پرانے پاکستان کی آزادی


یقیناً ہم سب جانتے ہیں کہ چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو علامہ اقبال کے خواب کی تکمیل قائدِاعظم کی انتھک محنت کے نتیجے میں ہوئی اور ایک آزاد اسلامی ریاست پاکستان کے نام سے معرضِ وجود میں آئی۔ اگست یعنی جشنِ آزادی۔ عید بھلے ہم الگ الگ منائیں لیکن جشنِ آزادی ہم ایک ساتھ مناتے ہیں۔ سب سے زیادہ حیران کُن بات کہ مفتی منیب الرحمٰن اور مفتی پوپلزئی بھی اس موقع پر مکمل متفق نظر آتے ہیں۔ اگست کا چاند نظر آتے ہی زور و شور سے تیاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔ میں نے کل اپنی طرح کے جذباتی نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو موٹر سائیکل کی دُکان پر دیکھا۔ کاریگر سے رش کی وجہ پوچھی تو بولا کہ اگست کا مہینہ ہے، یومِ آزادی کی تیاریاں ابھی سے شروع ہیں اور میں نے کل ہی نئے پُرزے منگوائے ہیں۔

ٹھیک ہے کہ ہر نسل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حالات کی صورت گری اپنی سوچ و بصیرت سے کرے۔ اپنی سوچ اور نظریات کی تنگ نظری کو ختم کرکے، اُسے اور وسعت دے کر ایسے کام کرے کہ وہ ایک آزاد مگر سب سے زیادہ ایک مہذب قوم کے طور پر سامنے آئے۔ کسی بھی قوم کو اُس کے حق سے نہ اُس کے اسلاف محروم کر سکتے ہیں نہ وہ اپنی وراثت کو اس سے محروم کر سکتی ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت مسلمانوں کی نسل نے اپنی بصیرت کے مطابق اس کے قیام کی تحریک میں بھرپور حصّہ لیا۔ موجودہ نسل کو بھی یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ ماضی کے جبر سے ہمیشہ کے لئے بالکل مارواء ہو کر آزادانہ اقدامات اور فیصلے کریں مگر تہذیب کے دائرے میں رہ کر۔

پاکستان میں اِس سال عام انتخابات پچیس جولائی کو ہوئے جس میں پاکستان تحریکِ انصاف نے اکثریت حاصل کی اور اپنے نئے پاکستان کے نظریے کو ساتھ لے کر عوام کے لیے کچھ کر جانے کا عزم رکھتی ہے۔ اس ”نیا پاکستان“ کے حوالے سے کئی سوالات میرے ذہن میں آتے ہیں۔ پرانے پاکستان کی آزادی کا دن پرانے پاکستان کو ماننے والے تو چودہ اگست کو منائیں گے۔ مگر نئے پاکستان والے اپنے نئے پاکستان کا قومی دن کب منائیں گے؟ نئے پاکستان والے خود اپنے نئے پاکستان کا قومی دن جاننے میں اس وقت مصروف ہیں اور صحیح تاریخ کا تعین نہیں کر پا رہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے وفاق میں حکومت بنانے کے لیے ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیا ہے تاکہ وہ آسانی سے حکومت بنا سکیں۔

اس حوالے سے تحریکِ انصاف کے راہنما جہانگیر ترین بہت زیادہ مصروف نظر آرہے ہیں۔ مختلف حلقوں سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب آزاد امیدواروں کو تحریکِ انصاف میں شمولیت پر آمادہ کر رہے ہیں۔ اس پر بھی یہ سوال بار بار ذہن میں کھٹکتا ہے کہ کیا نئے پاکستان کے لئے آزاد امیدوار ضروری ہیں؟ حالانکہ پرانے پاکستان کے لئے تو آزادی ضروری تھی۔ ایک اور سوال کہ پرانے پاکستان کا مطلب تو ”لا الہ الا اللّہ“ ہے۔ لیکن یہ نئے پاکستان کا کیا مطلب ہے؟ نئے پاکستان میں بھی پرانے پاکستان والی ہارس ٹریڈنگ عروج پر ہے، پھر ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ یہ سب حالات دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ نام تو نیا پاکستان ہے مگر اِس نئے پاکستان کے کاریگر پرانے ہی ہیں۔

چلو چھوڑو سب باتیں۔ ہم اپنے پرانے پاکستان کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان کی اکہتر سالہ تاریخ سیاسی، معاشرتی، معاشی اور جغرافیائی لحاظ سے بھرپور ہے۔ لیکن پھر بھی میری قوم اس کا جشنِ آزادی ہر سال اِس ایک نئی امید اور سوچ کے ساتھ مناتی ہے کہ تمام مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد یہ مُلک ترقّی کی منازل طے کرے گا۔ اس ولولے کو زندہ اور فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اللّہ تعالٰی کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اُس نے ہمیں آزادی جیسی نعمت سے نوازا۔ اس ملک کے لئے بڑی قربانیاں دی گئیں۔ جنہیں یہ لگتا ہے کہ آزادی ملی تھی وہ ذرا پاکستان کی تاریخ پڑھیں۔ اُنہیں پتا چلے گا کہ آزادی ملی نہیں تھی، آزادی حاصل کی گئی تھی۔

حیرت کی بات ہے کہ کچھ شرپسند عناصر پاکستان کے قیام کو بہت بڑی غلطی سمجھتے ہیں۔ اُن کے لئے ایک بات ہی کہوں گا کہ پاکستان اب بن چکا ہے، اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اور اب ماضی کو بدلنا ممکن نہیں۔ ایسے لوگ اس حقیقی تاریخ سے الجھ کر بس اپنی زبان و مزاج میں کرواہٹ کا ہی اضافہ کرتے ہیں۔ جو لوگ تاریخ میں قید ہوتے ہیں وہ تاریخ سازی کی دولت سے محروم ہوتے ہیں۔ ہم نے اگر اپنے عہد کو مضبوط کرنا یے تو پاکستان کو تاریخی حقیقت مان کر آگے بڑھنا ہوگا۔ مجھے اپنے پرانے پاکستان سے بےحد محبت ہے کیونکہ اس کی تاریخ ایک حقیقت ہے۔ ہمارا واحد مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم اِس عہد کی مشکلات میں اپنے لوگوں کے لئے آزادی، انصاف اور مساوات کا پرچم بلند کریں۔ میں اپنے پرانے پاکستان کی موجودہ اور آنے والی نسل کی حقِ خودارادیت اور آزادیٔ اظہارِ رائے کو ہی حبّ الوطنی اور جمہوریت، اور اپنی آزادی کا دن، آزادی سے منانے کو روشن خیالی سمجھتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).