قوت پکڑتا دشمن اور آپس میں الجھی قوم


\"edit\"بھارت نے اتوار کی صبح ایک ایسے سپر سانک انٹر سیپٹر Supersonic Interceptor Missile کا تجربہ کیا ہے جو دشمن کے سپر سانک میزائل کو ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ میزائل سسٹم بھارت کی مقامی مہارت اور اپنے وسائل سے تیار کیا گیا ہے اس طرح اس کی دفاعی صلاحیت میں قابل ذکر اضافہ ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے ریڈیو پاکستان کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان اس مسئلہ کو عالمی سطح پر اٹھائے گا کیونکہ بھارت کی ان جنگی تیاریوں سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑرہا ہے۔

اس سے ایک روز پہلے ہی پاکستانی مبصرین اور دفاعی نظام سے وابستہ ماہرین نے خبردار کیاتھا کہ بھارت اپنی جنگی مشینری کو متبادل اسٹرائک حکمت عملی کے لئے تیا کررہا ہے۔ اس مقصد کے لئے بحر ہند میں ایٹمی میزائیلوں سے لیس آبدوزیں متعین کی جارہی ہیں اور طیارہ بردار جہاز میں جدید آلات نصب کئے گئے ہیں۔ ان تیاریوں کا پاکستان کے دفاع پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ اس لئے اس میں شبہ نہیں ہے کہ پاکستان بھی بھارت کی ان تیاریوں کا بھرپور جواب دینے کی کوشش کرے گا۔ اس طرح اس علاقے میں اسلحہ کی دوڑ اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں کی وجہ سے برصغیر کے عام لوگوں کے روزگار، صاف پانی اور تعلیم جیسے بنیادی مسائل متاثر ہوں گے۔ پاکستان کم آبادی اور کم وسائل کا ملک ہے لیکن اسے بھارت جیسے بڑے اور جارحانہ عزائم رکھنے والے ملک کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے ۔ موجودہ صورت حال میں اس کے پاس بھارت کی جنگی مشینری کا مقابلہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ تاہم اسلحہ کی یہ دوڑ ان ملکوں کے عوامی مسائل کے لئے بری اطلاع ہونے کے علاوہ عالمی امن اور ایٹمی جنگ کے خطرہ کے حوالہ سے بھی بھیانک اور تشویشناک خبر ہے۔ پاکستان اور بھارت دو ایسی ایٹمی طاقتیں ہیں جو جوہری ہتھیاروں کی پیداوار کو کم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ان دونوں ملکوں کے لیڈر جنگ کی صورت میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی بات کھلم کھلا انداز میں کرتے رہتے ہیں۔ اس سے ان ملکوں کے مزاج اور طرز عمل کے بارے میں کسی غلط فہمی کی بجائے اس علاقے میں ہتھیاروں کی دوڑ کو محدود کروانے کے لئے عالمی کوششوں کی ضرورت ہے۔

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک بھارت کو چین کے خلاف تیار کرنے کی دھن میں برصغیر میں ایک خطرناک صورت حال پیدا کرنے کا موجب بن رہے ہیں۔ اس حکمت عملی میں بھارت کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ یہ کوششیں بدستور ناکام رہی ہیں۔ مستقبل میں بھی پاکستان اس وقت تک بھارت سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس کا مقابلہ کرتا رہے گا ، جب تک دونوں ملکوں کے درمیان موجود مسائل خوش اسلوبی سے حل نہیں کرلئے جاتے اور اعتماد کی فضا پیدا نہیں ہوتی۔

بھارت جس وقت بلاسٹک میزائل شکن میزائل کا تجربہ کررہا تھا، پاکستان کے آرمی چیف چین کے دورہ پر تھے اور دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعاون کا معاملہ ایجنڈے پر موجود ہے۔ پاکستان نے ابھی تک اپنی دفاعی ضرورتوں کے لئے امریکہ کی طرف دیکھا ہے اور سمجھا ہے کہ بھارت کے ساتھ کسی تصادم کی صورت میں امریکہ اس کی مدد کرے گا۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے میں سامنے آنے والے واقعات سے یہ امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔ دوسری طرف ملک کے سیاست دان فی الوقت ایک دوسرے کی گردن ماپنے اور نیچا دکھانے میں ذیادہ سرگرمی دکھارہے ہیں لیکن ملک کے با اختیار حلقوں کو خطے میں جنگی تیاریوں سے پیدا ہونے والی صورت حال پر ضرور سخت تشویش ہوگی۔ کافی عرصہ سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا فوکس امریکہ کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ لیکن اب چین کے ساتھ تعلقات معاشی تعاون اور انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے علاوہ مشترکہ دفاعی اور فوجی منصوبے تیار کرنے تک پہنچ رہے ہیں۔ امریکہ اگر بھارت کی سرپرستی کے ذریعے پاکستان کو غیر محفوظ اور چین کو مشتعل کرنے کی کوشش کرتا رہے گا تو مستقبل کی اسٹڑیٹیجک تصویر میں پاکستان اور چین بھارت کے سامنے ہوں گے اور دنیا تصادم کی ایک نئی صورت حال کی طرف بڑھ رہی ہوگی۔

ایسے میں ملک میں جمہوریت اور گڈ گورننس کی باتیں کرنے والے سیاست دانوں کو ایک دوسرے سے سیاسی حساب کرنے کے علاووہ دفاعی اور خارجہ امور میں استعداد بڑھانے اور ان امور پر غور کرکے قومی مفاد پر مبنی پالیسیاں تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی سیاسی ہم آہنگی پیدا ہونے کی صورت میں ہی جمہوری طور سے منتخب ادارے اہم قومی فیصلے کرسکیں گے۔ بصورت دیگر سیاستدان آپس میں دست و گریبان رہیں گے اور ملک کے اہم ترین فیصلے اور پالیسیاں جی ایچ کیو میں تیار ہوتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali