اداروں کے ڈیٹا بیس کو ایک دوسرے سے منسلک کر دیا جائے یا خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کا ایک مفصل ڈیٹا بیس بنایا جائے جس میں انتہائی غریب گھرانوں کے لئے تعلیم، معیشت، صحت اور دیگر سماجی اشاروں کی درجہ بندی کر کے ان کی بحالی کے اقدامات کیئے جائیں اور ایسے افراد کو بحالی تک متعلقہ ادارے بغیر کسی لمبی چوڑی سرکاری کارروائیوں کے ان کے گھر کی دہلیز تک ریلیف پہنچانے کے پابند ہوں۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ریلیف کے خواہاں شہری ان اداروں میں دھکے کھا رہے ہوتے ہیں اور شاید محدود وسائل کی وجہ سے سفارش کے بغیر کسی کا کام نہیں ہو تا۔

اس سارے عمل میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ ہم نے اپنی قوم کو باصلاحیت بنانا ہے نہ کہ انھیں بھکاری بنانا ہے اس لئے نقد یا چیک کی صورت میں مالی معاونت کو ایسے بزرگ خواتین و حضرات اور معذور افراد تک محدود کیا جائے جو کام کرنے کی سکت نہ رکھتے ہوں جب کہ باقی لوگوں کو اپنے پسند کے شعبوں میں فنّی معاونت فراہم کرنے کے اقداماتکیے جائیں تو بہتر ہو گا۔ اس سلسلے میں فنّی تربیت کے اداروں کو بھی اسی پلیٹ فارم سے منسلک کرنا مفید ثابت ہو گا اور ملک کے چاروں صوبوں میں کم از کم ایک ایک فنّی تربیت کی یونیورسٹیاں قائم کر دی جائیں تویہ عمل غربت کے خاتمے اور فلاحی ریاست کے قیام کے لئے سنگ میل ثابت ہو گا۔

ان اقدامات کی بدولت نہ صرف ہنرمندافراد میں اضافہ کر کے ان کے لئے وسیع پیمانے پر ملکی اور غیر ملکی سطح پر ملازمتوں کی فراہمی کو ممکن بنایا جاسکتا ہے بلکہ بیرونی ترسیلات اورایکسپورٹ میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان تربیت یافتہ افراد کو مائیکروفنانس بینکوں سے قرض دلوا کر کاروباری سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔ اس سارے عمل میں سابقہ حکومتوں میں شروعکیے گئے سماجی بہبود کے مختلف پروگراموں کو یکسر ختم کرنے کی بجائے ان میں موجود خامیوں کو دور کرنے پر توجہ دینا ہو گی۔

اس کے باوجود کہ ایک ترقی یافتہ ملک بننے کے لئے ہمارے پاس مطلوبہ صلاحیتیں اور وسائل موجودہیں پاکستان ہنوز ایک ترقی پزیر ملک ہے۔ ہماری ترقی میں درپیش بڑی رکاوٹیں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، انسانی ترقی کے عمل میں سست روی، انتظامی غفلتیں اور کسی جامع منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ سماجی بہبود سے منسلک سرکاری اداروں کے ملازمین کی تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے، ان ملازمین کو نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بیرون ملک بھی تربیت دی جانی چاہیے۔ سماجی بہبود کے شعبوں میں خواتین مردوں کی نسبت کہیں زیادہ بہتر کام کر سکتی ہیں لہٰذا ان شعبہ جات میں خواتین کا کوٹہ زیادہ سے زیادہ رکھا جائے تو مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ اگر مربوط حکمت عملی کے تحت کوشش کی جائے تو سماجی بہبو د کے تمام ادارے حکومت سے گرانٹ حاصل کرنے کی بجائے اپنی ضروریات کے لئے درکار بیشتر رقم اپنے وسائل سے جمع کر سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر فنّی تربیت کے اداروں میں ہنر مند طلباء سے بہت سی مصنوعات تیار کرواکر انھیں مارکیٹ کیا جاسکتا ہے یا یہ ادارے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت بہت سی چھوٹی صنعتیں قائم کر کے ان میں تیار ہونے والی مصنوعات کو ملکی اور غیر ملکی مارکیٹ میں پیش کر کے اپنے لئے وسائل جمع کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے ملک بھر میں اور بیرون ملک پاکستانی سفارت خانوں کی مدد سے ڈسپلے سنٹر قائم کیئے جائیں اور ان کی اچھی تشہیر کی جائے تو مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں آسانی ہو گی۔ کسی مسیحاکو تلاش کرنے کی بجائے ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ بہر حال انسان بذات خود ہی اپنا سب سے بڑا مسیحا ہوتا ہے۔ اصل مسیحا وہ نہیں ہوتا جو دوسروں کے دکھ درد کو خود دور کرتا ہے بلکہ اصل مسیحا وہ ہوتا ہے جو کسی کا دکھ درد بانٹنے کے ساتھ اسے آئندہ کے لئے اس مصیبت سے نجات کا نسخہ بتاتا ہے۔

لوگوں پر حکومت کی خواہش سے ا یک بھاری ذمہ داری عائدہوتی ہے اور صرف خوف خدا رکھنے والے ہی اس ذمہ داری کے اہل ہوتے ہیں۔ ذاتی نمودونمائش کے لئے اقتدار حاصل کرنے والے لوگوں کو تاریخ عبرت کا نشانہ بنا دیتی ہے۔ ہم ایک ایسے دین کے پیروکار ہیں جو انسان تو ایک طرف، بھوکے کتے کے حقوق کا بھی خیال رکھنے پر زور دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کروڑوں غریب، بے بس، مجبور، لاچار اور دو وقت کی روٹی کے لئے محتاج افراد پر حکومت کی خواہش رکھنے والے ہمارے نئے حکمران انسانی خدمت کی ایک نئی تاریخ رقم کریں گے یا عبرت کی علامت بننے کو ترجیح دیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).