بلوچستان، اندھیرا اور روشنی کی کرن


نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں جمعہ کے روز شام کو اکثر سینئر صحافیوں کی محفل میں بہت سے معاملات پر تبادلہ خیال ہو جاتا ہے، جن میں سیاست، سماج، انصاف اور معاشی معاملات پر سب کی کھلی اور مثبت بات چیت سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

بعض اوقات کلب آنے والے بہت سے اہم لوگوں سے بھی ملاقات ہو جاتی ہے۔ گزشتہ جمعے کے روز بلوچستان کے اہم سردار لیڈر اور سابق وزیر علیٰ جو بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ بھی ہیں سردار اختر جان مینگل سے ملاقات ہو گئی۔
ملاقات سب سینیر صحافیوں کی موجودگی میں کھلے اور انتہائی دوستانہ ماحول میں ہوئی اور بلوچستان کے تمام مسلوں پر کھل کر اظہار خیال ہوا۔

انتخابات کے بعد کی صورت احوال پر بات جب شروع ہوئی تو اختر مینگل نے کہا کہ وہ ہر اس پارٹی کے ساتھ بٹھانے کے لیے تیار ہیں جو بلوچستان میں امن، گم شدہ افراد کی بازیابی، قومی دولت کی منصفانہ تقسیم اور سی پیک کے حوالے سے بلوچستان کے تحفظات کو ختم کرنے کی نہ صرف یقین دہانی کرا دیں بلکہ ان پر عمل کر کے اپنی سنجیدگی کا ثبوت دیں۔

اگر مندرجہ بالا معاملات اور مطالبات کو غور سے اور سنجیدگی سے دیکھا جائے تو کسی بھی حکومت چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی کیوں نہ ہو ان کو با آسانی حل کر سکتی ہے، ان مسائل کو حل کر کے ایک ایسے صوبے کی لیڈر شپ اور وہاں کے لوگوں کو قومی دھارے میں لایا جا سکتا ہے جو کئی سالوں سے نا صرف پس ماندگی کا شکار ہے بلکہ وہاں کی لوگوں کی غربت سے فائدہ اٹھا کر انہیں غیر ملکی طاقتیں بھی استعمال کر رہی ہیں۔ ان مسئلوں کے حل سے مجھے یقین ہے کہ بلوچستان کی لیڈر شپ خود ان دشمن قوتوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوگی۔ اور ایسا ہوا بھی ہے جس کا ثبوت میر سراج رئیسانی جو بلوچستان کے وہ نوجوان لیڈر تھے جو بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی کو سینہ تان کر چیلنج کرتے تھے اور وہ اسی وجہ سے دہشت گردی کا شکار بھی ہوئے۔

اختر مینگل سے جب پوچھا گیا کہ آپ اسلام آباد آئے ہیں، یہاں اور وہاں کی صورت احوال میں کیا فرق دیکھتے ہیں۔ سردار صاحب نے گہری سوچ کے بعد کہا ’وہاں تو گھپ اندھیرا ہے روشنی کی کرن نظر نہیں آتی پر آپ کے یہاں تو پورے کا پورا پاور ہاؤس ہی بیٹھا ہوا ہے‘۔ اگر آج کی سیاسی صورت احوال پر نظر ڈالیں اور جس طرح سیاسی جوڑ توڑ کیا جا رہا ہے، آزاد منتخب ارکان کو یہاں سے وہاں منتقل کیا جارہا ہے اور جس طرح بانڈ پیپرز پر دستخط کروا کر اور تصویر کشی کر کے ایک کنگز پارٹی کی حکومت بنوانے کے لئے ایک ایسا شخص مصروف نظر آتا ہے جس پر خود سپریم کورٹ نے انتخابی عمل میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ پھر تو سردار مینگل کا یہ کہنا درست ہے کہ یہاں تو پورے کا پورا پاور ہاؤس ہی بیٹھا ہوا ہے۔

سردار صاحب سے جب میں نے پوچھا کہ بلوچستان میں یہ چھوٹی چھوٹی قوم پرست جماعتیں بن گئی ہیں، ان کو ایک پلیٹ فارم پر کیوں نہیں لیا جا سکتا۔ سردار کیوں لوگوں کے مسئلے حل کرنے میں ناکام رہے۔ جس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی بری بات نہیں کیوں کہ ہم اب بھی قبائلی نظام کے تحت رہ رہے ہیں اور ہر قبیلے کے ماتحت چھوٹے چھوٹے ذیلی قبیلے بھی ہوتے ہیں، اسی طریقے سے وہاں سیاسی جماعتیں بھی بن گئی ہیں اور سرداروں کو شروع دن سے خرید کر انہیں استعمال کیا جاتا رہا۔ مجھے سردار اختر مینگل کی بات سے شدید اختلاف ہے، کہ چھوٹی سیاسی جماعتوں میں منقسم ہونا کوئی بری بات نہیں۔ سرکار ایک بڑا مضبوط سیاسی فورم چاہے وہ صرف بلوچستان کی سطح ہی کا کیوں نہ ہو پر اس میں تمام بلوچ اور پختون لیڈر شپ صوبے کے مسئلوں کے حل کے لئے اگر اکھٹے ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ صوبہ پیچھے رہ جائے یا سرداروں کو کوئی خرید سکے اور انہیں استعمال کر سکے، ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ خود ذاتی مفاد کے لئے استعمال ہوتے رہنے کے لئے تیار ہوں۔

سن دو ہزار پانچ میں بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لئے پارلیمان کی خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی اس اس کی سربراہی چودھری شجاعت حسین کو دی گئی۔ اس کمیٹی کی سب کمیٹی جس کے سربراہ مشاہد حسین سید تھے۔ جس اجلاس میں میں بلوچستان کے جلد حل کے لئے سفارشات مرتب کی جا رہی تھیں اس میں میں رپورٹر کی حیثیت میں موجود تھا، دکھ کی بات یہ کہ ایک طرف تو بلوچستان کے حالات ٹھیک کرنے کے لئے پارلیمان کی کمیٹی سر جوڑ کر بیٹھی ہے، دوسری طرف اسی اجلاس میں بلوچستان کے اس وقت کے وزیرعلیٰ جام محمد یوسف مرحوم اپنے برانڈ نیو موبائل فون سے کھیلتے رہے۔ کمیٹی کے ارکان ان کی ان پٹ کے لئے بار بار ان کی توجہ کمیٹی کی کارروائی کی طرف دلاتے رہے پر وہ موبائل پر گیمز کھیلنے میں لگے رہے۔ اب ان کے صاحب زادے جام کمال خان بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے والے ہیں، دیکھتے ہیں وہ کیا کمال دکھاتے ہیں۔

یہ لسبیلہ کے جام خاندان کی تیسری نسل ہے جو وزارت اعلیٰ کے مسند پر بیٹھے گا۔ جام کمال کے دادا جام غلام قادر طویل عرصے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ اگر وہاں وزرا علیٰ اور گورنروں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو تمام قبائل کے سرداروں کے نام فہرست میں شامل ہیں۔ ان میں عطا اللہ مینگل، خدا بخش مری، نواب اکبر بگٹی، خود اختر مینگل کا نام بھی فہرست کا حصہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی مضبوط شخصیات کے اقتدارپر ہوتے ہوئے بھی بلوچستان کا عام آدمی آج بھی بھوک افلاس کا شکار کیوں ہے۔

آیندہ کی حکومتوں اور وہاں کے کرتا دھرتاؤں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان کی سیاسی لیڈر شپ کو قومی دھارے میں لانے کے لئے سنجیدگی سے اقدامات کریں اور نادیدہ قوتیں یہ سمجھیں کہ بلوچستان کے لیڈروں کو صرف سیاسی کردار دے کر ہی بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا، ان کو مالی طور پر بھی خود مختار کرنا ہو گا؛ کیوں کہ جب تک سیاسی اختیار کے ساتھ ساتھ مالی خود مختاری نہیں ملے گی کوئی بھی ریاست، صوبہ یا علاقہ ترقی کا سوچ بھی نہیں سکتا؛ نہ وہاں کی محرومیاں دور کی جا سکتی ہیں۔ اس کا اشارہ اختر مینگل نے بھی دیا جو کہ ایک جائز مطالبہ ہے۔ وہاں دہشت گردی اور غیر ملکی قوتوں اور مذہبی جنونیوں کو اگر شکست دینا ہے تو معاملات کو درست سمت پر ڈالنا ہو گا۔

بلوچستان میں اس گھپ اندھیرے کی شکایت سے نکالنے لئے اور روشنی کی کرن دکھانے کے لئے ضروری ہے ہی کہ اختر مینگل اور ان جیسے تمام بلوچ لیڈروں کی باتوں کو سنجیدہ لینا ہو گا اور ان کا سنجیدہ حل تلاش کرنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے سیاسی پاور ہاؤس کو بھی خفیہ توانائی فراہم کرنے کے بجائے عوام کی توانائی اور ووٹ کی عزت کے ساتھ چلانا ہو گا، کیوں کہ اس کا فائدہ انہی کو ہوگا جو اس کرپٹ نظام سے اب تک مستفید ہوتے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).