عمران خان۔ ناکرپٹ نا بے شرم


کہنے والے کہتے تھے۔ ”عمران خان کرپٹ نہیں“۔ ”عمران خان بے شرم نہیں۔ جو کہ اقتدار کی خاطر کسی سے بھی اتحاد کرلے“۔

کہنے والے اب بھی کہتے ہیں کہ عمران خان کرپٹ نہیں۔ مگر عمران خان بے شرم نہیں، یہ کہتے ہوئے انھیں خود شرم آجاتی ہے۔ جب وہ ہر گھنٹے بعد آنے والی نیوز چینلز کی ہیڈلائنز میں پاکستان تحریک انصاف ماضی کی حریف جماعتوں کے ساتھ اتحاد اور عمران خان کو آزاد امیدواروں کے گلوں میں پی ٹی آئی کا پٹّا ڈالتے دیکھتے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ابھی عام انتخابات 2018 میں تحریک انصاف کے ہاتھ با مشکل اکثریت آئی ہے۔ جس کے بعد عمران خان کو ہر صورت وزیراعظم بنانے کے لئے ترلے، منتیں، سماجھتے اور بولیاں عروج پر ہیں۔ جسے دیکھ کر عمران خان کو صادق اور امین ماننے والوں کو کو شرم آنے لگی ہے۔ باقی رہ گیا یہ کہنا کہ عمران خان کرپٹ نہیں۔ تو اس کا بھی جلد پتہ چل جائے گا۔

22 سالوں میں عمران خان نے دیگر سیاسی جماعتوں کے مفادات اور مفاہمت کے نام پرکیے جانے والے اتحاد کو ہمیشہ ہی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جب سے عمران خان قومی اسمبلی کے پانچ حلقوں سے منتخب ہوئے اور تحریک انصاف کو ملنے والی معمولی اکثریت کے بعد عمران خان نے سمجھ لیا ہے کہ اس ملک میں وزیراعظم صرف اسی صورت بنا جاسکتا ہے کہ اس گند کا حصہ بنا جائے۔

سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے جو سپورٹرز جنھوں نے نئے پاکستان کے لئے تحریک انصاف کو ووٹ دیے تھے۔ وہ بھی نئے پاکستان میں پرانے گاڈروں اور آزمودہ شدہ آزاد ٹھیکہ داروں کے ہاتھوں نیا پاکستان بنتا دیکھ کر منہ چھپائے پھر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ایک بار عمران خان کو وزیراعظم بن جانے دو۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔

پاکستان مسلم لیگ ق کے بعد تحریک انصاف کے متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ معاہدے کے بعد عمران خان کے شیدائی چھپ چھپ کر اُس دن کا انتظار کررہے ہیں کہ عمران خان بس وزیراعظم بن جائیں۔ کراچی کی 21 نشستوں میں سے تحریک انصاف کو 14 نشستیں دلوانے والے بھی شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ جس متحدہ کر رد کرکے انھوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا۔ پی ٹی آئی نے اسی متحدہ سے قومی اسمبلی کے 6 ووٹوں کی خاطر معاہدہ کرلیا ہے۔ فی الوقت کراچی والے یہ بھولے بیٹھے ہیں کہ عمران خان نے آپا زہرہ کے قتل کا الزام بھی متحدہ پر ہی لگایا تھا۔

انتخابات کے نتائج اور پورے ملک میں ہونے والے جشن کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ لوگوں نے ووٹ تحریک انصاف کی جماعت کو نہیں دیا۔ بلکہ اُن کا اکلوتا مقصد عمران خان کو وزیراعظم دیکھنا تھا۔ اب جب عمران خان وزیراعظم بن جائیں گے تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ جیسے حرام کی کمائی سے خریدا گیا حلال گوشت حلال ہوتا ہے۔ ویسے ہی ماضی میں بے شرم اور کرپٹ قرار دی جانے والی سیاسی جماعتوں اور نومنتخب آزاد اراکین کی مدد سے بنائی جانے والی پاکستانی حکومت بھی مدینہ منورہ کی فلاحی ریاست جیسی مثالی ہوگی جس کا قیام کرپٹ، بے شرم اور بے ضمیر خریدے گئے اراکین کے ذریعے کیا جائے گا۔

آخر میں بس یہی کہ شاید یہ خدا کی طرف سے مکافات عمل ہے کہ پہلے بھارتیوں کو نریندر مودی جیسا حکمران نصیب ہوا۔ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکیوں کے گناہوں کی سزا کے طور پر بحیثیت صدر مسلط کردیا گیا اور اب عمران خان اُن 21 کروڑ عوام کے وزیراعظم ہوں گے۔ جو ہمیشہ سیاست کو بے شرم اور بے ضمیر حکمرانوں سے نجات دلوانا چاہتے تھے۔

نیا پاکستان۔ زندہ باد
پرانا پاکستان۔ پائندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).