نصیر احمد ناصر کی ایک معکوس غزل


میرے ہاتھ میں اس وقت سہ ماہی کتابی سلسلے “تسطیر” کا حالیہ شمارہ 4 ہے جس میں جناب نصیر احمد ناصر صاحب کی اپنی مثال آپ شاعری موجود ہے. ہر فن پارے میں جو سب سے اہم بات نمایاں ہے وہ بیان کی سادگی ہے. کہیں موسیقیت سے بھرپور غزل “آسماں وجد میں ہے اور زمیں رقص میں ہے” نظر آرہی ہے اور کہیں “فاصلوں کے حصار میں رہنا” جیسی چھوٹی اور مختصر بحر میں امید و ناامیدی کی کشتی میں ڈولتے الفاظ ۔ مگر جس غزل کی ردیف نے مجھے رکنے، سوچنے اور لطف لینے پہ مجبور کیا وہ تھی:

ہے تیقن میں بھی زیاں الٹا

ہونے لگتا ہے ہر گماں الٹا

دیکھنے میں سادہ سا لفظ برتنے میں کتنا مشکل ہے یہ برتنے والا ہی جانتا ہے.”الٹا” ردیف کے طور پہ منتخب کرنا دل گردے کا کام ہے کہ اب جو مصرعہ باندھا جائے گا وہ سیدھا کیسے ہو؟

پہلے شعر میں ہی دیکھیے جب بات یقین کی آ گئی تو زیاں کیسا مگر یہی اس شعر کا لطف ہے. زندگی کے وہ پہلو اور وہ مواقع کہ جب انسان کو لگتا ہے کہ یقین کی جس منزل پہ وہ ہے اس کے بعد شک کی یا ابہام کی گنجائش ہی نہیں مگر پھر زندگی پلٹا کھاتی ہے اور ہمارے سارے اندازے الٹ جاتے ہیں. چنانچہ تیقن بذاتِ خود ایک حالتِ گمان و زیاں ہے۔ “ہونے لگتا ہے ہر گماں الٹا” گمان در گمان کی کیفیت ہے۔

اگلے شعر پہ آئیے تو کیا خوب استعارے کا پیراڈاکسیکل انداز اپنایا ہے.

کھینچتی ہے ہوا کنارے کو

پھڑ پھڑاتا ہے بادباں الٹا

کہاں تو کشتی کا کام ہوتا ہے کہ ہوا کے زور پر یا کنارے کی جانب کھنچے یا کنارے سے دور چلی جائے مگر یہاں سارا معاملہ ہی برعکس ہے۔ ردیف کو اس خوبصورتی سے ٹانکا گیا کہ الٹی ہوتی تدبیروں کی عکاسی کر دی. یہ شعر معکوسی منظر نگاری کی انوکھی مثال ہے۔

اب ذرا تیسرا شعر ملاحظہ کیجیے:

کیا خبر کیا ہے دوسری جانب

کس نے دیکھا ہے آسماں الٹا

اس شعر کو ادبی اعتبار سے دیکھا جائے تو بہت لطف دیتا ہے مگر سائنسی اعتبار سے پرکھا جائے تو مزید لطف دیتا ہے. کائنات کی وسعتوں میں جائیے تو جتنا آگے جائیں آسمان مزید دور ہوتا چلا جاتا ہے اور ان وسعتوں میں کیا کچھ چھپا ہے، اس کی انتہا کیا ہے اور اس انتہا کے پار کیا ہے، یہ تجسس اپنے آپ میں بہت پرکیف ہے. اسی خیال کو ہم مختلف حوالوں کے تناظر میں دیکھیں تو کیا کیا دعوے مذہب اور تاریخ نے کیے کہ آسمان میں کیا کچھ ہے مگر تصدیق کیسے ہو؟ یہ شعر پس منظر کو نہیں بلکہ پس منظر کے بھی پرلی طرف دیکھنے کی کاوش ہے۔

“کس نے دیکھا ہے آسماں الٹا”

جانے کس رخ سے آنچ آئے گی

آگ سیدھی ہے اور دھواں الٹا

یہ کیفیت ہمارے حالات کی ہے. اس شعر کو آپ ملکی حالات کہہ دیجیے یا انفرادی مگر جو دکھایا جاتا ہے وہ اتنا سیدھا ہے نہیں جتنا لگتا ہے. جو خطرے کی خبر دے رہے ہیں کیا جانیے وہی اصل خطرہ ہوں. آگ سیدھی اور دھواں التا بہت ہی نیا اور منفرد امیج ہے اور حالاتِ حاضرہ کی پیچیدہ معکوسی صورتِ حال کا آئینہ دار ہے۔

ایک سایہ سا پاؤں سے لپٹا

ساتھ چلتا ہے رائگاں الٹا

یہ سایہ ہمارا ہمزاد بھی ہے، ہماری ذمہ داریاں بھی ہیں، حال کا انجانا خوف بھی ہے اور ہمارے ماضی کے پچھتاوے بھی جو قدم قدم پہ ہمارے ساتھ ہیں سائے کی مانند تاریک، ہر وقت احساس زیاں دلاتے مگر سائے کی طرح ان سے چھٹکارا ممکن نہیں. حاصل میں بھی ایک رائگانی ہے۔

اور اب مقطع دیکھیے:

میں ریاضت میں محو تھا ناصر

اُس نے برگد کو ناگہاں الٹا

یہ شعر کچھ بہت اہم ضائع ہوجانے کا احساس جگاتا ہے. وہ جس کے بل پہ ہم اپنا سب کچھ داؤ پہ لگا دیں. کسی کا وعدہ، کسی کے ساتھ کا یقین، کوئی سرمایہ، عبادت کی یکسوئی، کسی کی شفقت کچھ بھی ہوسکتا ہے مگر جب وہ چھین لیا جائے تو کیا حال ہوتا ہو گا. اس شعر کو پڑھ کر دھیان بدھ مت اور گوتم بدھ کے گیان کی طرف بھی جاتا ہے۔ برگد کے الٹنے سے جو پہلا خیال آتا ہے وہ بے سائبانی کا کسی محترم رشتے سے چھوٹ جانے کا ہے. برگد کا الٹا قسمت کی ناگہانی آفت کی طرف اشارہ بھی ہے اور کسی کے کسی شدید دھوکے کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ لفظ “اُس” اس شعر کو مزید تجسس بخشتا ہے۔ یہ “اُس” کون ہے؟ یہ حقیقی بھی ہو سکتا ہے مجازی بھی۔ مرئی وجود بھی اور کوئی غیر مرئی طاقت بھی۔ “اُس” کے بدلنے سے معانی بھی بدل جاتے ہیں۔

مجموعی طور پہ یہ غزل جتنی سادہ پہلی بار میں پڑھنے پہ لگتی ہے اتنی سادہ ہرگز نہیں. جتنی بار پڑھیں مزید جہتیں اور تشریحات سامنے آتی ہیں. اور یہی عمدہ شاعری کی خوبصورتی ہے.

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima