مارٹن کوبلر! پاکستان کو بھی جرمنی بنادو


پاکستانی ہی نہیں بلکہ دنیا کے اکثر سفارت کار ایک پراسرار سی دفتری مخلوق سمجھے جاتے ہیں۔ جن کو صرف ’خاص لوگوں‘ سے اور اپنے ملک کے مفاد سے مطلب ہوتا ہے۔ پاکستان میں متعین جرمن سفیرمارٹن کوبلر ان سفراء میں ممتاز ترین حیثیت رکھتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ عام لوگوں کے سفارت کار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستانی عوام میں بے حد پسند کیے جاتے ہیں۔ عام پاکستانی جس کو شاید ہی کسی ملک کے سفیر متعین اسلام آباد کا نام آتا ہو مارٹن کوبلر کو جانتے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے میں رہتے ہیں۔ ٹویٹر پر آج کل ہی میں ان کے چاہنے والے ستر ہزار سے تجاوز کرگئے ہیں۔

مارٹن کوبلرنے سفارت کاری کے معنی یکسر تبدیل کرکے رکھ دیے ہیں۔ وہ ہر دلعزیز ہونے کے ساتھ ایک متحرک شخصیت بھی ہیں۔ سفارت کاری کے مصنوعی تقاضوں کو ایک طرف کرکے وہ پاکستان کے گوشے گوشے کا سفر کر چکے ہیں۔ شمالی علاقوں سے لے کر کراچی تک تقریباً ہر جگہ جا چکے ہیں۔ ان شہروں میں وہ ایک عام سیاح کی حیثیت سے کبھی اندرون شہر لاہور کی گلی کوچوں کی خاک چھانتے اور کبھی کراچی کے کسی مشہور سپاٹ کی بریانی کھاتے نظر آتے ہیں۔ وہ سڑک پر کھڑے ہو کر ان ٹھیلوں سے فالودے، سموسے اور چاٹ بھی کھا لیتے ہیں جہاں تھوڑا سا صاحب حیثیت پاکستانی بھی کھانے سے کتراتا ہے۔ مارٹن عام پاکستانیوں سے ملتے، ان کی دلچسپیوں میں شریک ہوتے، ان کو سفارت خانے میں چائے پر مدعو کرتے نظر آتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ دنیا نے اگر امن قائم کرنا ہے تو صرف اپنے سفیروں کو مارٹن کوبلر ماڈل پڑھا کر اس پر عمل کروانا شروع کردیں تو یہ دنیا امن کا گہوارا بن سکتی ہے۔

مارٹن کوبلر کل یکم اگست2018ء کو پاکستان میں اپنی سفارت کاری کا پہلا سال مکمل ہونے پر فیس بک پر براہ راست عام پاکستانیوں سے مخاطب ہوئے اور ان کے سوالات کے جوابات دیے۔
ہمارے بعض پاکستانی دوست غالباً انہیں ایک بادشاہ جیسے اختیارات والا کوئی شخص سمجھے بیٹھے تھے اور ان سے پاکستان کے ہر درد کی دوا کے طالب تھے۔ ایسی باتوں کے بھی جن کے لئے انہیں اپنے حکمرانوں سے رجوع کرنا چاہئیے۔ جرمنی کے سسٹم سے بہت اچھی طرح واقف ہونے کی وجہ سے یہ بات بخوبی ہمارے علم میں ہے کہ ہمارے لوگوں کی بہت سی باتیں یا فرمائشیں ایسی تھیں جو ایک مضبوط جمہوری روایات کے حامل ملک جرمنی کی چانسلر بھی شایدپوری نہ کرسکے۔

مارٹن کوبلر ایک سال کے اندربہت ہی بہتر انداز میں ہمارے نظام کو نہ صرف جان چکے ہیں ہے بلکہ ہماری ملکی سطح پر کمزوریوں اورطاقت سے بخوبی واقف ہیں۔ اس لئے انہوں نے نہ صرف بہت سے سوالات بغور سنے بلکہ باوقار انداز میں ان کے جوابات بھی دیے۔ مثلاً سیر و سیاحت کی جنت پاکستان (اور یہ بات کسی جرمن سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا) کی انہوں نے بہت تعریف کی اور دنیا کو اس طرف راغب کرنے کے لئے بہتر ماحول، سڑکوں اور ہوٹلوں کے علاوہ منظم اور بہترین ٹریول ایجنٹس کی ضرورت پہ زور دیا۔ حاصل کلام یہ تھا کہ جنوب کے ساحل سمندر سے لے کر فلک بکف چوٹیوں اور ثقافتی اقدار سے مالا مال پاکستان میں کیا نہیں ہے جس سے دنیا بھر کے سیاح اس طرف راغب ہوں گے اور پاکستان بے شمار زرمبادلہ بھی کما سکتا ہے۔ لیکن میرے دوستو! یہ کام جرمن سفیر کے کرنے کے نہیں آپ کی حکومت کے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں سفیر محترم نے یہ کہا کہ میں تو اپنی مقدور بھر کوشش کررہا ہوں لیکن میری طرح کا آپ کا ایک بندہ برلن میں بھی بیٹھا ہے اسے بھی کوشش کرنی ہوگی۔ لیکن جناب مارٹن کوبلر! اکثرپاکستانی سفیر( الا ماشا اللہ) ملک کے لئے نہیں بلکہ اپنی ذاتی ترقی پہ کام کرتے اور ملکی نہیں بلکہ ذاتی پروفائل بناتے پائے گئے ہیں۔ ان کو کیا لگے کہ پاکستان ترقی کرسکتا ہے یا نہیں۔ سیاسی مفادات میں جکڑے ان میں سے بہت سے سفیر اپنے اپنے مخصوص گروپس بنا کر انہی کی دعوتوں کے اسیر ہو رہتے ہیں اور انہی کی آنکھ سے اُس ملک کو بھی دیکھتے ہیں۔

اس معاملے میں ہمارے حکمرانوں کی توجہ بھی تو ان کے ذاتی تعلقات اورمفادات پر بنا ہے۔ آپ وزرائے اعظم تو ایک طرف وزرائے خارجہ کے دوروں کی تفصیل نکال کر دیکھ لیں جو امریکہ، سعودی عرب، چین، یوکے، متحدہ عرب امارات اور ترکی تک جا ختم ہوتی ہے۔ آپ جرمنی، کینیڈا، سکنڈے نیویا، آسٹریلیا، جاپان، افریقن ممالک، ساوتھ امریکن ممالک کی فہرست اٹھا کردیکھ لیں ہمارا وہاں کیا مفاد ہے اور وہ ہماری ترجیح میں کہاں کھڑے ہیں۔ جرمنی کی انٹرنیشنل طلباء کے لئے مفت تعلیم، جرمنی کا نچلی سطح تک نظام حکومت، جرمن ٹرین سسٹم، دنیا کی بہترین موٹر وے (آٹو بان)، دنیا کی بہترین گاڑیاں، صفائی کا بہترین نظام، انرجی سسٹم، بہترین انجینئرنگ غرض کہ کیا ہے جو ہم ان سے سیکھ نہیں سکتے؟ جرمنی بہت سے ہمارے ’دوست‘ ممالک سے بہتر ہمارے ساتھ تعاون بھی کر سکتا ہے۔

آنے والی حکومت سے بھی یہی گزارش ہوگی کہ دنیا کے بہت سے ممالک آپ کو عزت دینا اور تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں۔ کسی اور کی قیمت پر نہیں بلکہ برابری کی سطح پر ہر ایک سے بہتر تعلقات قائم کیجئے۔ بہت سے ممالک کے تعاون سے آپ ایک بہتر پاکستان تعمیر کر سکتے ہیں۔ (تعاون ضروری نہیں معاشی ہو)۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).