عربوں کے — نام میں کیا رکھا ہے


ایک گزشتہ تعزیتی مضمون میں جمشید مارکر صاحب کے چھوٹے بھائی مینو چہر صاحب کی روایت بیان کی تھی کہ ان کا خاندانی نام ”مارکر“ یوں پڑا کہ وہ انگریزوں کو ریلوے لائن کی تعمیر کے دوران گدھوں کی رسد کا کاروبار کرتے تھے اور گدھوں کو داغنے، یا بہ زبان انگریزی ”مارک“ کرنے کے سبب مارکر کہلائے۔ اس خادم کی رائے میں یہ ان کی ایستادگی کردار اور محنت کشی پر استوار ماضی سے عدم محجوبیت کی دلیل ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں، گجراتی میمن گھرانوں کے استثناء سے، ہمارے ہندو مت میں پیوست ماضی کے سبب ہاتھ سے کام کرنے والوں کی تحقیر کا رواج ہے۔ سابق وزیر اعظم پر ان کے خاندانی کاروبار کے سبب اکثر لوہار کی پھبتی کسی جاتی ہے۔

بر سبیل تذکرہ، اس خادم کی باچا خان کی خدائی خدمت گار تحریک سے عقیدت کا ایک سبب ان کا ان مقہور، محنت کش طبقات کے بارے میں انقلابی رویّہ بھی ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہمارا سماج کس قدر ظالمانہ ہے کہ یہاں دوسروں کی محنت پر پلنے والے معزز کہلاتے ہیں جب کہ ہاتھ سے کام کرنے والے لوہار، ترکھان، حجّام، چرواہے، دہقان وغیرہ ذلیل سمجھے جاتے ہیں۔ خدائی خدمت گار تحریک کے اکثر سالار انہی پچھڑے ہوے طبقات سے چنے جاتے تھے اور بڑے بڑے زمین دار اور خان ان کی سر کردگی میں تنظیمی خدمات بجا لاتے تھے۔

اس تمہید کا سبب یہ مشاہدہ ٹھہرا کہ بلاد الشام میں بالخصوص اور عرب دنیا میں بالعموم ماضی کی پیشہ ورانہ وابستگی کسی کے لیے شرم کا سبب نہیں اور نہ ہی بظاہر سماجی ترقی میں مانع ہے۔ جب مسافر دمشق، بیروت، عمّان، دبئی، حمص وغیرہ کی گلیوں میں گھومتا پھرتا ہے تو اکثر دکانوں کے بورڈ یا لوگوں کے نام اچنبھے کا باعث بنتے ہیں۔ ہمارے ہاں کے برعکس، یہاں نام رکھنے کا ایک منضبط رواج ہے جس کی داغ بیل سلطنت عثمانیہ نے ڈالی اور اس کے بعد یورپی قبضے کے دوران اسے لازمی قانونی شکل دے دی گئی۔

یہ نظام یورپی طرز تسمیم سے مستعار ہے اور سابقہ سوویت یونین میں بھی اس کا عام رواج نظر آتا ہے۔ ہر شخص کا ایک ذاتی نام ہوتا ہے، اس کے بعد اس کے باپ کا نام اور آخر میں خاندانی نام، جو بسا اوقات اس شخص کے خاندانی پیشے یا تاریخی، سماجی، قبائلی یا جغرافیائی پس منظر کو ظاہر کرتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جب باقاعدہ مردم شماری کا آغاز ہوا تو حکومتی اہل کاروں نے لوگوں کو پابند کیا کہ وہ اپنا ”خاندانی“ نام لازما بتائیں۔ چنانچہ کسی نے کسی نام کا انتخاب کر لیا، کسی کو ساتھ کھڑے لوگوں نے لقمہ دیا اور کسی کا نام اہل کاروں نے خود ہی لکھ ڈالا۔

ہمارے دفتر میں دو ہم کاروں کے خاندانی نام ”عقاد“ ہیں۔ قارئین کرام کے لیے لفظ ”عقدہ“ یا ”عقد“ اجنبی نہ ہوگا، جس کا اردو مترادف ”گرہ“ ہے۔ وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا۔ پتا چلا کہ یہ ریشم، سوت یا روئی کے ریشوں سے دھاگا بٹنے والوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ لبنان کے موجودہ وزیر اعظم کا نام سعد رفیق الحریری ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا خاندان ریشم بافی سے متعلق رہا ہے۔ سوریہ میں سونے کے زیورات کا بہت بڑا کاروبار ایک خاندان کے پاس ہے جن کا خاندانی نام ”حلّاق“ ہے۔ عربی میں ”حلق“ [تینوں حروف پر فتحہ یعنی زبر] کا مطلب سر یا داڑھی مونڈنا ہے، گویا نائی۔ یہ لوگ کروڑ پتی ہونے کے باوجود بصد افتخار اس شناخت کو نام کا حصہ بناے ہوے ہیں۔ ایسا نہیں کہ مایا کی یافت سے پرسا پہلے پرسو اور پھر پرس رام بن گیا ہو۔ فی الوقت پاکستان میں متعین ایک فلسطینی صاحب کا ایک اسامی کے لیے ٹیلی فون پر انٹرویو کیا تو ان کے اطوار کی ملائمت اور خوش کلامی ان کے خاندانی نام ”لحام“ کے ساتھ عجب محسوس ہوئی کہ لحام عربی میں قصائی کو کہتے ہیں۔

حمص جاتے ہوے راستے میں ایک پٹرول پمپ پر رُکے تو اس کے نام ”جلّاد“ کو دیکھ کر طبعی بزدلی کے سبب کپکپی طاری ہوئی جو اس وقت رکی جب ساتھیوں نے بتایا کہ اس کا مطلب چمڑے کا کاروبار ہے۔ اسی طرح ”صباغ“ [دھوبی یا رنگریز]، ”خباز“ [نان بائی]، حداد [لوہار] اور فلاح [کسان] بھی عام ہیں۔ کچھ نام ترکی الاصل ہیں۔ نوے کی دہائی میں پاکستانی فلموں میں کام کرنے ایک ترک فنکارہ آتی تھیں جن کا نام ”نازاں ساعت چی“ تھا جو ان کے خاندانی پیشے گھڑی سازی کی نشان دہی کرتا تھا۔ اسی قاعدے سے ہمارے ایک رفیق کار کا نام عامر ”قہوہ جی“ ہے۔ شاید اجداد قہوہ یعنی کافی بناتے ہوں گے۔ ایک ساتھی احمد ”زبرنک جی“ ہیں۔ استفسار پر پتا چلا کہ ”زبرنک“ کچھ اور نہیں انگریزی کا ”سپرنگ“ ہے۔ ”بیرق دار“ یعنی فوج میں جھنڈا اٹھانے والے بھی مل جاتے ہیں۔

سب سے زیادہ حیرت ”مظلوم“، ”محجوب“، ”یتیم“ قسم کے خاندانی ناموں پر ہوتی ہے۔ ماشا اللہ یہ سب مرفہ الحال لوگ ہیں اور علی الترتیب عمارتی مشینری، بسکٹ سازی اور سوئٹزر لینڈ کی گھڑیوں کے وسیع و عریض کاروبار چلاتے ہیں۔ ہم کاروں نے قیاس کیا کہ مردم شماری کے دوران فرانسیسی افسران آتے ہوں گے اور ان کے ہمراہ اکثر ترک اہل کار، جو دونوں عربی سے بھی پیدل رہے ہوں گے اور اس کارِ فضول سے اکتائے ہوے بھی۔ ایسے میں جب ان کا قافلہ سپاہیوں کی معیت میں کسی دور دراز گاؤں میں پہنچ کر کسی سے تحکمانہ لہجے میں نام پوچھتے ہوں گے تو ذاتی اور باپ کے نام تک تو ٹھیک، اس کے آگے بندہ گڑبڑا جاتا ہوگا۔ ایسے میں ممکن ہے کہ کسی ہمسائے نے لقمہ دیا ہوگا کہ ”اسے چھوڑیں جی، یہ بے چارہ بہت مظلوم ہے“ یا ”یتیم ہے“ وغیرہ۔

کچھ لوگوں کے خاندانی ناموں سے پتا چلتا ہے کہ وہ کسی عرفیت پر مبنی ہیں۔ ہماری ایک خندہ رو، حسین اور نازک اندام سی ہم کار کا نام ”مونا الدئب“ ہے۔ اس میں ”دئب“ عربی لفظ ”ذئب“ کا شامی لہجہ جس کا مطلب ہے ”بھیڑیا“۔ ہمارے ایک ڈرائیور کا نام ”باسم الدب“ ہے۔ ”دبِ اکبر“ سے تو لوگ واقف ہی ہوں گے۔ دب بہ معنی ریچھ۔ بس انہی کے جسمانی ڈیل ڈول اور یک گونہ خشم گیں تاثر کو دیکھ کر یہ نام مناسب لگا، ورنہ پاکستان یاد آ جاتا جہاں ہمارے ایک بزرگ دوست دستخط کی جگہ نشانِ انگشت سے کام چلاتے تھے مگر نام حاجی محمد عالم تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).