انتخابی نتائج اور آر ٹی ایس پر اعتراضات:حقیقت کیا ہے ؟


پچیس جولائی کو انتخابات مجموعی طور پر پر امن ہوئے، نتائج کی آمد کا سلسلہ بھی سبک رفتاری سے جاری تھا کہ اچانک چند گھنٹوں بعد تقریباً نصف شب معاملہ سست روی کا شکار ہوا اور پھر یکسر تھم گیا۔ پولنگ ایجنٹس کو باہر نکالنے، فارم (پرانا فارم چودہ) سادہ پرچیوں پر بنا کر دینے جیسی شکایات کا چرچا ہونے لگا، ٹی وی چینلز پر میراتھن نشریات میں اس بابت تسلسل سے نشاندہی کی جا رہی تھی، تمام تجزیہ نگار اور اینکرز بار بار الیکشن کمیشن کا موقف سننے کے لئے بے تاب ہو رہے تھے۔ کچھ نے تو الیکشن کمیشن کی جانب سے اس بارے میں غیر ضروری خاموشی پر خوب تنقید بھی کی۔ ہم بھی وہیں موجود تھے۔ الیکشن کمیشن اور آر ٹی ایس کا بیڑا اٹھانے والے نادرا حکام سے بار بار رابطے کر رہے تھے کہ کچھ تو سمجھ آئے کہ آخر ہوا کیا ہے۔ ہم کیا سمجھے اور وہ کیا سمجھاتے رہے، یہ وہ کہانی ہے جس کی وجہ سے ایک بہت بڑی کنفیوژن جنم لے چکی ہے۔ بہر حال رات کے پچھلے پہر سیکرٹری الیکشن میڈیا کے سامنے آئے اور تمام تر اعتراضات یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نتائج اکٹھے کرنے کے لئے ‘آر ٹی ایس،سسٹم کریش کر گیا تھا، اس لئے نتائج کی ترسیل سست روی کا شکار ہے اور اب مینوئلی نتائج مرتب کئے جا رہے ہیں۔ بعد میں چیئرمین الیکشن کمیشن اپنے تمام تر اعلیٰ عہدیداران کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے دکھائی دئیے، انہوں نے بھی تمام تر اعتراضات یکسر مسترد کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے کا غیر حتمی اور غیر سرکاری نتیجہ کچھ یوں جاری کیا کہ جیسے کوئی معرکہ سر کر لیا ہو۔ الیکشن کمیشن کے ہاں رتی برابر پریشانی دکھائی نہ دی۔ امیدوار، سیاسی جماعتیں اور ان کے چاہنے والے البتہ کئی گھنٹوں تک کرب میں مبتلا رہے۔ نتائج میں تاخیر کیوں ہوئی؟ آر ٹی ایس کریش ہوا یا نہیں ہوا؟ الیکشن کمیشن کے ہاں سے کیا بدنظمی ہوئی اور نادرا کا کیا کردار تھا؟ کہانی الجھی یا الجھائی گئی؟ ان گنت سوالات الیکشن کمیشن کا منہ چڑا رہے ہیں۔

ان سوالات کا جواب جاننے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آر ٹی ایس ہے کیا اور آر ایم ایس کیا ہے ؟ آر ٹی ایس یعنی (رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم) ایک موبائل ایپلی کیشن تھی، جسے ڈویلپ کرنے کا پراجیکٹ الیکشن کمیشن نے نادرا کو سونپا، اسی ایپلی کیشن کا کامیاب پائلٹ تجربہ پشاور اور کراچی کے ضمنی انتخابات میں کیا جا چکا تھا۔ آر ٹی ایس کا بنیادی مقصد فارم پینتالیس کی تصویر الیکشن کمیشن اور پی ٹی وی تک پہنچانا تھا یعنی پریزائڈنگ آفیسر نے پولنگ سٹیشن کا نتیجہ فارم پینتالیس پر مرتب کرنے کے بعد اس کی تصویر لے کر اسے آر ٹی ایس ایپلی کیشن کے ذریعے سینڈ کرنا تھا۔ اس آر ٹی ایس کا لنک بیک وقت نادرا، الیکشن کمیشن اور پی ٹی وی کے ہاں دستیاب تھا،جہاں فارم 45 کی مدد سے ابتدائی نتائج نشر ہونا تھے۔ یہاں یہ نکتہ سمجھنا از حد ضروری ہے کہ آر ٹی ایس نامی سسٹم قطعا الیکشن ایکٹ دو ہزار سترہ کا حصہ نہیں۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس پر انحصار کیوں کیا گیا؟

اس پراجیکٹ کے ٹی او آرز دیکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ایپلی کیشن کا مقصد غیر حتمی غیر سرکاری نتائج مرتب کرنا نہیں تھا، بلکہ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج مرتب کرنے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کے سسٹم ‘آر ایم ایس،کی تھی۔ آر ایم ایس یعنی رزلٹ مینجمنٹ سسٹم۔ فارم پینتالیس مرتب ہونے کے بعد پریزائڈنگ آفیسر نے اسے آر او کو جمع کرانا تھا، آر او نے فارم پینتالیس کی بنیاد پر ‘ٹیبولیشن،کر کے (مسترد ووٹوں کا جائزہ لینے کے بعد) فارمولے کے تحت غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج بذریعہ فارم چھیالیس فارم سینتالیس مرتب کرنا تھا۔ پہلے یہ کام فیکس مشین کے ذریعے کیا جاتا تھا، اب کمپیوٹر سسٹم پر آر ایم ایس سسٹم کے ذریعے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج مرتب ہونا تھے۔ تو یہاں پھر سوال الیکشن کمیشن کے لئے ہی پیدا ہوتا ہے کہ آر ٹی ایس ہی کیسے تمام تر تاخیر یا گڑ بڑ کا ذمہ دار ٹھہرا؟ کیا آ ر ٹی ایس ہی نتائج کی ترسیل کا بنیادی ستون تھا؟ کیا ا ر ٹی ایس نے ہی غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج مرتب کرنا تھے ؟ اگر ہاں تو پھر یواین ڈی پی کی مدد سے تیارکردہ آر ایم ایس سسٹم کس مرض کی دوا تھا؟ آر ٹی ایس نے تو فارم پینتالیس کے ذریعے نتائج کی ترسیل کو ممکن بنانا تھا، اور وہ بھی اسی صورت میں کہ جب فارم پینتالیس ہاتھ سے مرتب کر لیا گیا ہو، اور حسب معمول فارم پینتالیس تو یقیناً بر وقت مرتب کر لئے گئے ہوں گے، کیونکہ اس سلسلے میں تو کسی ایپلی کیشن کی ضرورت نہ تھی،جب فارم پینتالیس ہاتھ سے مرتب ہو چکے تھے اور آر ٹی ایس کریش کر گیا تھا تو اسی فارم کو آر او کے پاس لے جا کر آر ایم ایس پر انحصار کیوں نہ کیا گیا کہ آر ایم ایس کے ذمے اصل کام تو یہی تھا۔

یہ وہ سوال ہیں جو ہم نے پچیس اور چھبیس جولائی کی درمیانی شب جب نتائج کا سلسلہ یکسر رک گیا تو بار بار اپنی ٹرانسمیشن میں اٹھایا۔ ممتاز تجزیہ کار اور نامور اینکر کامران خان صاحب سے اسی موضو ع پر میری تقریبا چار بجے شب گفتگو ہوئی۔ انہوں نے بھی الیکشن کمیشن کی توجیہات پر حیرت کا اظہار کیا۔ اور پھر جب یہی شکایات سیاسی جماعتوں کے ہاتھ لگی تو انہوں نے اسے عجب رنگ دینا شروع کردیا اور ان اداروں کو بھی بیچ میں لانے کی کوشش کی جن کا آر ٹی ایس یا آر ایم ایس سے سرے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یعنی یہ بات تو الیکشن کمیشن سے پوچھی جانی چاہیے کہ آر ٹی ایس پر کلی انحصار کیوں کیا گیا؟اور اگر یہ ایپلی کیشن کریش کر گئی تھی تو پھر فارم پینتالیس کی مدد سے آرایم ایس کے ذریعے نتائج فوری کیوں نہ مرتب کئے گئے ؟ پھر بھی تاخیر کیوں ہوئی؟ اور اگر آر ٹی ایس کریش کر ہی گیا تھا تو یقیناً اس بات کے ثبوت پی ٹی وی، الیکشن کمیشن اور نادرا کے ہاں ایپلی کیشن کے ‘لاگ” میں ضرور دستیاب ہوں گے۔ الیکشن کمیشن جو پہلے ان تحفظات کو خاطر میں ہی لانے کو تیار نہ تھا اب کیبنٹ ڈویژن تک جا پہنچا ہے اور ایک خط کے ذریعے معاملے کی انکوائری کا خواہاں ہے۔ ٹیکنالوجی بورڈ اور پی ٹی اے کے ماہرین سے کہا گیا ہے کہ وہ چار ہفتوں کے اندر معاملے کی انکوائری کریں۔ چونکہ ایپلی کیشن کے کریش ہونے یا نہ ہونے کے انمٹ شواہد ایک سے زائد مقامات پر دستیاب ہوں گے، لہٰذا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

زیادہ مناسب ہوتا کہ گرینڈ اپوزیشن کے بڑھتے ہوئے اعتراضات اور تحفظات کی تشفی کے لئے سرکار اس انکوائری کو پارلیمانی انکوائری میں بدل دیتا۔ اس انکوائری میں اپوزیشن جماعتوں کی نمائندگی سے انگلیاں اٹھنے کا سلسلہ رک سکتا ہے۔ آزاد ماہرین کی ٹیم جنہیں تمام تر متعلقہ ادروں کی مکمل سپورٹ حاصل ہو اس معاملے کو چند دنوں میں سلجھا سکتی ہے۔ یعنی حد ہے ! کہاں ایک ارب اور پھر چار ارب اور اب کی بار اکیس سے بائیس ارب کا خرچہ اور پھر بھی نتائج پر ان گنت اعتراضات۔ الیکشن کمیشن کب تک محض آر ٹی ایس پر ہی ملبہ ڈال کر اپنی خفت مٹانے کی کوشش کرتا رہے گا؟

دو ہزار پندرہ میں موجودہ نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک صاحب کی سربراہی میں قائم دھاندلی کمیشن نے اپنی فائنڈنگز میں انتخابی عمل کو بہتر بنانے کے لئے چار سفارشات پیش کی تھیں، ان میں پلاننگ، ٹریننگ، کوآرڈی نیشن اور مانیٹرنگ ایسے اہم نکات شامل تھے۔ کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود انتخابی عمل کے تین روز بعد الیکشن کمیشن نے نتائج کی غیر حتمی صورت واضح کی۔ حالیہ انتخابات کے نتائج میں طویل تاخیر، آر ٹی ایس کریش ہونے کی کہانی اور اب انکوائریاں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ پلاننگ اور کوآرڈی نیشن میں بہت بڑا خلا بہر حال رہ گیا تھا۔

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami