محبت ایک جادو نگری اور میں ایک جادوگرنی


تم ایسا کیوں سوچتے ہو کہ میں نے تم سے کوئی انتقام لیا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔
تو پھر بتاؤ کہ تمہارے اندر اتنی غلاظت کیسے بھر گئی۔ تم ایک مرد کے ساتھ کیسے؟

بتا دیا تو برداشت نہیں ہوگا۔ تمہیں غم ہو گا اس سے زیادہ احساس ِ رائیگانی ہوگا۔ میری جان رہنے دو۔ چلنے دو زندگی کو اب ایسی ڈگر پر۔ کم از کم اتنا تو ہوگیا ہے کہ میں نے پنجرے سے اڑان بھری ہے اور واپس آگئی ہوں اور تمہیں بھی آزادی حاصل ہے کہ جب چاہو اس بلند و بالا دیواروں والے پنجرے میں سے اڑ جاؤ اور جب جی چاہے آجاؤ۔ نہ اب مجھے تم سے کوئی توقع ہے نہ چڑ چڑ کروں گی اور تم نے دیکھا تو ہے کہ ایک ماہ سے میں نے تمہیں کبھی گھر آنے کو نہیں کہا۔ اور ہم جب بھی ملتے رہے ہیں اس دوران تم نے میرے چہرے پر کوئی شکایت یا ملال دیکھا؟ نہیں نا۔
فروری کی ایک شام اُسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی اور ناکام تھی جیسے ہر بار وہ مجھے سمجھانے میں ناکام رہتا تھا۔

چند سال پہلے مجھے سکائپ پر ایک کال آئی میں نے اٹینڈ کر لی۔ پھر باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ وہ مجھے دیوی کہتا تھا اور میں کہتی تھی کہ دیویاں تو پوجی جاتی ہیں میں تو ایک داسی ہوں اپنے مجازی خدا کی وہ کہنے لگا زندگی سے کچھ کشید کرنا ہے تو خوشی کو چنو! جو محبت تمہاری آنکھوں میں آنسو بھر دیتی ہے وہ محبت نہیں ہے ورنہ تم اپنے مجازی خدا کی ہر آرزو پر ”ستی ‘‘ہوہو جاتی مگر ایسا نہیں ہے تمہاری محبت ایک مسلسل دھوکا ہے جو تم اسے 28سال سے دے رہی ہو۔ محبت کی رسوائی اور تذلیل برداشت کرنے والا کوئی انسان سچا نہیں ہو سکتا۔ خول چڑھایا ہوا ہے تم نے خود پر۔ ایک بیاہتا عورت اس خول میں بند ہو کر خود فریبی کی حالت میں زندہ ہے۔ خضر میں جانتی ہوں کہ میں محبت کی بھیک پر زندہ ہوں تو وہ ہنس کر بولا وہ سچا انسان تمہیں بتا کر بھیک دے رہا ہے نا۔

تم نے تو اُسے بتایا ہی نہیں کہ وہ تمہاری صرف عادت ہے۔ خضر کہہ رہا تھا محبت ایک جادو نگری ہے اور تم جادوگرنی ہو۔ میں جادوگردنی کیسے ہوئی؟ ہو تو وہ بولا حسین اور بلا کی حسین عورت جادوگرنی نہیں تو اور کیا ہوتی ہے۔ اور ہاں اس نگری کی خصوصیت ہے کہ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا وہ پتھر کا ہو گیا اے حسین جادوگرنی۔ اسی لئے کہ مرد کبھی زندگی کے گزرے لمحوں پر کبھی نظر نہیں ڈالتا۔ نظر ڈالے تو وہیں پتھرا جائے۔ اتنی جذباتی تفاوتیں، عداوتیں، پشمانیاں اور سب سے بڑھ کر تم جیسی فریبی بیویاں اس کو وہیں پتھرا ڈالیں۔ مجھے بہت غصہ آیا ہوا تھا۔ خضر پر کہ مجھے فریبی کہے جا رہا تھا اور مسلسل کہے جا رہا تھا۔ میں نے کئی دنوں تک خضر سے بات نہیں کی۔

فارم ہاؤس مکمل ہو چکا تھا اور وہ ہر ہفتے دو دن اور دو راتیں وہاں گزارنے لگا تھا۔ مجھے نیند نہیں آتی تھی۔ کبھی لگتا گیٹ پر کوئی ہے کبھی لگتا گھر میں کوئی بھاری قدموں سے چل رہا ہے میں ہڑبڑا کر لحاف سے نکلتی اور پورے گھر کا دیوانوں کی طرح چکر لگاتی مگر کوئی نہ ہوتا۔

نہ نہ! ابھی سے اندازہ نہ لگائیں میرے بارے میں کہ محبت کی دیوی ہوں، ہاں بے مثل ہوں مگر محبت کی نہیں۔ اس لفظ محبت سے تو مجھے چڑ ہے۔ محبت تو بذات ِ خود ایک مجبوری ہے، خود غرضی کی دار پر جھولتی ہوئی اس کی لاش میں نے خود گدھوں کو کھلائی ہے۔ میں اور محبت کروں کبھی جو کام کیا ہی نہیں وہ کبھی ہوگا بھی نہیں۔ مجھے تو بس لت لگی ہوئی تھی اُس کو ساتھ رہنے کی وہ تو میری ایک بری عادت کی طرح تھا میرا شکار۔

ہاں تو ایک عادت جو اس کی عادت تھی مجھ میں بھی سرائیت کر گئی تھی۔ جو پوچھا جائے اس کا سچا جواب دینا اب وہ مجھے پوچھ رہا تھا کہ تمہیں مردوں کی عادت لگی کیوں اور کیسے؟ میں نے سوچا اس کے سینکڑوں سچ جو میں نے سن رکھے ہیں تو کیا آج میں اپنی زندگی کا واحد سچ جس کا دورانیہ 28 برس ہے اس کو بتاؤں گی پھر میں نے بتانا شروع کیاتو وہ میرا منکوحہ مرد بچوں کی طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر رونے لگا۔ میں تو بستر تک لے کر آتا تھا انہیں تم تو دل میں لے آئی جانے کیوں وہ اسی ترازو کے دوسرے پلڑے میں مجھے نہیں رکھ رہا تھا جس میں وہ خود بیٹھا تھا بھئی دل تک نہیں لائی میں اور نہ ہی کوئی انتقام لیا تھا۔

میں نے بتایا کہ شادی کے دو سال بعد ہی میں تم سے تنگ آ گئی تھی تم ہر وقت مجھے اپنے وفادار چاہیے تھے۔ مگر اس کی سوئی اس شام بس ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی تھی کہ تم کو مردوں کی لت کیسے لگی۔ میں نے جواب دیا کہ مجھے نیند نہیں آتی تھی۔ نیند کی دوا کے باوجود میں جاگتی رہتی تھی۔ ایک دن میرے پرانے دوست خضر کو مجھ پر ترس آگیا۔ یہ خضر کون ہے؟ میں نے کہا سنا نہیں میرا دوست ہے 6 برس سے۔ بوتل منہ سے لگا کر اُس نے پوچھا تو میں نے کہا حلق خشک ہو گیا ہے اور تمہیں روتا دیکھ دل بھی بے چین ہے۔

میں نے گلاس اُس کے طرف بڑھا دیا اور چند گھونٹ پینے کے بعد کہا سنو۔ یہ خواہش تو تبھی اندر جاگ گئی تھی جب تمہیں راتیں باہر گزار کر صبح حسین مسکراہٹ چہر ے پر سجائے گھر میں داخل ہوتے دیکھتی تھی اور آتے ہی تم کہتے تھے رات والی تم سے اچھی کہاں۔ میرے حسن سے مستفید ہو کر ہی سوتے تھے۔ حسن بھی بڑی ”کتی چیز‘‘ ہے حسن اپنے ساتھ ایک اعتماد لے کر آتا ہے۔ ہاں تو جب تم پہلی بار اس طرح گھر آئے تھے سویرے تو میں تمہیں دروازے پر ملی تھی مگر جان میں تو جاچکی تھی۔ تم نے جس کو چھوا تھا وہ میں نہیں تھی۔ مگر تمہیں کبھی پتا ہی نہیں چلا۔ مجھے ایک ماہ پہلے ہی پتہ چلا کہ وہ میں نہیں تھی کبھی بھی۔

گلاس ختم کرکے رکھتے ہوئے میں نے کہا وہ تو خضر نے کئی راتوں سے تمہارے گھر نہ ہونے کی وجہ سے جو نیند نہیں آتی تھی اُس کے کے لئے میرا حوصلہ بڑھایا کہ وہ جو معاذ مجھ سے ملنا چاہتا ہے ایک بار اس سے مل لوں۔ معاذ سے اُسی نے مجھے ملوایا تھا۔ میں ملنے چلی گئی تو وہاں مجھے نیند آگئی۔ تم نے مجھ سے ہمیشہ سچ بولا ہے تو میرا بس یہی ایک سچ ہے۔ جو تمہارے ساتھ کاٹی ہے وہ گزر چکی۔ اب زندگی کو جینا ہے تو میرے اتنے عرصے کے فریب کو معاف کر دینا۔ مگر میں اور ڈھونگ نہیں کر سکتی محبت کا کہ میں جان گئی ہوں کہ محبت جس کے نام پر میں نے 28 سال گزار دیے وہ مجھ ہی میں جب کہیں نہیں تھی تو بھلاکہیں ہوبھی سکتی ہے کہیں۔ ورنہ اس کمرے سے میر ی لاش اٹھ چکی ہوتی کب کی۔ اور اگر نہیں بھی موت آئی مجھے آج کی صبح ہی اس کمرے سے دو لاشیں اٹھ جائیں مگرایسا نہیں ہوگا تم لوٹ کر آتے اور کہتے رہے ہو مجھ سے محبت ہے اورلو میں آج بھی یہ کہہ دیتی ہوں کہ مجھے تم سے محبت ہے اور ایک نئے دھوکے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ کہ

محبتوں کی صدا قتوں کے تمام جذبے
گھنیرے تاریک لمحوں میں کھو چکے ہیں
اور منافقت کے کریہہ پیکر
عداوتوں کے علم اٹھائے
حرص کے بے رحم دیوتا کا شکار ہو گئے ہیں

پر یہاں تو میں بھی قاقل ہوں
ہمکتے سانس لیتے بے، صدا الفاظ کی
جو میرے ذہن میرے احساس کی اولاد تھے
اور جن کو مصلحت کے دیوتا کے چرنوں پر
خود قتل کر ڈالا اپنے ہاتھ سے۔

پھر اُس نے تیسری شادی کر لی اور میں نے ہمیشہ کے لئے کسی کے ساتھ بھی محبت سے توبہ۔ محبت ایک سراب ہے جو صحرا میں ٹیوب ویل لگا کر منٹوں میں پانی بھی نکال لیتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ہوسکتا ہے محبت جادو ہو لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ جادو فریب ِ نظر ہو۔ جو بھی ہو میرا یہ ماننا ہے کہ محبت اور جادو وہ فریب ہیں جو دل کو بہلائے رکھتے ہیں اور دل تو کہیں بھی بہل جاتے ہیں۔ کسی کے ساتھ بھی بہل جاتا ہے اور میں تو ویسے بھی عورت ہوں وہ بھی حسین جادوگرنی جس کو چاہوں پرندہ بنا کر قید کر لوں اور پھڑپھڑانے بھی نہ دوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).