کپتان اور شرمندہ نئی نسل



یہ وہ میدان جیتا ہے جس میں اصل امتحان اگلے مرحلے میں ہوتا ہے۔ یہ ایسی کامیابی ہے جو مستقبل کی راہوں کا تعین کرتی ہے، فاتح نے تاریخ میں اپنا نام کہاں لکھانا ہے۔ اب ہر نگاہ جیت کا نعرہ لگانے والوں پر لگی ہے۔ وہ کیا کرنے والے ہیں۔ نعرہ بھی تبدیلی کا، تبدیلی انسان کی جبلت میں شامل ہے مگر کئی بار اسے آسانی سے قبول نہیں کیا جاتا۔ جیسے ہے ویسے ہی گزار کرنے کی عادت بنانا مجبوری بھی بن جاتی ہے۔ ذھن میں یہ بات جگہ بناچکی ہوتی ہے کہ تبدیلی ممکن نہیں۔ اس کے لیے بہت کچھ کرنا درکار ہے وہ ہوسکتا نہیں۔ مصلحت پسندی مزاج کا حصہ بن جاتی ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے اچانک کوئی تبدیلی کی بات کرتا ہے نگاہ اور ذھن اس طرف لگ جاتا ہے۔ ایک امید اور آس بندھ جاتی ہے۔ شاید کچھ مختلف ہوجائے کچھ اچھا ہوجائے، سیاست، معیشت، سماج، مذہب کسی بھی شعبے کو لے لیں۔ تبدیلی کی فطری خواہش دکھائی دے گی۔

خان صاحب سے بھی توقعات وابستہ کرلی گئیں، انہیں جیت کا تاج بھی پہنایا جانے والا ہے، 22 سال کی جدوجہد کے بعد اگرچہ ایک متنازعہ صورت اختیار کرنے والی جنگ میں فتح نصیب ہوئی۔ اب سب کی نگاہیں کپتان پر لگ گئیں۔ کپتان کا بنیادی کام بھی اپنی ٹیم کو لے کر آگے بڑھنا ہوتاہے۔ اس نے صرف جیت پر نگاہیں نہیں جمانا ہوتیں بلکہ اردگرد سب کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے۔ اس کیلئے کیا حکمت عملی اپنانی ہے اس کا فیصلہ بھی کپتان نے کرنا ہوتا ہے۔

کپتان کو کچھ مختلف کرکے دکھانا پڑے گا۔ سیاست میں محض باتوں سے کام نہیں چلتا، عملی طور پر اس کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ابتدائی اعلانات سننے میں اچھے لگ رہے ہیں، ماضی میں بھی سادگی،کفایت شعاری،قومی خزانے پر بوجھ کم ڈالنے کی باتیں ہوتی رہیں، لیکن حکمرانوں نے ایسی مثالیں قائم کیں کہ اب شاید دکھ بھی نہ ہوتا ہو کیونکہ یہ سب سننے کے عادی ہوچکے ہیں۔ مہنگی گاڑیوں کی خریداری، جہازوں پر فیملی کا محض شاپنگ اور کھانے پینے کیلئے ملک کے اندر سفر، اور ایسی باتیں معمول بن گئی ہیں۔ جواز یہی رہا اگر سہولت ہے تو استعمال بھی نہ کریں۔ کبھی حکمرانوں نے سوچا نہیں یہ سب کس کے خرچے سے ہورہا ہے۔ غیرملکی حکمرانوں کی مثالیں صرف سنانے کے لیے نہیں ہوتیں۔ انسانی تاریخ میں مثال بننے کے لیے کچھ قربانیاں دینی پڑیں، جس کے بعد ان شخصیات نے خود کو امر کرلیا۔

ابھی تک نئی نسل یہی سوال کرتی ہے کہ دنیا میں پاکستان کو خوب مذاق اُڑتا ہوگا کہ ان کے وزیراعظم کیسے ہیں جن کی اکثریت جیل ضرور جاتی ہے، یہ کیسی قوم ہے جسے اپنا رہنما چنتی ہے وہ مجرم ٹھہرتا ہے، کیا ہم بطور قوم ہی خامیوں سے بھرے پڑے ہیں کہ یہ دن دیکھنے کی نوبت آجاتی ہے یا پھر نظام ایسا بنا نہیں سکے جس میں درست فیصلے نہیں کرپاتے۔ نظام کی کمزوری اور غلط فیصلوں کے نتیجے میں ملک دنیا بھر میں بدنام ہوتا ہے۔ بچے کہتے ہیں شاید ہمیں اپنی اس ناکامی پر شرمندگی اور ندامت کا احساس تک نہیں ہوتا۔

یہاں رہنما جیل جاتے ہیں پھانسی چڑھتے ہیں، گولی کا نشانہ بنتے ہیں، سزا یافتہ مجرم کہلاتے ہیں۔ کیا یہ رہنما نظام اور خود کو درست راہ پر چلانے میں ناکام رہتے ہیں یا نظام کی خرابی ان کو اس حال تک پہنچادیتی ہے۔

نئی نسل اس تبدیلی سے کچھ امیدیں لگائے ہے اس کو بہتری کی بہت زیادہ توقعات نہیں لیکن ایک آس ہے۔

کپتان کو بھی بخوبی علم ہے کہ یہ آخری موقع ہے انہوں بہت کچھ ذھن میں کرنے کیلئے کام رکھے ہوں گے،سب سے پہلے سیاسی حریفوں سے کیا سلوک کرنا ہے انہیں کس طرح ساتھ لے کر چلنا ہے، قوم کو کیا پیغام پہنچانا ہے اگر انہوں نے خود پر ہونے والے ذاتی حملوں کو درگزر کیا اور اس سب کو بھول گئے یہ بہت بڑی تبدیلی ہے سیاسی انتقام نہ لینے کی بات بھی کچھ کم نہیں۔ احتساب ہرکسی کا ہو، یہ بھی آسان نہیں۔

یہ کپتان کی سوچ ہو، قوم توقع کرتی ہے لیکن مخالفین بھی مثبت سوچ رکھیں ضروری نہیں۔ کیونکہ ہر کوئی حکمران سے تبدیلی کا خواہشمند ہوتا ہے، اپنے آپ کو تبدیل کرنا کسی بھی فرد کیلئے ہمیشہ سے مشکل عمل رہا ہے۔ دیکھنا ہے کہ کپتان نہ صرف کچھ تبدیلی لائیں اور ساتھ میں لوگوں کی سوچ بھی تبدیل کریں ، ایسا کئے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔ نئی نسل کے لیے پھر پرانی باتیں ہوں گی، اور مایوسی کا ایک گہرا سمندر جہاں ایک دوسرے پر الزامات کے غوطے کھانے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ کپتان سوچ لیں نئی نسل کو شرمندگی سے کیسے بچانا ہے؟

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar