اکیلا باپ، ڈومیسٹک پارٹنر اور نیو جرسی میں ٹوٹنے والی منگنی


بہنوں کی شادیوں کے بعد میں اپنے ابو اورامی کو حج کرانے لے گیا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ میں پاکستان میں کیا کرتا۔ سخت ترین محنت کے باوجود وہ سب کچھ نہیں حاصل کرسکتا تھا جو یہاں حاصل کرچکا تھا کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ میرے ہم جماعت وہ لوگ جو مجھ سے زیادہ ذہین تھے، پاکستانی نظام کا شکار ہوکر وہ سب کچھ حاصل نہ کرسکے جو میں نے حاصل کیا تھا۔ ایماندار دوست زندگی گزار رہے تھے اور بے ایمان دوست وہ سب کچھ کرتے تھے جو ایک شریف آدمی کو نہیں کرنا چاہیے۔

اس رات میں ٹیلی ویژن پر باسکٹ بال کا میچ دیکھ رہا تھا کہ پاکستان سے میری بڑی بہن کا فون آیا اورمجھے پتہ لگا کہ میری ماں دل کے دورے سے جانبر نہیں ہوسکی ہیں۔ موت نے بڑی خاموشی سے انہیں نگل لیا تھا۔ میں فوراً ہی پاکستان کے لیے روانہ ہوگیا مگر کوشش کے باوجود آخری رسومات اور جنازے میں شامل نہیں ہوسکا تھا۔

ابھی کچھ دن پہلے تو امی نے میری شادی کی تاریخ طے کی تھی، میرے لیے میری مرضی کے مطابق ایک دلہن تلاش کرلی تھی میری شادی کی بڑے شوق سے تیاریاں کررہی تھیں۔ سال کے آخر میں میری شادی ہونے والی تھی۔ ارم میری ہونے والی بیوی سے میری فون پر بات ہوتی تھی، مجھے وہ اچھی لگنے لگ گئی تھی اور میں نے سوچا تھا کہ شادی کے بعد ارم کے ساتھ ساتھ امی ابو کے بھی امیگریشن کے کاغذات جمع کرادوں گا مگر یہ خواب اب بکھر کے رہ گئے تھے۔

ابو کو میں نے پہلی دفعہ اتنا پریشان اور اُداس دیکھا۔ تینتالیس سال کا ساتھ چھوٹ گیا تھا۔ بڑے بڑے مسائل کا دونوں نے مل کر مقابلہ کیا اور آج وہ اکیلے ہوگئے تھے۔ دس دن کا ایک ایک لمحہ میں نے ان کے ساتھ گزارا تھا۔ واپس آتے وقت جیسے میرے دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے، میری بہنوں اوربہنوئیوں کی خواہش کے باوجود انہوں نے اپنا گھر چھوڑنے سے انکار کردیا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ واپسی کے فوراً بعد ان کے امیگریشن کے کاغذات جمع کرادوں گا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ زندگی کے آخری سال ہمارے ساتھ شیاٹل میں گزاریں۔

رحمان میرے ساتھ ہی کام کرتا تھا، مجھ سے کافی جونیئر تھا مگر پاکستانی ہونے کی وجہ سے اس سے میری اچھی خاصی جان پہچان ہوگئی تھی۔ میں یہاں اکیلا تھا مگر رحمان کے والد رحمان کے ساتھ ہی رہ رہے تھے۔ میں اکثر اس کے گھر چلا جاتاتھا۔ ایک دن رحمان نے بتایا کہ اس کے والد اس کی ماں کے انتقال کے بعد اکیلے ہی رہ گئے تھے اور کراچی میں کوئی بھی نہیں تھا کہ دیکھ بھال کرے تو وہ انہیں بھی شیاٹل لے آیا تھا اور اب دونوں باپ بیٹا آرام سے رہ رہے تھے۔

ایک دفعہ رحمان نے باتوں باتوں میں بتایا تھا کہ شروع میں اس کی بہت دوستی ایک امریکی لڑکی سے ہوگئی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو سمجھ بوجھ بھی گئے تھے۔ رحمان نے اسے منگنی کی انگوٹھی بھی پہنا دی تھی اور ساتھ رہنا بھی شروع کردیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ زندگی اس کے ساتھ نیوجرسی میں گزرجائے گی لیکن پھر کچھ ایسا ہوگیا کہ میں نیوجرسی چھوڑ کر دور بہت دور شیاٹل آگیا اسے بھول جانے کے لیے۔

میں نے اس سے وجہ نہیں پوچھی اور نہ ہی اس نے بتایا کہ ایسی کیا بات ہوئی کہ منگنی ٹوٹ گئی تھی۔

پاکستان سے واپسی کے بعد میں رحمان سے ملنے گیا تاکہ اپنے والدکے امیگریشن کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کروں۔ مجھے یاد تھا کہ اس نے بتایا تھا کہ اس کے والد کی امیگریشن بہت جلدی ہوگئی تھی جب کہ مجھے پتہ تھا کہ آج کل ماں باپ کے امیگریشن میں اچھا خاصا وقت لگ جاتا ہے۔

رحمان سے بڑی تفصیلی بات چیت ہوئی تھی اس نے مشورہ دیا تھا کہ کسی وکیل سے مشورہ کرلوں تاکہ وہ مناسب مشورہ دے سکے، اس نے اپنے وکیل کا فون نمبر بھی دے دیا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ فون نمبر دینے کے بعد رحمان تھوڑا پریشان سا ہوگیا اور کچھ سوچنے لگا تھا۔

میں اس کی طرف غور سے دیکھ ہی رہا تھا کہ اس نے چونکتے ہوئے کہا کہ ایک بات اور بھی بتانی ہے مجھے بہت جلدی تھی کیونکہ امی کی موت کے بعد ابو پاکستان میں بالکل اکیلے تھے اور بڑے بُرے حالات میں تھے۔ میرے لیے ممکن نہ تھا کہ وہاں چلا جاﺅں اور ہمارا اور کوئی وہاں تھا بھی نہیں، اسی لیے میں نے وکیل کے مشورے پر اپنے والد کو ڈومیسٹک پارٹنر کے طور پر بلایا تھا، یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا ۔اس کے چہرے کا بدلتا رنگ چھپ نہیں سکا تھا۔

اب میرے چونکنے کی باری تھی۔ میں سمجھا نہیں یار۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے، ان کا نام تو تمہاری ولدیت کے خانے میں لکھا ہوگا ۔ میں نے حیران ہوتے ہوئے سوال کیا تھا۔

پاکستان میں سب کچھ ہوجاتا ہے۔ اس نے دھیرے سے کہا، انہوں نے پہلے کبھی کوئی سفر ہی نہیں کیا تھا، ایک ایجنٹ کو پیسے دیے تھے اور نہ جانے کیسے اس نے ایک نئے نام سے شناختی کارڈ بھی بنوادیا تھا اور پاسپورٹ بھی۔ پھر باقی کام تو یہاں کے وکیل نے کیا تھا۔ ڈومیسٹک پارٹنر کے حقوق بالکل ایسے ہی ہیں جیسے بیوی کے حقوق ہوتے ہیں۔ بہت جلد ہی میرا کام ہوگیا تھا۔ مجھے لگا جیسے اسے افسوس ہورہا تھا کہ اس نے اپنے وکیل کا فون نمبر مجھے کیوں دے دیا تھا۔ میں حیرت سے دیکھتا رہ گیا تھا۔

 پھر خود بخود میری سمجھ میں آ گیا کہ اس امریکی لڑکی سے اس نے منگنی کیوں توڑ دی تھی۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3