جہانِ یوسفی میں رزمیے کا تمسخر


بیسویں صدی کا آخری عشرہ، گورنمنٹ کالج ملتان، دو زبانیں، دو استاد اور دونوں کا خیال یہ کہ جو زبان وہ پڑھاتے ہیں ہم اُسی کے لئے بنے ہیں۔ یہ دو استاد اُردو زبان کے لیکچرر محی الدین اور انگریزی زبان کے پروفیسر چوہدری صدیق مرحوم تھے۔ چونکہ یہ سہولت موجود تھی کہ کالج میں دونوں کی کلاسز الگ الگ لگتی تھیں اس لئے ہم دو سال تک دونوں اساتذہ کو بیک وقت اپنی وفاداری کا عملی یقین دلانے کے لئے پڑھتے پڑھاتے رہے اور یوں ان دونوں کو ہمارے ہرجائی پن کا علم تک نہ ہو پایا۔

ہمارے ہرجائی پن سے لاعلم رہنا تو شاید اتفاق ہو مگر یہ کیسا اتفاق کہ ہمیں دوستوں کی چھوٹی موٹی کمینی حرکتوں کے لئے پُر شوکت زبان استعمال کرتا دیکھ کر اُردو کے استاد نے مشتاق احمد یوسفی اور انگریزی کے استاد نے الیگزینڈر پوپ پڑھنے کا مشورہ دیا اور ہم نے اول الذکر کو پڑھنا جبکہ ثانی الذکر کو ذہن میں احتیاط سے طاقِ نسیان سے تھوڑا باہر رکھ چھوڑا۔

یوسفی صاحب کی پہلی کتاب ’آب گُم ‘ خریدی، پڑھنے لگے تو خُدا کا شکر ادا کیا کہ اگر ہم اس سے قبل اچھے شاعروں اور نثر نگاروں کو اپنے مزاج کے برعکس سنجیدگی سے نہ پڑھ چکے ہوتے تو شاید ہمارے کچھ پلے نہ پڑتا۔ مجھے یوسفی صاحب کے فن سے تعارف کی وہ سرد راتیں یاد ہیں جب ہم دونوں بھائی رضائیاں اوڑھے آب گم میں ڈوب جاتے اور کئی بار ظنز اور ظرافت کی تیز لہریں پہلے ہمیں رضائی اور پھر چارپائی سے باہر اچھال پھینکتیں۔

یوسفی صاحب نے ہمیں ایسی عمارتوں کی سیرکرائی جن کے ستون چھت کا بوجھ کسی اوچھے کے احسان کی طرح اتار چکے تھے، بوسیدہ دیوار کے ساتھ کھڑی بوسیدہ سیڑھی دکھائی جسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہو تا کہ کون کس کے سہارے کھڑا ہے۔ لڑکھڑاتی حویلیوں میں فنونِ تعمیر اور تہاذیب کا ایسا گھمسان کا اژدہام دکھایا کے عقل دھرنے کی جگہ نہ رہے۔ پھر پاستان طرازی کا نوحہ۔ ہمارے ڈرامے کا اصل ولن ماضی بتایا اور وہ بھی اصل نہیں گھڑا ہوا ماضی۔ وہ بھی اپنا نہیں (اوچھوں کے احسان کی طرح ) مستعار لیا ہوا ماضی۔

وہ ریڈیو سنایا جو خود اونچا سنتا تھا۔ اس مغلوب الغضب خسر سے ملاقات کرائی جس کی بیٹی سے بیاہ رچانا شجرۂ نمرود میں کودنے کے برابر تھا۔ بشارت کا گھوڑا بلبن، رحیم بخش کوچوان اور ’بے رحمی‘ والوں کے چالان، داڑھی پر قصرِ تقدس کے چھجے والی پھبتی اور کرامت حسین کی غربت کا وہ احوال سنایا کہ روح میں ایسی درز پڑی کہ آج تک نہیں بھر پائی۔ ایک کے بعد دوسری کتاب۔ سقوطِ ڈھاکہ سے قبل بنگالیوں کی حالت کا نوحہ۔ اس عورت کا دُکھ جس کی چھاتیاں جھلسے ہوئے بیگن کی طرح سوکھ چکی تھیں مگر سینے سے چوستا ہوا بچہ لگائے بیٹھی تھی۔ مچھلی کی باس والا پانی خرید کر بچوں کو مچھلی کھلانے والے غریب ماں باپ۔ کبھی کبھار تو پتہ نہ چلتا کہ آنکھ سے بے ساختہ چھلکنے والا آنسو ہنسی کے دورے سے نکلا ہے یا پھر دُکھ نے اندر کچھ پگھلا کر آنکھ سے بہا دیا ہے۔

مجھے یاد ہے ہم نے بھی گھر میں ایک چھوٹی سی لائبریری بناکر کتابوں کو ترتیب دے رکھا تھا۔ یوسفی صاحب سے جب اس زیرک گورے کا قصہ سنا جو خود نوشت سوانح عمری کو مزاح کے خانے میں رکھتا تھا تو ہمیں بھی اپنی لائبریری کی ترتیب شہاب نامہ کو اس کے درست مقام پررکھ کر بدلنا پڑی۔ یوسفی صاحب نے ہمیں پاستان طرازی کے مرض کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیا تو ہم نے وہ کتابیں ہی تلف کردیں جن میں ہمارے لے پالک اسلاف کے پلٹنے جھپٹنے والی کار گزاریوں کے قصے درج تھے۔

یوسفی صاحب سے یہ سب سیکھنے کے علاوہ وہ کچھ سیکھنے کا وقت، جو شاید وہ سکھانا چاہتے تھے، اُس وقت آیا جب ہم نے ذہن کے کونے سے نسیان کی گرد سے محفوظ الیگزینڈر پوپ کی کتاب اٹھائی اور تنقیدی شعور کی روشنی میں اس کے فنی محاسن کا بھی مطالعہ کیا۔ اپنے دونوں اساتذہ کا شکریہ ادا کیا کیونکہ خبرہوئی کہ اٹھارہویں صدی کے برطانوی شاعر الیگزینڈر پوپ نام نہاد بڑے واقعات کے بیان کے لئے مخصوص پُر شکوہ اور ذی مرتبہ زُبان کا استعمال معمولی واقعات بیان کرنے کے لئے کررہے تھے اور یہی تجربہ یوسفی صاحب نے بیسویں اور اکیسویں صدی کی اُردو نثر میں کیا۔

مثال کے طور پر واقعہ کسی چھوٹے سے شہر میں کھلی ایک کچی دُکان میں ایک ادبی مجلے کے اجرا کا ہے اور زبان و محاورہ وہ جو ہمارے ہاں صرف بڑے واقعات کے بیان کے لئے مخصوص ہے۔ زُبان وہ جو عام طور پر بڑے اور چھوٹے کے فرق کی مہر اذہان پر ثبت کرنے کے لئے استعمال کی گئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ پُر شکوہ زُبان کا تمسخر ہے کہ جب سادہ پانی کو خالص مشروب ِ مشرق کہا جاتا ہے تو ہم اپنی ہنسی پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ ٹوٹی ہوئی گھڑونچی کی ایک ٹانگ کو تیموری کہا جاتا ہے تو ہم ہنس ہنس کر تہرے ہوجاتے ہیں۔ ہم اکثر سوچتے تھے کہ ہم کس بات پر ہنس رہے ہیں تو جواب ملتا تھا ’عالیشان ڈکشن کے فریب سے آزاد ہونے کا احساس ہمیں ہنسا رہا ہے ‘۔

یہ ماک ایپک (mock-epic) ہے یعنی رزمیے کا تمسخر۔ یہ ماک ہیرویک (mock-heroic) ہے : تہذیب شکن اور جدال و قتال میں ملوث سورماؤں اور تقدس کی بکل میں چھپے رہزنوں کے لئے استعمال ہونے والی عظیم الشان زُبان کا کسی معصوم کوچوان کے لئے استعمال جو اول الذکر کی بڑائی کا دھوئیں سے بُنا پردہ چاک کرے تو دوسری طرف ان واقعات کے چھوٹے پن ہر ہنسنے پر مجبور کردے جو انہیں بڑا ثابت کرتے ہوں۔ مگر یہ کوئی پھکڑ پن نہیں بلکہ رزمیے کے تمسخر کا جہاد ہے۔

وہ جہاد جو اٹھارہویں صدی کا انگریز شاعر درباری نقلی پن، چاپلوسیات اور اشرافیہ کی خود پسندی کا جامہ اتارنے کے لئے کیا تھا۔ یوسفی صاحب نے رزمیے کے استہزا کا وہی ہتھیار اُردو مزاح میں استعمال کرکے شاید ہم پُر شکوہ زُبان و اسلوب کے ڈسے ہوئے بیماروں پر احسان کیا اور دکھایا کہ اگر گرج دار الفاظ کی دھند کے اُس پار دیکھو پاؤ تو نام نہاد بڑے واقعات کو چھوٹے واقعات سے بھی چھوٹا پاؤگے۔ آؤ میں تمہیں عالیشان ڈکشن اور بھاری بھرکم الفاظ کے فریب سے آزاد کردوں! دیکھو! میرے پاس ایک محدب شیشہ ہے۔

ہم اس فریب سے آزاد ہوسکیں تو ہمیں معلوم ہو کہ ہم بڑے سے بڑا جھوٹ محض اس لئے ہضم کر بیٹھے ہیں کیونکہ وہ ہمیں عالیشان زُبان کے زعفران اور ذی مرتبہ محاوے کی گلوری میں لپیٹ کر پیش کیا گیا تھا۔ ورنہ یہ عظمت و شوکت کا دھوکہ خیالی قصرِ تقدس کے بوسیدہ چھجے کے سوا کچھ نہیں۔

پرشکوہ زُبان و اسلوب کے پیچھے کچی دکانوں میں ادبی مجلے کے اجرا کے اجلاس، خالص مشروب ِ مشرق سے تواضح، آلو کا بیان اور ان عام لوگوں کا جہان ہے جو چیتھڑے لٹکائے ظالم سماج کو کوستے رہتے ہیں۔ جہان یوسفی سے باہر اس عالیشان زبان کی دھند سے لکھے واقعات معصوم نہیں بلکہ خطرناک ہیں جنہیں عالیشان الفاظ کا برقعہ پہنا کر تقدیس بخشی گئی ہے اور پھر ہر نسل کو اکسایا گیا ہے کہ ہر نئے دور کا فرد ان کہنہ واقعات کو دہراتا چلا جائے تاکہ کبھی نیا نہ ہوسکے۔ کبھی وقت کا ہم عہد نہ ہو سکے۔ جب تک عہد یوسفی نہ آن پہنچے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).