محکمہ جنگلات حاضر ہو!


اگست کا مہینہ آ لگا ہے اور ہر بار کی طرح اس سال بھی بے حسی کی گرد جھاڑ کے لوگ اٹھے ہیں کہ بہتری کے لیے کچھ کیا جائے۔

اس بار سب کا زور ،’درخت’ لگانے پہ ہے۔ ایسی تحریکیں چونکہ اکثر بے سری ہوتی ہیں، اس لیے اٹھتی تو بہت زور سے ہیں لیکن پھر یا تو کسی مفاد پرست کے ہتھے چڑھ کے اپنا مقصد کھو بیٹھتی ہیں یا کسی وجہ سے پر تشدد ہو کے بدنام ہو جاتی ہیں یا مناسب اور مؤثر، حکمت عملی اور علم نہ ہونے کی وجہ سے مضحکہ خیز شکلیں اختیار کر کے ختم ہو جاتی ہیں۔

لوگ درخت لگانا چاہ رہے ہیں۔ بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں بھی سر گرمِ عمل ہیں۔ جو طریقہ چنا جا رہا ہے اسے میں ’گوریلا پلانٹیشن‘ کا نام دوں گی۔ ’گوریلا جنگ‘ کی طرح اس کا مقصد بھی نیک ہے لیکن اس کام کے لیے موجود اداروں کی بجائے، رضاکار یہ کام کرنا چاہ رہے ہیں اور ظاہر ہے ان کو فراہم کردہ فنڈ بھی کوئی دے رہا ہے۔

جس جگہ یہ درخت لگائے جائیں گے وہ زمین بھی رضا کاروں کی تو ہو گی نہیں، یا تو سرکاری ہو گی یا پھر کسی کی ملکیت۔ ذاتی زمین پہ لگائے ہوئے درخت، اس شخص کی ملکیت ہوتے ہیں جس کی وہ زمین ہے۔ سرکاری زمین پہ لگائے ہوئے درخت، جس ادارے کی زمین ہے اس ادارے کی ملکیت تصور کیے جاتے ہیں۔

پاکستان ایک باقاعدہ قسم کی ریاست ہے، جہاں ہر کام کے لیے بہت بڑے بڑے ادارے بنے ہوئے ہیں اور ان اداروں کے اخراجات پورے کرتے کرتے ٹیکس گزاروں کی کمریں دہری ہو چکی ہیں۔

محکمہ جنگلات بھی ایک بہت بڑا محکمہ ہے، جس میں اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں ملازمین تو ہوں گے ہی۔ہزاروں ایکڑ زرخیز تریں اراضی بھی جنگلات کی مد میں مختص ہے۔

درخت بچانے کی مہم
جنگلات کے ہزاروں ایکڑ سرکاری رقبے سے ٹنوں لکڑی برآمد ہو گی۔ یہ اتنی بڑی کامیابی ہو گی کہ قرضے اور چندے مانگنے سے نجات مل جائے گی۔ ( فائل فوٹو)

پنجاب میں ہی کم وبیش بیسیوں سرکاری جنگل موجود ہیں جن میں چند سال پہلے تک ہزاروں درخت موجود تھے۔ محکمہ جنگلات اور ٹمبر مافیا میں کچھ ایسا رشتہ بنا کہ سب درخت ہڑپ کر یلے گئے۔ ہر سال لاکھوں درخت لگانے کا اعلان ہوتا ہے مگر مجال ہے جو ایک ٹہنی بھی کہیں نظر آئے۔

سرکاری نرسریوں میں کم لاگت سے تیار کیے جانے والے داب، مہنگے داموں باہر فروخت کر دیے جاتے ہیں۔ سڑکوں، ریلوے لائینوں اور نہروں کے کنارے درخت لگانا، پہلے سے موجود جنگلات میں تیار شدہ درختوں کے کاٹ لیے جانے کے بعد ان کی جگہ نئے درخت لگانا، اس سب کا ایک بہت مربوط نظام موجود ہے۔ ضرورت صرف اس آہنی ہاتھ کی ہے جو تقریروں اور تحریروں میں فریم ہو کر رہ گیا ہے۔

رضاکاروں کو زحمت تب دی جائے جب ہمارے ٹیکس سے چلنے والا محکمہ جنگلات اپنا فرض پورا کرنے کو کھڑا ہو۔ ہر سال سکولوں کالجوں کے بچے، خواتین، سماجی کارکن، لاکھوں کی تعداد میں درخت لگاتے ہیں لیکن کیا ایک کونپل بھی بچی؟ نظام بدلنے یا انقلاب لانے کی بجائے، پہلے سے موجود نظام کو ہی جھاڑ پونچھ کر سیدھا کیجیے۔

مزید یہ کہ، جب بھی درخت لگائے جائیں، دو باتوں کا خیال رکھا جائے۔ ایک تو درخت مقامی ہو، تاکہ اس کو پنپنے میں زیادہ مشکل نہ ہو۔ دوئم، اس کی لکڑی قیمتی ہو تاکہ جب درخت تیار ہو تو کسی فائدے کا ہو۔ آبادیوں میں پھل دار پودے لگائیے۔

امید ہے کہ تحریکِ انصاف کی ’انقلابی حکومت‘ یومِ پاکستان تک حلف اٹھا چکی ہو گی۔ سیاسی جوڑ توڑ نے اگر ان کے حواس باقی چھوڑے اور جناتی حزب اختلاف کے سامنے کچھ کر پائے تو پہلے محکمہ جنگلات کو سوتے سے جگائیں، جہاں جنگلات ہیں، وہاں جنگلات اگائیں اور اپنے الیکٹ ایبلز کی جیبیں بھی جھاڑیں۔

ہزاروں ایکڑ، سرکاری رقبہ جو جنگلات کا ہے اور ٹنوں لکڑی برآمد ہو گی۔ مجھے امید ہے کہ یہ اتنی بڑی کامیابی ہو گی کہ قرضے اور چندے مانگنے سے نجات مل جائے گی۔

ریاستیں، ایک نظام کے تحت چلتی ہیں۔ جنون، جذبہ، دیوانگی، لمحاتی جذبات ہیں۔ یہ جذبے زندہ رہنے چاہیں لیکن ملک چلانے کے لیے اداروں کو مضبوط کرنے اور اپنے اپنے دائرے میں اپنے اپنے کام ایمانداری سے انجام دینے چاہیں۔ اتحاد، ایمان اور تنظیم میں فلاح ہے۔

قومیں نظم و ضبط سے چلتی ہیں۔ وقتی اشتعال اور جذباتی نعرے سواء ایک بے سری فوج کے کچھ پیدا نہیں کرتے۔ ہمیں ہجوم نہیں قوم بننا ہے۔ اداروں کو مضبوط کیجیے۔ محکمہ جنگلات کو لائن حاضر کیجیے اور شجر کاری میں ان کے ساتھ کھڑے رہیے ۔ اگلے سال ان سے اس سال کی شجر کاری کا حساب لیجیے یہ آ پ کا جمہوری حق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).