تبدیلی آئی نہیں، لائی گئی ہے


25جولائی 2018کے انتخابات سے قبل پاکستان میں پارسا سیاست کی بنیاد ڈالنے کو بے تاب کئی دانشوروں کو شدید پریشانی لاحق تھی۔ ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت ان کی دانست میں جاہل،جذباتی اور بے شعور ہے۔ ”بریانی کی پلیٹ“ پر بک جاتی ہے۔ میٹروبس جیسے منصوبے پر ضائع ہوا قومی سرمایہ ذہن میں نہیں رکھتی۔نہ ہی اسے یاد رہتا ہے کہ ایسے میگاپراجیکٹس بین الاقوامی کمپنیوں سے کمیشن اور کک بیکس کی صورت میں بھتہ نما رقوم حاصل کرنے کے لئے متعارف ومکمل کروائے جاتے ہیں۔فقط ان پراجیکٹس کی لش پش سے متاثر ہوجاتے ہیں۔

عوام کی اجتماعی جہالت کے کئی مظاہر بتانے کے بعد اس خدشے کا اظہار ہوتا کہ وہ سپریم کورٹ کی جانب سے عوامی عہدے کے لئے تاحیات نااہل قرار پائے شخص کے نام سے منسوب جماعت کی جانب سے اسمبلیوں کے لئے کھڑے امیدواروں کی حمایت میں ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ انتخابی نتائج نے لیکن ان کے خدشات کو جھوٹا ثابت کردیا۔

عمران خان صاحب کی تحریک انصاف جس نے ”نیا پاکستان“ بنانے کی ٹھان رکھی ہے اپنی حریف جماعت سے 40لاکھ سے زائد ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی۔گزشتہ انتخابات میں اس جماعت نے ووٹوں کی جو مجموعی تعداد حاصل کی تھی اس بار اس میں 120فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ”بریانی کی پلیٹ“ کام نہیں آئی۔ میٹرو بس کی لش پش کو بھی لوگوں نے نگاہ میں نہیں رکھا۔ عوام کی اجتماعی جہالت پر سینہ کوبی کرتے کسی ایک دانشور نے مگر اخلاقی جرا¿ت نہیں دکھائی کہ اپنے تحقیر آمیز تجزیے پر قوم سے معافی مانگے۔ اس حقیقت کا اعتراف کرے کہ صدیوں سے جان بوجھ کر ذلت ومشقت کا نشانہ بنائے عوام بھیڑبکریوں کی مانند نہیں ہوتے۔ عوام کا اجتماعی فہم حیران کن حد تک گہرائی اور گیرائی کا حامل ہے۔

1985سے متعارف کروائے ”جمہوری نظام“ نے انہیں سمجھا دیا ہے کہ جس جماعت کو ریاست کے دائمی ادارے باہم مل کر اقتدار سے باہر کردیں اسے نئے انتخابات کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں میں لوٹنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اپنا ووٹ ”ضائع“ کرنا انہوں نے مناسب نہ سمجھا اور یہ طے بھی کرلیا کہ 22سالوں سے ”نیا پاکستان“ بنانے کے خواب دیکھنے والے عمران خان کو بھی ایک چانس دینے میں کوئی حرج نہیں۔

یہاں تک لکھنے کے بعد خیال آیا ہے کہ نون لیگ کے کئی متوالے مذکورہ بالا باتیں پڑھ کر تلملااُٹھیں گے۔تبدیلی ان کے خیال میں آئی نہیں لائی گئی ہے۔ انتخابات میں وسیع تر دھاندلی کے واقعات گنوائے جائیں گے۔ میں ایسے کئی واقعات کو بلاچوں وچرا تسلیم کرنے کو تیار ہوں۔ انتخابات مگر چوری ہوئے ہیں تو اس کی وجہ سے نقصان میری ذات کا نہیں ہوا۔ مبینہ دھاندلی کا نشانہ نوازشریف کے نام سے منسوب جماعت تھی۔ اس جماعت نے لیکن اسمبلیوں میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے لوگوں کا وہاں پہنچ کر اسمبلیوں کی رکنیت کا حلف اٹھانا مجھ جیسے پاکستانیوں کو جن کا اقتدار کے کھیل میں براہِ راست کوئی حصہ نہیں ہوتا یہ سوچنے پر مجبور کرے گا کہ تھوڑا رونے دھونے کے بعد انتخابی نتائج کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔جس کے گھر میں مبینہ طورپر ڈاکہ پڑا اگر وہ اسے درگزر کرنے کو تیار ہے تو مجھے بھی چاچا خواہ مخواہ بننے کا کوئی شوق نہیں۔انتخابی نتائج کو لہذا الیکشن کمیشن کی بنائی فہرست اور اس کی جانب سے فراہم کئے اعدادوشمار سمیت تسلیم کرنے کو مجبور ہوں۔ میری توجہ ویسے بھی ”بریانی کی پلیٹ“ تک محدود ہے ا ور خون درحقیقت وطن عزیز میں پارسا سیاست کو فروغ دینے پر مامور خود کو عقل کل بناکر پیش کرتے دانشوروں کو اجتماعی بے حسی کے بارے میں کھول رہا ہے۔

ہٹلر نے جب فرانس پر قبضہ کیا تو تہذیب کا گڑھ شمار ہوتے پیرس کے لکھاری شرمناک حد تک خاموش رہے۔ ژاں پال سارتر اور البرٹ کامیو جیسے دانشوروں نے اس خاموشی کے اسباب ڈھونڈنے کی ٹھان لی۔بالآخر اک نکتے وچ گل یہ مکائی کہ نام نہاد پڑھے لکھے افراد جو عوام کی رائے بنانے کے زعم میں مبتلا ہوتے ہیںعموماََ Bad Faithکا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کا اپنا کوئی نظریہ ہی نہیں ہوتا۔ دھونس اور دھاندلی سے جو قوت بھی ان پر مسلط ہوجائے اس کے عروج کا جواز تراشنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔دور حاضر کے Spin Doctorsکی طرح جو کامیاب ہوئے سیاست دانوں کے لئے Feel Goodکہانیاں گھڑتے ہیں۔ میں بھی انتخابی نتائج کا الیکشن کمیشن کی بنائی فہرست اور اس کی جانب سے فراہم کئے اعدادوشمار کو As it isلیتے ہوئے ایک Feel Goodکہانی بیان کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔مقصد اس کاوش کا عمران خان کے دربار میں اپنے لئے کوئی مقام حاصل کرنا نہیں۔ فقط اپنے عوام کی اجتماعی بصیرت کو سلام کرنا ہے۔ اس حقیقت کا اثبات کہ وہ ”بریانی کی پلیٹ“ پر نہیں بکتے۔ میٹرو بس کی لش پش سے متاثر نہیں ہوتے۔ دعویٰ میرا یہ بھی ہے کہ عوام نہیں خود کو پارساسیاست پر مامور کئے عقل کل خواتین وحضرات ”بریانی کی پلیٹ“ ڈھونڈرہے ہوتے ہیں۔ان کی دانش دونمبری ،سطحی اور کھوکھلی ہے۔

وطنِ عزیز میں کرپشن کہانیوں پر چراغ پا ہوتے دونمبری دانشوروں کی تحریریں پڑھتا یا انہیں ٹی وی پر دیکھتا اور سنتا ہوں تو اکثر یہ فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ وہ طیش کی شدت سے ہلاک ہوجائیں گے۔ وہ لفظوں کو دانت پیستے ہوئے ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

ان دونمبری پارساﺅں کو مگر یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ایک صاحب ہیں جہانگیر خان ترین۔ سپریم کورٹ نے ا نہیں نواز شریف کی طرح صادق اور امین نہیں ٹھہرایا تھا۔ عوامی عہدے کے لئے وہ بھی تاحیات نااہل ٹھہرائے گئے ہیں۔ ان کی بھی بہت ہی قیمتی جائیدادیں برطانیہ ہی میں دریافت ہوئیں۔ ترین صاحب نے یہ جائیدادیں کیسے خریدیں اس کے بارے میں مجھے نہیں سپریم کورٹ کو مطمئن نہ کرپائے۔

انتخابی نتائج آجانے کے فوری بعد سے مگر ان صاحب کا ذاتی طیارہ مسافروں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانے والی ویگنوں کی طرح استعمال ہورہا ہے۔ عمران خان صاحب کو وزیر اعظم منتخب کروانے کے لئے جو نمبردرکار ہیں وہ اس طیارے کے استعمال سے پورے کئے جارہے ہیں۔ جو ”آزاد“ بھی بنی گالہ پہنچ کر خاں صاحب کے روبرو سرجھکا کر گلے میں PTIکا پٹہ ڈلواتا اور ایک حلف نامے پر دستخط کرتا ہے اس کے ہمراہ ترین صاحب چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ لئے موجود ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے عوامی عہدے کے لئے تاحیات نااہل ٹھہرائے شخص کی معاونت سے اس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہی سے صادق وامین ٹھہرائے عمران خان ”نیا پاکستان“ بنانے کو تیار ہو رہے ہیں اور بے چارے عوام سے ابھی تک ”بریانی کی پلیٹ“ والے طعنے کی معافی بھی نہیں مانگی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).