نئی حکومت اور سائنسی شعور


”اور اُس (قادرِ مطلق رب الارباب نے) آسمانوں کی بلندیوں اور زمین کی وسعتوں میں واقع پوری کائنات کو اپنے فضلِ بے نہایت سے تمہارے لئے مسخر کر دیا۔ یقیناً اس میں فکری صلاحیتیں رکھنے والی قوم کے لئے حصولِ ترقی کی نشانیاں (راہیں) ہیں۔ ‘‘ (الجاثیہ 45:13)

اور اسی مقصد کی تحقیق کا ایک نام سائنس ہے۔ خالقِ لم یزل نے انسان کو اشرف المخلوقات کے رتبے پہ فائز کیا اور اُسے عقل عطا کی تاکہ وہ سوچے، سمجھے، غور کرے۔ بنی نوع انسان کی سائنسی ترقی کا اہم کام مسلمانوں نے انجام دیا ہے۔ عظیم فلسفی الفارابی مسلمان تھا۔ البیرونی آج بھی سائنسی دنیا کا اہم ستون ہے۔ علمِ کیمیا آج بھی جابر بن حیان کی نام لیوا ہے۔ تاریخ عظیم مؤرخ طبری کی قرضدار ہے۔ طبیعیات میں ابن الہیثم کو کون بھول سکتا ہے! لیکن قرطاس اور قلم سے شروع ہونے والا یہ سفر شمشیر و سناں سے ہوتا ہوا طاؤس و رباب پہ اختتام پذیر ہو گا، یہ شاید کسی کے گمان میں نہ تھا۔

اس کی سب سے بڑی وجہ ترجیحات میں آنے والا غیر معمولی فرق ہے۔ جس دور میں مغرب نئے تعلیمی ادارے بنا رہا تھا، ہماری درسگاہوں اور دانش کدوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ مگر یہ سب کب تک چلتا۔ پاکستان میں سائنس میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے ذہنوں میں یہ سوال ہمیشہ کلبلاتا رہا ہے کہ آخر سائنسی تحقیق اور سائنس کی ترویج و اشاعت ہماری ترجیحات میں شامل کیوں نہیں رہی!

شاعرِ مشرق نے کہا تھا
خورشیدِ جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں

پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی اِس سلسلے میں سنجیدہ کوششوں کا آغاز ہو چکا تھا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سائنسی طبقے کے ساتھ ساتھ حکومتی پالیسیوں کا بھی اِس میں واضح کردار تھا۔ خواہ وہ نظریاتی سائنس ہو یا تجرباتی، ہر گزرتے دن کے ساتھ وطنِ عزیز بہتری کی جانب گامزن تھا۔ یہی وہ دور تھا کہ جہاں ایک طرف ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی اور اُن کے ہو نہار شاگرد ڈاکٹر عطا الرحمٰن پاکستان میں کیمیا کی بنیادوں کو مضبوط سے مضبوط تر بنا رہے تھے تو دوسری جانب طِب اور جراحی کے میدان میں ایوب امیہ پاکستان کا نام دنیا میں روشن کر رہے تھے۔ نظریاتی سائنس کا سب سے بڑا اعزاز نوبل انعام سمیٹے ڈاکٹر عبدالسلام آسمانِ ہنر کو اپنی کرنوں سے منورکیے ہوئے تھے۔ یہ پاکستان میں سائنسی تحقیقی روایات کی تجدید کا سنہرا دور تھا۔

اس بات میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ تمام تر غیر موافق حالات کے باوجود ہر حکومت نے تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا۔ سابقہ حکومتوں کی طرح تحریکِ انصاف کی موجودہ حکومت کا مطمع نظر بھی تعلیم ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا تمام تر کوششوں کے باوجود بھی ہماری سائنسی تعلیم سائنسی شعور پیدا کرنے میں بھی کامیاب رہی ہے؟ ماضی کے حقائق پہ نظر ڈالی جائے تو صورتِ حال تسلی بخش نظر نہیں آتی۔ سائنسی تحقیق ہر گزرتے دن کے ساتھ بلندی سے پستی کی طرف گرتی چلی جا رہی ہے۔ مقدار بڑھتی جا رہی ہے اور معیار گھٹتا جا رہا ہے۔ عالمی دنیا میں ہماری سائنسی تحقیق کا معیار اِس حد تک گر گیا ہے کہ ہمارے بیشتر ہمسایہ ممالک بھی ہم سے آگے نکل گئے ہیں۔ اِس کی وجہ ہمارا تعلیمی نظام ہے۔

اُسے جن خطوط پہ استوار کیا گیا، اُن میں مقررکیے ہوئے نصاب کی تکمیل اور امتحانات میں اچھے نمبر لینے کا حصول اولین ترجیح ہے۔ یقیناً اِس میں کچھ معاشی تقاضے بھی ہیں کہ موجودہ دور کو ذہن میں رکھتے ہوئے والدین اور معاشرہ نئی نسل کی تربیت اُن خطوط پہ کرتا ہے، جن میں زیادہ تنخواہ والی نوکری کا حصول پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ رٹی رٹائی کتابی باتوں کو حفظ کر کے جب ہمارے طلباڈگریاں لئے پیشہ وارانہ دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو اُن میں تحقیقی جستجو اور لگن مفقود ہو چکی ہوتی ہے۔ ایسے متعلمین جب معلم کے منصب پہ فائز ہوں گے تو وہ آنے والی نسلوں کو بھی وہی تعلیم دیں گے، جو انہیں ملی ہے۔ نتیجتاً ہر گزرتے دن کے ساتھ سائنسی ترقی کی رفتار مزید دگرگوں ہوتی جائے گی اور ملک کا نام روشن کرنے اور غیرمعمولی کارنامے دکھانے کا جذبہ سرے سے ہی ختم ہو جائے گا۔ گو پاکستان میں ذہین اور قابل افراد کی کوئی کمی نہیں لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اِن حالات میں سائنس دانوں کو اپنی ایجادات منظرِ عام پہ لانے کا موقع میسر نہیں آتا اور نتیجتاً تحقیق کی شعلگی ہر گزرتے دن کے ساتھ مدھم ہوجاتی ہے۔

تعلیمی نظام کو مکمل طور پہ تبدیل کرنا یا نئے خطوط پر استوار کرنا موجودہ حکومت کے لئے بھی ایک مشکل عمل ہو گا کہ دہائیوں سے رائج نظام کو چند سال میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم متذکرہ مسائل کا سدِباب کرنے کے کئی اور راستے بھی ہیں۔ موجودہ وقت اِس بات کا متقاضی ہے کہ ہم رفتہ رفتہ اپنے اداروں کو عالمی معیار کا بنائیں اور تحقیقی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہمارے طلبا میں زیادہ سے زیادہ نمبر لینے کی بجائے خالص تحقیقی بنیادوں پر سوچنے کا رجحان قائم ہو۔

یورپ میں آج بھی سالانہ بنیادوں پہ مختلف سائنسی نمائشوں اور مقابلہ جات کا انعقاد ہوتا ہے تاکہ نئی نسل کی تحقیقی صلاحیتوں کو امتحانات میں کارکردگی اور نصابی کتابوں کے دائرے سے نکال کر ایک ایسی راہ پہ ڈالا جائے، جو اُن میں تحقیقی شعور کو اجاگر کرے۔ اِن سالانہ نمائشوں میں سکول سے لے کر یونی ورسٹی تک کی سطح کے طالب علم شرکت کرتے ہیں اور مختلف سائنسی پہیلیوں اور مسائل کے حل کے لئے اپنی اپنی کاوشیں پیش کرتے ہیں۔ اِس مقصد کے لئے سائنس انجمنوں کا قیام بھی عمل میں لایا جاتا ہے۔

یہ امر خوش آئند ہے کہ اُس دورِ خزانی میں بھی وطنِ عزیز کو ایسے افراد کی سرپرستی کا موقع ملا، جو سائنسی علوم کی ترویج و اشاعت میں اپنا کردار ادا کرنے کے خواہاں تھے۔ اِس سلسلے کی ایک سرکردہ کوشش خوارزمی سائنس سوسائٹی کا قیام تھا۔ مذکورہ سوسائٹی یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے چند طلبا نے 1997ء میں ڈاکٹر سعادت انور صدیقی کی رہنمائی میں قائم کی۔ یہ ایک غیر منافع بخش ادارہ، جس کے بنیادی مقاصد میں نہ صرف سائنسی طبقہ بلکہ عوام میں بھی سائنسی عوامل سے دلچسپی پیدا کرناشامل تھا، بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا۔

بیس سال کی مسلسل محنت کے بعد 2017ء میں یہ سوسائٹی پاکستان میں پہلا باقاعدہ اور منظم ”لاہور سائنس میلہ“ منعقد کروانے میں کامیاب ہو گئی۔ میلے نے توقعات سے بڑھ کر کامیابی حاصل کی۔ ملک کے طول و عرض سے پرائمری سے لے کر یونی ورسٹی کی سطح تک کے طلبا اپنے اپنے پراجیکٹس کے ساتھ آئے اور بے پناہ داد سمیٹی۔ ایک سال کے بعد اُسی شہر میں اُسی جگہ دوسرے ”لاہور سائنس میلہ“ کا انعقاد کیا گیا۔ اس بار نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک سے بھی وفود نے شرکت کی اور طلبا کے پراجیکٹس کو سراہا۔ یونی ورسٹی کے متعلمین ایک جانب، میلے کی سب سے دلچسپ بات سکولوں کے ننھے ننھے طلبا و طالبات کا اپنے ذہنِ رسا کی رعنائیوں سے مرصع پراجیکٹس کے ساتھ میلے میں شرکت کرنا تھا۔

اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ سالِ رواں میں ہی لاہور سائنس میلہ کی کامیابی اور عوام کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے فروری میں مٹھی (تھرپارکر)، اپریل میں سوات اور مئی میں گوادر سمیت ملک کے بیشتر شہروں میں کامیاب سائنس میلوں کا انعقاد کیا گیا۔ اِن شہروں میں یہ میلے پاکستان کے سرکاری و نیم سرکاری اداروں کی اجتماعی کوششوں کا نتیجہ تھے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں یہ امر خوش آئند بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔ ان میلوں کی کامیابی اور ان میں متعدد بین الاقوامی اداروں اور سائنسدانوں کی دلچسپی اِن کے درست سمت میں گامزن ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس طرز کی نمائشوں اور مقابلہ جات کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ ہم اپنا کھویا ہوا مقام اور وقار بحال کر سکیں کیونکہ درخشندہ روایات کی تجدید اور ترقی کا ساتھ تو ازل سے ہے۔ اِس کی ایک چھوٹی سی مثال سترہ برس کے محمد شہیر نیازی کی ہے۔ شہیر کو لمز کی فزکس لیبارٹری میں ڈاکٹر محمد صبیح انور کی زیر نگرانی کام کرنے کا موقع ملا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ شہیر کے کام نے طبیعیات کے بڑے بڑے ماہرین کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ اے لیول کے طالب علم کا عالمی طبیعیات ی اُفق پہ یوں نمایاں ہونا اِس بات پہ دلیل ہے کہ ضرورت صرف موقع میسر آنے کی ہے۔

معیشت کا ایک اہم ستون سائنسی سامان کی تیاری اور اِس کی برآمدگی بھی ہے۔ لہٰذا اداروں میں صحیح سائنسی شعور کی بحالی کے ساتھ ساتھ نئی حکومت کو سائنس کو بطور صنعت رائج کرنے کی جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہیوی مشینری اور حساس سائنسی سامان کے ساتھ ساتھ پچھلے کچھ برسوں تک پاکستان میں تجرباتی سائنس کی چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی بیرون ممالک سے درآمد کی جاتی تھیں، جس کی وجہ سے ملکی معیشت پہ غیر ضروری بوجھ پڑتا تھا۔

حالیہ برسوں میں اس تاثر کو کسی حد تک کم کرنے میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمینٹ سائنسز نے کسی حد تک اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر محمد صبیح انور میں لمز کے شعبۂ طبیعیات میں PhysLab کی صورت پاکستان کو نہ صرف تجرباتی طبیعیات کی درسگاہ کا ایک ماڈل فراہم کیا بلکہ عام استعمال کا سائنسی سامان بنانے کا آغاز بھی کیا۔ آج یہ سامان نسٹ اور پیاس جیسے صفِ اول کے اداروں میں بھی استعمال ہونے جا رہا ہے۔ آج پاکستان میں کئی یونیورسٹیاں لمز کی فزکس لیبارٹری (PhysLab) کے ماڈل سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی اپنی تجربہ گاہوں کو جدید خطوط پر مزین کر رہی ہیں۔

نئی حکومت کو چاہیے کہ جہاں ایک جانب تعلیمی نظام کو بہتر بنائے، وہیں سائنسی شعور اور سائنسی صنعت کو پاکستان معاشرے میں رائج کرنے کی جانب بھی توجہ دے۔ عالمی سائنس میں اپنی آبادی کے تناسب سے پاکستان کا حصہ خطرناک حد تک نہ صرف کم ہے بلکہ موازنہ کیا جائے تو ہم اپنے ہمسایہ ممالک سے بھی پیچھے ہیں۔ وقتاً فوقتاً مختلف ادارے مختلف علاقوں میں اپنی اپنی سعی کے مطابق سائنسی شعور اجاگر کرنے میں حصہ ڈالتے رہے ہیں مگر ضرورت اِس امر کی ہے کہ قومی ترجیحات میں سائنسی شعور کی ترویج کو اُس کی صحیح نمائندگی دی جائے۔ ایک بار یہ لہر چل پڑے تو نہ صرف سائنسی میلوں کا انعقاد بڑھتا جائے گا بلکہ سائنسی صنعت بھی مستحکم ہو کر ملکی معیشت میں اپنا حصہ بخوبی ڈالے گی۔
محمد بلال اعظم
لمز، لاہور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).