ہرن اور جنگلی درندے


دارالحکومت میں ایک چڑیا گھر ہے جسے مرغزار کہتے ہیں۔ اس چڑیا گھر کے کچھ بچے بھی ہیں، یعنی چھوٹے چھوٹے چڑیا گھر! جو شہر کی مختلف شاہراہوں کے کنارے، گرین ایریاز میں واقع ہیں۔ کسی میں پرندے ہیں، کسی میں دلکش مور اور کہیں خوبصورت معصوم ہرن۔ ان چھوٹے چڑیا گھروں میں سے ایک پر دو روز پہلے کسی جنگلی جانور نے شب خون مارا۔ پانچ ہرن ہلاک کردیئے اور چھٹے کو شدید زخمی۔

اہلکاروں کا خیال ہے کہ یہ جنگلی جانور کتا تھا یا گیدڑ مگر چڑیا گھر کے بڑے افسر کا کہنا تھا کہ یہ کام بھیڑیے ہی کا ہو سکتا ہے۔ بہرحال بھیڑیا تھا یا بھیڑیا نما بڑے سائز کا کتا، ایک اہلکار نے اپنی بندوق سے اسے کیفر کردار تک پہنچا دیا۔ کتے ہوں یا بھیڑیے یا گیدڑ، ایک بار معصوم ہرنوں کے خون کی چاٹ ان کے سفاک دہانوں کو لگ جائے تو یہ چین سے نہیں بیٹھتے۔ پھر یہ ہمیشہ شکار کی تلاش میں رہتے ہیں۔

بعض جنگلی جانور تو صرف ایک وقت کے شکار پر اکتفا کرتے ہیں مگر کچھ اتنے لالچی، حریص، خسیس، طالح، بوالہوس، سفاک اور ظالم ہوتے ہیں کہ گوشت جمع کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی زندگی مختصر ہے۔ وہ کئی نسلوں کے لیے گوشت کو محفوظ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ جب ان کے بھٹ ذخیرے سے بھر جاتے ہیں تو دوسرے جنگلوں میں بھٹ بنا لیتے ہیں۔

ان میں ایسے ایسے جانور ہیں کہ اپنے جنگل کے علاوہ دوسرے کئی جنگلوں میں ان وحشیوں نے بھٹ بنا رکھے ہیں۔ ہر بھٹ گوشت سے بھرا ہے۔ ان جنگلی جانوروں کے بچے بھی لالچی ہو جاتے ہیں۔ وہ بھی ماں باپ کے ساتھ مل کر ان ذخیروں پر یوں بیٹھ جاتے ہیں جیسے خزانے پر سانپ۔

مگر یوں بھی ہوتا ہے کہ ہرنوں میں سے کوئی ہرن ہمت کرتا ہے اور ہرنوں کو جمع کرکے انہیں بتاتا ہے کہ تم ایک عرصہ سے ان درندوں کے استحصال کا شکار ہو۔ وہ ان سے پوچھتا ہے کہ کب تک مرتے رہو گے؟ کب تک تمہارا گوشت یہ درندے ذخیرہ کرتے رہیں گے؟

ہرن سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان میں شعور پیدا ہونے لگتا ہے۔ انہیں احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ مظلوم ہیں۔ ان کے ساتھ بربریت کا سلوک ہو رہا ہے۔ جنگلی جانور ان کا گوشت کھا کھا کر ہٹے کٹے ہو گئے ہیں۔ جنگلی جانوروں کی اولاد میں بھی رعونت آ گئی ہے۔ بھیڑیوں کتوں گیدڑوں کے بچے بھی ہرنوں کو اپنا ٹارگٹ سمجھنے لگے ہیں۔ اس ذہنی بیداری کے بعد ہرن متحد ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

جس ہرن نے انہیں مظالم کا احساس دلایا تھا اسے اپنا لیڈر بنا لیتے ہیں، پھر وہ اپنی حفاظت کا انتظام کرنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ جنگلی جانوروں کے لیے ان کا مزید شکار مشکل ہوجاتا ہے۔ پہلے تو یہ جنگلی جانور انفرادی حیثیت میں ہرنوں کو مار رہے تھے۔ اب جب ہرن متحد ہو کر ان کی چیرہ دستی کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں تو یہ وحشی بھی متحد ہونے لگتے ہیں۔

مگر ان کا اتحاد عجیب رنگ دکھاتا ہے اور حیرت انگیز شکل اختیار کرتا ہے۔ بربریت، سفاکی اور گوشت خوری سب میں مشترک ہے۔ پہلے ایک دوسرے سے گوشت چھیننے میں لگے رہتے تھے، گھات لگا کرایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے تھے۔ کبھی ایک، دوسرے کو دھمکی دیتا تھا کہ میں تمہارا پیٹ پھاڑ کر سارا گوشت باہر نکال دوں گا۔ کبھی دوسرا پہلے کو کہتا تھا کہ میں تمہیں جنگل کی ایک ایک پگڈنڈی پر گھسیٹوں گا۔

ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔ انہوں نے جنگل کے مختلف حصوں کو اپنی سلطنت بنایا ہوا تھا اور اس میں یوں دندناتے پھرتے تھے جیسے یہ باپ کی جاگیر ہو جہاں جہاں قابض تھے۔ وہاں تباہی مچا رکھی تھی۔ خون پیتے تھے۔ گوشت کھاتے تھے۔ گوشت کی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے۔

لومڑیوں، گدھوں کو اپنا ایجنٹ بنایا ہوا تھا۔ یہ لومڑ، یہ گدھ ان کے لیے ہرن، بکریاں، پرندے اور دیگر معصوم جانور پھانستے تھے۔ مگر اب یہ سب متحد ہو گئے۔ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہرن اتنی طاقت پکڑ لیں گے۔ یہ تو ہرنوں کے لیڈر کا مذاق اڑاتے تھے۔ پھبتیاں کستے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہرنوں کے لیڈر کا برسراقتدار آنے کا کوئی امکان ہی نہیں۔

اب جب انہیں نظر آ رہا ہے کہ ان کی چیر پھاڑ بند ہو جائے گی اور ہرنوں کے تیور اور ہیں تو یہ متحد ہو کر ایک مضحکہ خیز ٹولے کی شکل بن گئے ہیں۔ کوئی اپنے نوکیلے دانت دکھارہا ہے جن پر خون صاف دکھائی دے رہا ہے۔ کوئی اپنے تیز پنجے ہوا میں لہرا کر غرا رہا ہے جو بظاہر نیک جنگلی جانور تھے، وہ بھی ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں اس لیے کہ بنیادی طورپر یہ بظاہر نیک جانور بھی درندے ہی ہیں۔

مقصد سب کا ایک ہے، ہرنوں کا شکار کرنے سے گوشت کھانے سے، خون پینے سے کوئی منع نہ کرے۔ کھلی چھٹی ہو۔ ہرن ہمیشہ غلام رہیں۔ اپنا گوشت اپنا خون ان درندوں کو پیش کرتے رہیں، جنگل میں ان کی من مانی ہو۔ ان کا ایک اور مطالبہ اس پہلے سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ وہ یہ کہ ہم جتنے ہرنوں کو چاہیں، چیر پھاڑ دیں، کوئی محافظ آ کرگولی نہ چلائے، کوئی اس چیر پھاڑ میں مداخلت نہ کرے۔

اب یہ نعرے لگا رہے ہیں کہ یہ ہمارا اور ہرنوں کا معاملہ ہے۔ محافظ اہلکار کون ہوتے ہیں درمیان میں پڑنے والے۔ مگر ہرن خوب سمجھتے ہیں کہ محافظوں سے اور چوکیداروں سے ان وحشیوں کی کیا دشمنی ہے۔ یہ محافظ، یہ چوکیدار، ان کے راستے کی رکاوٹ ہیں، یہ آگے سے ہٹ جائیں تو یہ آخری ہرن کو بھی کھا جائیں گے۔ ہرنوں کا مطالبہ اب محافظوں سے یہ ہے کہ ان بھیڑیوں، گدھوں اور لومڑیوں کے بھٹ اور ٹھکانے ڈھونڈے جائیں۔ ایک ایک کی تلاشی لی جائے۔

حرام کے گوشت کی ایک ایک بوٹی، ایک ایک چانپ، ایک ایک دستی ان سفاک وحشیوں سے واپس لی جائے۔ انہیں جنگل سے بے دخل کیا جائے تاکہ ہرن اپنی زندگیوں کے خود مالک ہو سکیں۔ دارالحکومت میں پانچ معصوم بے گناہ ہرنوں کی ہلاکت نیک شگون نہیں ہے مگر امید کی کرن اس خون ریزی میں یہ نظر آ رہی ہے کہ بندوق بردار نے اپنا فرض ادا کر کے ظالم گوشت خور کو ہلاک کردیا۔

اندازہ لگائیے، جن ہرنوں کے محافظ نہیں ہوتے، ان کا کیا حشر ہوتا ہوگا؟ ان پر حملہ کرنے والے بھیڑیوں کی تو پانچوں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہوتا ہوگا۔ کچھ ہرن جو بے وقوف ہیں۔جنگلی جانوروں کی ہاں میں ہاں ملا کر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ بندوق بردار درمیان سے ہٹ جائیں تو وہ خود ان وحشیوں سے نمٹ لیں گے مگر یہ ان کی خام خیالی ہے۔

جن جنگلوں میں بندوق بردار محافظ نہیں ہوتے، وہاں نہ صرف مقامی جنگلی جانور آزادی سے گوشت کھاتے اور خون پیتے ہیں، بلکہ دوسرے جنگلوں سے بندوق بر دار بھی آ گھستے ہیں جو ہرنوں پر بالکل رحم نہیں کرتے۔ پھر جنگلی جانور اور غاصب سامراجی بندوق بردار مل کر ہرنوں پر ظلم کرتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا: ہر جنگل میں بندوق بردار ہوتے ہیں۔ اپنے نہ ہوں تو دوسرے جنگلوں سے آ جائیں گے۔

بشکریہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).