انسانی لمس ہماری بنیادی ضرورت ہے


جس تیزی سے بیماریوں کا تناسب بڑھ رہا ہے وہ ایک تشویش ناک امر ہے۔ اس کا الزام چاہے ہم ماحولیاتی آلودگی سے منسوب کریں، مگر ہمیں سب سے بڑا خطرہ رویوں کی آلودگی سے ہے اس وقت!

ہمارے رویے ہر طرح سے منفی ہو چلے ہیں۔ قیاس آرائیوں، الزام تراشیوں اور کردار کشی کے موسم یہاں ہرے بھرے رہتے ہیں! غیبت سکہ رائج الوقت ہے۔ دوسروں کی برائی سے دل نہیں بھرتا۔ اپنائیت کا دور دور تک نام و نشان نہیں رہا۔ محلے کی لاتعلقی تو دور کی بات، یہاں گھر کے فرد ایک دوسرے کے دکھ سے لاتعلق ہیں۔ ایک اجنبیت ہے ہر طرف۔ شاپنگ پلازہ، بولیورڈ آباد ہیں جب کہ دل خالی ہیں!

باغ ویران مگر اسپتال آباد ہیں۔ بیمار ویٹنگ لسٹ پر منتظر، فوت ہوجائیں مگر بیڈ دستیاب نہیں ہوتے۔ بیماری کی وجہ انسانوں کے مابین ربط باہمی کا فقدان ہے۔ حال دل کہہ سن کر جو تسکین ملا کرتی تھی، وہ اطمنیان میسر نہیں آج کل۔ ہم نے فطرت سے کچھ نہیں سیکھا!

مظاہر فطرت کا ربط و لہریں انسانی ذہن و روح پر اپنے خاص اثرات مرتب کرتے ہیں۔ درخت تپش جھیل کر چھاوں بانٹتے ہیں۔ دھوپ کا لمس زندگی بخش ہے۔ پودے کو اگر پانی میسر نہ ہو تو مرجھا جاتا ہے۔ پھول خوش بو کے بغیر ادھورے ہیں۔ انسان بھی محبت، اپنائیت بھرے احساس و لمس بنا مکمل نہیں ہو پاتا۔

لمس کی نفسیات کے مطابق، یہ محبت کو مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ لمس سے تحفظ کے جذبات جڑے ہوئے ہیں۔ تعلق کی ایک ایسی روشنی، جو بچے کے ساتھ ہر عمر میں سفر کرتی ہے۔ ماں کا لمس تکلیف سے روتے ہوئے بچے کو خاموش کرا دیتا ہے۔ جو بچے ماں کے لمس کے قریب تر ہوتے ہیں وہ زیادہ پر اعتماد، مثبت سوچ رکھنے والے اور فعال ثابت ہوتے ہیں۔ ماں کے لمس سے بچوں میں ٹھہراؤ پیدا ہوتا ہے۔ ڈبے کے دودھ پر پلنے والے بچے لاتعلق، غیر سماجی اور ذہنی طور پر چوکنا نہیں ہوتے، جتنا ماں کے دودھ سے فیض یاب ہونے والے۔

اگر دیکھا جائے تو سائنسی طور پر لمس کی وضاحت اہمیت کی حامل ہے۔ مثال لمس سے Oxytocin ہارمونز پیدا ہوتے ہیں، جو انسان کو متحرک و فعال رکھتے ہیں۔ قربت کے احساس سے ان میں اضافہ ہوتا ہے۔ لہٰذا انھیں Cuddle Hormone بھی کہا جاتا ہے۔ یہ انسانی رویوں میں خوداعتمادی، یقین اور زندہ دلی کا باعث بنتے ہیں۔ سچائی سے بھرپور قربت انسان کی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ یہ خوب صورت جذبہ اسے کبھی تھکنے نہیں دیتا۔

کسی بھی پالتو جانور کو سہلانے سے انسان کے اندر یہ کیمیائی عمل شروع ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں لوگ جانور اور پرندے پالتے ہیں۔ ان پالتو جانوروں کا لمس مالکوں کو زندہ دل، فعال اور پرامید رکھتا ہے۔ یہ کیمیائی عمل انسان کی جذباتی زندگی کو تحرک عطا کرتا ہے۔ سماجی رابطے ہوں، والدین سے خوش گوار تعلق یا زندگی کی گرم جوشی ان ہارمونز کا پھلنا پھولنا بہت ضروری سمجھا جاتا ہے۔

روزمرہ زندگی میں دوستوں و قریبی عزیزوں سے ہاتھ ملانا یا گلے ملنا اس کیمیائی عمل کو تیز تر کر دیتا ہے۔ یہ لمس فریقین میں یقین کا احساس بھی پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا سماجی زندگی میں ملنے کے یہ طریقے سائنسی و نفسیاتی طور پر صحت بخش اور مزید اپنائیت پیدا کرنے والے سمجھے جاتے ہیں۔ جن کی وجہ سے تشویش، سماجی اضطراب، مزاج کے اتار چڑھاؤ یا ذہنی دباؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔

بہت سی ہیلنگ تھیراپیز لمس کے ذریعے شفا دیتی ہیں۔ جس میں رفلیکسولوجی، مساج تھیراپی اور ریکی شامل ہیں۔ ریکی ایک ایسا طرز علاج ہے، جو لمس کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ جب ریکی کے ماہر اپنے ہاتھ مریض کے جسم پر رکھتے ہیں تو یہ شفایاب ہارمونز بڑھ جاتے ہیں۔ جو نہ فقط تیزی سے زخموں کو مندمل کرتے ہیں بلکہ درد میں کمی کر دیتے ہیں۔ یہ لمس کی طاقت ہے جو طبیعت میں بہتری لے کر آتی ہے۔ لہذا لمس کے طبعی و روحانی دونوں حوالے ہیں، جو یہ ماہرین مریضوں پر اپلائی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مثبت توانائی کا محرک لمس شفا بخش کہلاتا ہے۔ اس حد تک کہ اگر کسی خاتون کے جسم پر ہاتھ رکھنے سے اگر ماہر کو جنسی ترغیب ملتی ہے تو اس کا علاج کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان ماہرین کو ذہنی و روحانی طور پر، تربیت کی سخت گزرگاہ سے گزرنا پڑتا ہے، تب کہیں جا کر یہ شفا یابی کے ہنر سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ جھوٹ، غصے و نفرت سے دور ہر شخص اپنی ذات میں مضبوط اور متحد کہلاتا ہے۔ ایسے لوگوں کا لمس افادیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔

مصافحہ کرتے وقت مثبت توانائی تو کبھی منفی لہریں ہمارے جسم میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ کچھ لوگ انرجی ویمپائرز ہوتے ہیں۔ جو مصافحہ کرتے یا گلے ملتے وقت ہماری توانائی جسموں سے کھینچ کے ہمیں بے جان کر جاتے ہیں۔ طبعی توانائی کی یہ چوری، غیر محسوس طریقے سے کی جاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ منفی لہروں میں ایک ایسی قوت پائی جاتی ہے، جو اپنے اندر حاوی ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔

کسی حد تک ہاتھ کی گرفت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مدمقابل شخص کی ذہنی و جسمانی صحت کس قدر فعال ہے۔ کم زور گرفت اور لرزتا ہاتھ طبعی و ذہنی پے چیدگیوں کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ آپ اگر لمس کی نفسیات جانتے ہیں تو یہ اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے کہ مصافحہ کرنے والا شخص آپ کا دوست ہے کہ دشمن۔ کس قدر مخلص ہے یا کیا مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگر بیمار کو کسی دوائی سے افاقہ نہیں ہو پا رہا تو ماہرین اس حوالے سے چند احتیاطی تدابیر بتاتے ہیں۔ جیسے سنہری روشنی کا تصور، مجمع میں زیادہ تر بیٹھنے سے گریز، نمک کے پانی کا غسل، منفی صحبت کو ترک کر دینا، مراقبہ، عبادت، فلاحی و تعمیری کاموں میں حصہ لینا وغیرہ شامل ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق: ”لمس سے بایو الیکٹریکل اور کیمیائی اثر نہ فقط ذہنی دباؤ میں کمی کرتا ہے بلکہ زندگی کے دورانئے میں اضافے کا باعث بنتا ہے“۔ مرد اور عورت اس لفظ کو الگ تناظر میں دیکھتے ہیں۔ مرد کے لیے یہ لفظ محض ضرورت، جسمانی کشش و قربت تک محدود ہو سکتا ہے، مگر عورت کے لیے یہ احساس کی ایک مکمل کائنات ہے۔ لمس میں اگر قربت، احساس اور اپنائیت نہ ہو تو وہ بے معنی بن جاتا ہے۔

لمس، رشتوں کو اسحتکام بخشتا ہے۔ شادی شدہ زندگی کی بہار، بچے بڑے ہوتے ہی رخصت ہو جاتی ہے۔ زندگی کے مسائل و سختیاں جسمانی فاصلوں کا سبب بنتے ہیں۔ اس دور میں خاص طور پر عورت کو ذہنی قربت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ مگر مرد یا تو دوسری شادی کرلیتے ہیں یا بیوی سے دور باہر کی دنیا میں، مسائل سے نجات کا حل تلاش کرتے ہیں۔ اور عورتیں بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔ لمس کی تشریح، عورت کی زندگی میں جنس کے مکینزم سے زیادہ، اپنائیت بھرے احساس کی ہے۔ وہ ہمیشہ مرد سے سمجھ بھرے رویے کی تقاضا کرتی ہے، جس میں اس کی روح بھی سرشار ہو۔ وہ مرد کی طرح جذبوں کی صارف نہیں بن سکتی۔

غلط قسم کی سوچ و منفی رویے انسان کو اندر سے توڑ کے رکھ دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح برے الفاظ، غیبت اور شکایتی رویے سننے والے غیر متعلقہ لوگوں کو بھی شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوچ کے زہر سے متاثرہ لمس بھی وبائی بیماری سے کم تباہ کن ثابت نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).