بساط اقتدار پر صرف پوزیشنیں تبدیل ہوئی ہیں، نہ کوئی جیتا ہے اور نہ ہارا


بالآخر حسب توقع پاکستان تحریک انصاف کو پنجاب اسمبلی میں بھی عددی برتری دلوانے کے لئے تمام روایتی ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے یہ مقصد بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔ رانا ثنا اللہ کے بقول آزاد امیدواروں کو نامعلوم نمبروں سے فون کالوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور نامعلوم افراد انتہائی کامیابی سے آزاد امیدواروں کو بنی گالہ پر بیعت کروا چکے ہیں۔ جس بیہمانہ انداز میں پہلے انتخابات میں عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا اور پھر بعد میں آزاد امیدواروں کی منڈیاں لگا کر انہیں مویشیوں کی مانند جہانگیر ترین صاحب کے ہاتھوں فروخت کروایا گیا اس کے بعد مسلم لیگ شہباز اور پیپلز پارٹی کی خاموشی انتہائی معنی خیز ہے۔

نادرا نے کھل کر اظہار کر دیا ہے کہ آر ٹی ایس کا سسٹم انتخابات کی رات ہرگز بھی کسی قسم کی تکنیکی خرابی کا شکار نہیں ہوا تھا بلکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ افسران کو یہ سسٹم استعمال کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ یہ ایک انتہائی سنگین الزام ہے اور اگر اس میں رتی برابر بھی سچائی موجود ہے تو الیکشن کمیشن کے تمام اعلی ممبران کو فی الفور مستعفی ہو جانا چائیے۔

مسلم لیگ شہباز اور پیپلز پارٹی نے حیرت انگیز طور پر ابھی تک محض رسمی تنقید اور الیکشن کمیشن کے سربراہ کے استعفی کے مطالبے کے علاوہ کسی قسم کا احتجاج ریکارڈ نہیں کروایا۔ اس کے برعکس عوامی نیشنل پارٹی نے خیبر پختونخواہ میں زبردست قسم کا احتجاج بھی ریکارڈ کروایا اور جناب اسفند یار ولی نے سیدھا سیدھا انتخابات میں عوامی مینڈیٹ پر ڈاکے کا الزام عسکری قوتوں، عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر دھر دیا۔ اسفند یار ولی کو غالبا اسی لئے نہ صرف میڈیا سے بلیک آوٹ کرنے کا سلسلہ جاری ہے بلکہ اب ان کے خلاف غداری کے فتوے بانٹنے کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔

پیپلز پارٹی چونکہ عرصہ دراز سے ایسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کی محتاج ہے اس لئے اس کی خاموشی سمجھ میں آتی ہے لیکن مسلم لیگ شہباز کا چپ سادھ لینا اور شہباز شریف کا مینڈیٹ پر ڈاکے سے متعلق کوئی بھی بیان جاری کرنے سے اجتناب برتنا اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کے برعکس شہباز شریف پرانی تنخواہ پر کام کرنے پر راضی ہیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ملکی سیاست میں اس وقت تمام مرکزی سیاسی جماعتوں کے قائدین کٹھ پتلیاں بن کر ڈوریاں ہلانے والے ہاتھوں کے آگے سر تسلیم خم کر چکے ہیں۔ جن جماعتوں کے قائدین نے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کیا ہے ان میں اسفند یار ولی اور محمود اچکزئی شامل ہیں، اسی کارن ان دونوں پر غداری کے الزامات لگ چکے ہیں۔

نواز شریف اور مریم نواز کو جس قدر اذیت اور ذہنی ٹارچر میں مبتلا کر کے اڈیالہ جیل کی جبس زدہ بیرکوں میں رکھا گیا ہے اس کو دیکھ کر عبرت پکڑتے ہوئے باقی ماندہ سیاسی قائدین انقلاب لانے کے خیال اور ”سٹیٹس کو“ کو تبدیل کرنے کے خیالات سے توبہ تائب ہو چکے ہیں۔ جو بچھے کھچے نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیے کے حمایتی عوامی نمائندے موجود ہیں انہیں چن چن کر عدالتی ہتھوڑے کی مدد سے نا اہلی کی ضرب لگا کر راستے سے ہٹایا جا چکا ہے اور مستقبل میں چند مزید ” باغیوں“ کو اسی ہتھوڑے کی مدد سے شکار کئیے جانے کا ارادہ ہے۔ محترم عمران خان کو راستہ صاف کر کے تن تنہا سڑک پر گاڑی چلانے کا موقع فراہم کیا جا چکا ہے اورمشرف دور کی مسلم لیگ قاف کی مانند تحریک انصاف کو باضابطہ طور پر مقتدر قوتوں کی کنگ پارٹی کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔

ایسے سازگار حالات میں عموما مقتدر قوتیں آزادی اظہار پر عائد خاموش قدغنوں کو اٹھا لیا کرتی ہیں اور راوی کو انعام و اکرام سے نواز کر چین ہی چین کی گردانیں بھی الاپ دی جاتی ہیں۔ لیکن اس کے برعکس تمام منصوبے کامیاب ہونے کے باوجود نہ تو میڈیا پر عائد سینسر شپ کو ختم کیا گیا ہے اور نہ ہی راوی سے ہر سو چین لکھوانے کی مشق کا آغاز ہوا ہے۔ بادشاہ کے ہر نئے پیادے کی جیت اور فتح کے شادیانے بجانے والے روایتی قصیدہ خواں بھی پریشان نظر آتے ہیں اور کھسیانے ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس مرتبہ انتخابات کی کھیر میں ”میٹھا کچھ زیادہ ہی ڈال دیا گیا ہے“۔ جیتنے والے اور انہیں جتوانے والے خود بھی اضطراب کا شکار دکھائی دیتے ہیں کہ تمام اہداف حاصل کرنے کے باوجود نہ تو نواز شریف کی جانب سے کسی این آر او کی درخواست آئی اور نہ ہی مریم نواز کو جیل کی صعوبتیں اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹا پائیں۔ مقتدر قوتیں اس امر کا ادراک رکھتی ہیں کہ سلاخوں کے ہیچھے ہر گزرتا دن نواز شریف اور مریم نواز کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

انتخابات کی رات نتائج کو مینیج کرنے کے باوجود نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیے کو ایک کڑوڑ تیس لاکھ ووٹ پڑے ہیں۔ اس قدر نامسائد حالات اور دھاندلی کے باوجود ایک کڑور تیس افراد کا نواز شریف کے اس بیانیے کو ووٹ دینا جو ستر سالہ بیانیے کا کھلم کھلا مخالف ہے بذات خود نہ صرف ایک بہت بڑی تبدیلی ہے بلکہ ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کی جیت بھی ہے۔ یاد رہے آج سے پہلے کسی سیاسی جماعت نے انتخابات محض سویلین اور جمہوری بالادستی کے منشور پر کبھی نہیں لڑے ہیں۔ بینظیر بھٹو نے بھی کبھی اس قدر کھل کھلا کر انتخابات میں براہ راست مقتدر قوتوں کو چیلنج کرتے ہوئے محض سویلین بالادستی کی بنیاد پر انتخابات نہیں لڑے تھے۔ چنانچہ جیل میں بیٹھے نواز شریف اور مریم نواز کے لئے یہ امر قابل طمانیت ہو گا کہ ان کا بیانیہ پنجاب کی عوام کی ایک اچھی خاصی تعداد کے دلوں میں گھر کر چکا ہے۔

مقتدر قوتیں جانتی ہیں کہ اگر یہ بیانیہ مزید جڑیں پکڑتا گیا تو آنے والے وقتوں میں اقتدار کی بساط پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی۔ حمزہ شہباز اور شہباز شریف کو ساتھ ملانے کے باوجود اس بیانیے کو ختم کرنا اور مسلم لیگ شہباز کو پنجاب میں عوامی مقبولیت دلوانا ایک ناممکن کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقتدر قوتیں بارہا کبھی شہباز شریف اور کبھی دیگر ذرائع کے توسط سے نواز شریف اور مریم کو این آر او کے لئے قائل کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہیں اور انہیں ہر دفعہ نواز شریف اور مریم نواز کو این آر او کے لئے قائل کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

دوسری جانب ضمیر فروش سیاستدانوں کو عمران خان کے ساتھ شامل کروا کر بھی مرکز میں بیحد مشکل سے سادہ اکثریت پوری ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اگر پییلز پارٹی نے مقتدر قوتوں کا ساتھ نہ دیا تو شاید عمران خان میر ظفر الہ خان جمالی کی مانند ایک یا دو ووٹوں کی اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوں گے اور اظہار تشکر کے طور پر ڈکٹیشن لیتے ہوئے جمالی کی مانند ”یس باس“ کی پالیسی اپنانے پر مجبور رہیں گے۔ بخشیش میں ملا تخت ہمیشہ بخشیش دینے والوں کا ہوتا ہے جس پر اقتدار کے جھولے لینے کی خواہش والے حضرات کچھ دیر کو جھولے تو لے سکتے ہیں لیکن تخت پر بیٹھ کر اپنی مرضی کے فیصلے صادر نہیں کر سکتے۔ عمران خان جلد ہی اس حقیقت سے روشناس ہو جائیں گے اور پھر شاید انہیں بھی وہی بیانیہ اپنانا پڑے گا جس کی مخالفت کے صلے میں ان پر انعام و اکرام کی بارش ہوئی ہے۔

یہ کھیل ابھی بھی مقتدر قوتوں نے نہیں جیتا اور نہ ہی نواز شریف اور مریم نواز کو اس میں شہ مات دی جا سکی ہے۔ اگر نواز شریف اور مریم نے کسی بھی قسم کا این آر او لینے سے مستقبل میں بھی انکار کیا تو کوئی بھی قوت انہیں جلد یا بدیر یہ بساط جیتنے سے نہیں روکنے پائے گی۔ البتہ اگر مقتدر قوتیں نواز شریف اور مریم نواز کو جھکانے میں کامیاب ہوتے ہوئے انہیں این آر او کی جانب لانے میں کامیاب رہیں تو مقتدر قوتیں نہ صرف بازی مار لیں گی بلکہ مستقبل قریب میں انہیں کسی بھی مخالف بیانیے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ بساط اقتدار پر ابھی صرف پوزیشنیں تبدیل ہوئی ہیں کوئی بھی فریق نہ تو جیتا ہے اور نہ ہی ہارا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).