جمائما کے ٹویٹ کا آخری جملہ


جب بائیس برس قبل عمران خان نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تو اس سفر کا نکتہِ آغاز آئیڈیل ازم تھا۔یعنی پاکستان کو ایک ایسا کرپشن فری میرٹ کو ترجیح دینے والا ملک بنانا ہے جس میں ہر شہری کو بلا امتیازِ جنس، رنگ و عقیدہ و علاقہ ترقی کرنے کا مساوی موقع ملے۔ملک سے فرسودہ سیاسی سوچ اور باقیات کا خاتمہ ہو اور ان کی جگہ وہ نوجوان قیادت سنبھالے جسے نہ صرف اردگرد کے بارے میں کماحقہ آگہی ہو بلکہ یہ بھی سمجھے کہ اس کی نظریاتی و سیاسی سمت کیا ہے۔

تحریکِ انصاف کے قافلے میں کسی مرغِ بادِ نما، مفاد پرست و خود غرض سیاست کے کسی امین یا روائیتی اسٹیبلشمنٹ کے روائیتی کاسہ لیسوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہو گی۔اقتدار میں آنا ہے تو اپنے زورِ بازو پر، کوئی بیساکھی، کوئی شارٹ کٹ استعمال نہیں ہوگا۔سفر بھلے کتنا ہی طویل و صبرآزما ہو مگر میرٹ اور عوام دوست سیاسی کلچر کی قیمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

نیز اس ریاست میں قائدِ اعظم کے خوابوں کے مطابق مدنی ماڈل پر اسکنڈے نیویا کی طرز پر ایسا فلاحی معاشرہ تشکیل دیا جائے گا جہاں کوئی قانون بالادست کے تحفظ و زیر دست طبقات کو کچلنے کے لیے نہ ہو بلکہ قانون ایسا سماجی ڈھانچہ تشکیل دے جس میں ہر شہری اسٹیک ہولڈر ہو اور اس احساسِ ملکیت پر فخر کر سکے اور سبز پاسپورٹ لہراتا ہوا پوری دنیا میں گھوم سکے اور باقی دنیا پاکستان اور اس کے متبسم شہریوں کو رشک سے دیکھے۔

ظاہر ہے ساٹھ برس سے دکھائے جانے والے خوابوں کی ڈسی میرٹ کلچر کو ترسی مڈل کلاس اور پڑھے لکھے بیروزگار نوجوان کو رفتہ رفتہ اس پکار کی جانب متوجہ ہونا ہی تھا۔یوں تیس اکتوبر دو ہزار گیارہ کو مینارِ پاکستان پر ہونے والے تاریخی جلسے سے تحریکِ انصاف کے عوامی سفر کا آغاز ہوا۔ بہت بڑے اسٹیج پر صرف پاکستان کا جھنڈا تھا۔اس جلسے میں عمران خان نے جس جامع انداز میں اپنا ’’پاکستان ویژن‘‘ پیش کیا۔یقیناً اس کی تیاری میں خاصی محنت کی گئی ہو گی۔اگر عمران کے بائیس سالہ سفر میں ان کی سب سے بہتر کوئی ایک تقریر نکالی جائے تو وہ وہی تیس اکتوبر والی تقریر ہے۔

آج مینارِ پاکستان کے جلسے کو تقریباً سات برس ہونے کو آئے۔اب جب کہ عمران خان اور وزیرِ اعظم کی کرسی کا درمیانی فاصلہ سمٹ کر ہفتے بھر کا رہ گیا ہے تو کچھ باتیں یاد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اس بارے میں عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان کا وہ ٹویٹ آج نہیں تو کل تاریخی اہمیت ضرور حاصل کرے گا جو انھوں نے چھبیس جولائی کو لکھا۔

’’ بائیس برس بعد اتنی کردار کشی، رکاوٹوں اور قربانیوں کے بعد میرے بیٹوں کا باپ پاکستان کا نیا وزیرِ اعظم ہے۔ یہ ثابت قدمی، یقین اور شکست ماننے سے انکار کا ثمر ہے۔ اب چیلنج یہ یاد رکھنا ہے کہ آپ نے سیاست میں قدم کیوں رکھا؟ مبارک ہو‘‘۔

اوپر عرض کیا جا چکا ہے کہ عمران خان نے کیوں سیاست میں قدم رکھا؟ آج عمران خان کے گرد اتنا جمگھٹا ہے اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ وہ کامیاب ہو چکے ہیں۔مگر اس جمگھٹے میں ایسے کتنے لوگ ہیں جو بائیس برس پہلے اس وقت عمران خان کے ساتھ سفر پر نکلے تھے جب تحریکِ انصاف صرف ایک آئیڈیا تھا اور منزل کا نشان دور دور نہیں تھا۔ان میں سے کتنے بنیادی لوگ ہوں گے جو چودہ یا پندرہ اگست کو ایوانِ صدر میں پہلی نہیں تو دوسری قطار میں ضرور نظر آ رہے ہوں گے؟

ہیں محبتوں کی امانتیں یہی ہجرتیں یہی قربتیں

دیے بام و در کسی اور نے تو رہا بسا کوئی اور ہے

(نصیر ترابی)

اگرچہ کامیابی کے بعد ایسا ہی ہوتا ہے مگر لیڈر کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے اپنا سفر کن کے ساتھ کن حالات میں شروع کیا تھا اور آج اگر وہ اس کے دائیں بائیں نہیں دکھائی دے رہے تو ایسا کیوں؟

مجھے آج کل تیس نومبر انیس سو سڑسٹھ کا وہ گروپ فوٹو یاد آتا ہے جس میں تین ساڑھے تین سو لوگ ذوالفقار علی بھٹو کے خوابوں کو تعبیر دینے لاہور کے ایک خالی پلاٹ میں جمع ہوئے تھے۔اگلے دس برس میں پیپلز پارٹی کو اقتدار بھی ملا اور عروج بھی۔مگر جب کالے بادل چھانے لگے تو بھٹو کے اردگرد پہلے گروپ فوٹو میں نظر آنے والے چہروںکے بجائے چوری کھانے والے مجنوں زیادہ تھے۔لہذا ایک بار پھر جدوجہد کا بارگراں کارکنوں کو ناتواں کندھوں پر اٹھانا پڑ گیا۔

بھٹو کا بھی خیال تھا کہ اگر لیڈر باصلاحیت، آدرشی اور مقبول ہو تو پارٹی میں کوئی بھی آئے جائے لیڈر کی گرفت ڈھیلی نہیں ہوتی۔آج یہی دلیل جب عمران خان کے منہ سے سنتا ہوں تو ذہن سے بیالیس برس پہلے کی صدائے بازگشت ٹکراتی ہے اور دل سوچتا ہے کہ کاش لیڈر کا سارا بھروسہ صرف اپنے پر نہ ہوتا تو اگلے بیالیس برس شائد ایسے نہ گزرتے۔

تو کیا اتنی کاذب صبحوں کے بعد بالاخر اب صبحِ صادق ہویدا ہو رہی ہے؟ باتوں سے تو یہی لگ رہا ہے۔ارادے بھی نیک ہیں۔ مگر جو کہا جا رہا ہے وہ ہوگا کیسے؟ کیا بیل کو سینگوں سے پکڑ پائیں گے ؟

مجھے اچھا لگا جب عمران خان نے کامیابی کے بعد پہلی تقریر میں کہا کہ میں خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے کروڑوںپاکستانیوں کو اسی طرح غربت سے نکالنا چاہتا ہوں جس طرح چین نے پچھلے تیس برس میں اپنے چالیس کروڑ انتہائی غریبوں کو غربت کے کنوئیں سے نکالا۔ چین نے یہ کیسے کیا؟ ہم ان سے رہنمائی لیں گے اور ان کے ہاں جا کر دیکھیں گے کہ ایسا ہم بھی کیوں نہیں کر سکتے؟

ویسے اس کام کے لیے بطورِ خاص چین جانے کی ضرورت ہی نہیں۔بس چین کی طرح جاگیر دارانہ تسلط سے جوج رہے نظامِ ریاست کو اکھاڑ پھینکیے، لوگ غربت کو اپنے ہاتھوں خود ہی اکھاڑ پھینکیں گے۔اسکنڈے نیویا کی طرز پر فلاحی ریاست کیسے قائم ہوگی؟

اس کے لیے اسکنڈے نیویا جانے کی ضرورت نہیں۔بس اتنا کرنا ہے کہ اسکنڈے نیویا کی طرح آس پاس کے ملکوں کے ساتھ امن قائم ہو جائے تاکہ دفاعی اخراجات قابو میں آ جائیں اور ٹیکس نظام اسکنڈے نیویا کی طرح قائم ہو جائے جس میں چوری یا کالے دھن کو کتابوںمیں چھپانے کی گنجائش ہی نہیں۔اسی پیسے سے آبادی میں تعلیمی و سائنسی ہنرمندی بڑھائیے، جتنی ہنرمندی بڑھے گی اتنی ہی ہائی ٹیک صنعت لگے گی، جتنی صنعت لگے گی اتنا ہی ایکسپورٹ اور روزگار بڑھے گا۔ یوں رفتہ رفتہ ایسی فلاحی ریاست قائم ہو جائے گی جس میں دینے والے زیادہ اور لینے والے کم ہوتے چلے جائیں گے۔اگر آپ یہ دو بنیادی کام نہیں کر سکتے تو وہ بھی نہیں ہو پائے گا جس کے لیے آپ سیاست میں آئے تھے۔

لیکن فی الحال تو دو کام فوری کرنے کے ہیں۔ایک تو انگلیوں پر کھڑی ساجھے کی حکومت کو اگلے پانچ برس گرنے سے بچانا ہے۔ دوم قرضوں کی قسط بھرنی ہے اور سوم جنہوں نے اس مقام تک پہنچانے میں جیسی اور جتنی بھی مدد کی اس کا بدلہ قسط وار بنا ہچر مچر اتارنا ہے اور اقتدار کے چوتھے برس میں یہ کہنا ہے کہ ہم تو سب وعدے پورے کر گزرتے مگر حزبِ اختلاف نے سانس لینے کا موقع ہی نہیں دیا اس لیے اگلی بار دو تہائی مینڈیٹ دیجیے تاکہ نئے پاکستان کی دیواریں بنا کوئی کندھا استعمال کیے اٹھائی جا سکیں۔اور اس پورے عرصے میں جمائما گولڈ اسمتھ کے ٹویٹ کے آخری جملے کو بھی نہیں بھولنا۔

’’ اب چیلنج یہ بات یاد رکھنا ہے کہ آپ نے سیاست میں قدم کیوں رکھا ؟‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).