بڑیلہ شریف میں حضرت آدمؑ کے پوتے حضرت قنبیطؑ کی قبر


سیالکوٹ میں میری انٹرن شپ کا دورانیہ ایک ماہ ہے اس لیے یہاں اتوار کا دن دُہری نعمتِ خداوندی کے مترادف ہے، ایک تو چھٹی ہوتی ہے دوسرا پنجاب کے اس بیٹے کو دھرتی ماں کے سینے میں چھپے بے پناہ تاریخی و ثقافتی نوادرات کی جان کنی کا موقع ملتا ہے، کچھ ایسا ہی آج کے دن بھی ہوا۔

وقت سے پہلے دوشنبہ کے روز ہی ڈسکہ کے اپنے ایک جونئیر پیارے اعجاز سے معاملہ طے پایا کہ اتوار کو ہیڈ مرالہ جانا ہے، صبح نور حضور دے ویلے منزل وَلے نکل پڑے۔ سیالکوٹ سے شمال کی جانب کوئی بیس کلومیٹر بعد ہیڈ مرالہ کے مقام پر پہنچے، پانی دریائے چناب کے بطن میں اچھل رہا تھا، اطراف سے دو بڑی بڑی نہریں بھی نکالی گئی ہیں، دریائے چناب کے پُل پر کھڑے ہو کر مشرق کی طرف دیکھیں تو ہندوستان دِ کھتا ہے، جنوب میں سیالکوٹ اور شمال میں گجرات واقع ہے۔ پُل قریباً قیامِ پاکستان سے پہلے کا ہے اور ذرا سی وزنی گاڑی کے گزرنے ہر تھر تھر کانپتا ہے، یہ وہی پُل ہے جس پر سے ایک سیاح انگریز نے یہ کہہ کر گزرنے سے انکار کر دیا تھا کہ اس کی معیاد ختم ہو چکی ہے سو اسے پار کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر بھجوایا گیا۔ خیر اب ہم وہاں سارا دن منہ اٹھا کے پانی دیکھنے سے تو رہے سو شمال کی جانب چل پڑے۔

ہمارے ساتھ موجود ایک دوست نے بتایا کہ آگے ہی پینتیس منٹوں کی مسافت پہ بڑیلہ شریف میں حضرت آدم علیہ السلام کے پوتے حضرت قنبیط علیہ السلام کی قبر ہے، کہتے ہو تو وہاں کو چلیے۔ میں اب تک تقریباً پورا پنجاب گھوم چکا ہوں، پورے پنجاب کا ایک ہی رنگ ہے، سرسبز و شاداب، مہمان نواز اور محنت پسند خرد مند۔ جہاں جاؤ ہریالی ہی ہریالی ہے، چہروں پہ سب کے لالی ہے سو میرا وہاں جانے کا ارادہ نہ تھا مگر دوست بیلی چل پڑے۔ جونہی پُل کراس کیا گجرات پولیس نے ہمیں خوش آمدید کہا، دریائے چناب کی اس طرف سے گجرات کا علاقہ شروع ہوا، ٹبے، ٹیلے، سبزہ، کوندر، گھاس پسماندگی کے شکار لوگ، متنوع علاقے دیکھتے دکھاتے ہم کوئی تقریباً سوا گھنٹہ عازمِ سفر رہے تب جا کے ایک مقام پہ ایک بڑھیا نے بتلایا کہ حضرت قنبیط علیہ السلام کو یہاں سچا پیر کہا جاتا ہے، اِدھر سے جائیں اور وہاں سے ہو کر اُدھر سے لنگر ضرور کھا کے جائیں؛ بڑی بی نے ہاتھ اور آنکھوں کے اشاروں سے ہدایات دیں۔

میں نے آج تک یہ نہیں سنا تھا کہ پاکستان میں بھی کسی پیغمبر یا آلِ پیغمبر سے منسوب کوئی زیارات ہیں اس لیے غیر یقینی حیرت کا شکار تھا مگر جونہی مزار کے قریب ہوتے گئے تو کیا دیکھا کہ محکمہ اوقاف نے بڑا بندوبست کر رکھا ہے۔ چوڑیاں، کھلونے، انگوٹھیاں، پنجے، دیے، سجاوٹی نمونے اور کئی دوسری متفرق اشیاء کا بازار سجا ہوا تھا۔ محکمہ اوقاف کے مجاور جگہ جگہ پہ زائرین کی عقیدت کو پَیْسِیَانِے کے لیے چست و چوبند کھڑے تھے، جہاں کوئی تُک نہ بنتی تھی وہاں چندے کے ڈبے لگا دیے تھے۔

جونہی احاطۂِ مزار میں داخل ہوئے تو کیا دیکھا کہ دو میٹرو بس سٹیشنز سے بھی زیادہ لمبا مزار اور سارے مزار پر سنگِ مرمر لگا ہوا، میرے تو اوسان خطا ہوتے ہوتے رِہ گئے، اندر گئے تو معلوم ہوا کہ چونکہ قبر کی لمبائی ستر گز ہے اس لیے مزار بھی اتنا لمبا بنانا پڑا۔ حیرانی کا دوسرا جھٹکا تب لگا جب قبر کی چوڑائی عام قبور جتنی تھی۔ خیر میں نے دکھاوے کو دعا مانگی اور کوئی تاریخی حوالہ ڈھونڈنے لگا، اچانک سر کی جانب ایک تختی پہ نظر پڑی جس کے مطابق یہ مزار 1991ء میں اس وقت کے غوث عنایت مولا نے بنوایا تھا، نیز سر کی جانب پھولوں کے ہار، پتیاں، دستاریں، پگڑیاں و دیگر عجیب و غریب اشیاء اور خاص کر خوشبودار اگر بتیوں نے الگ ہی سماں باندھ رکھا تھا۔

میں مزید مضطرب ہوا، پورا مزار چھان مارا کہیں محکمہ اوقاف کی لگائی تختی نہ ملی، معلوم ہوا لگائی ہی نہیں گئی۔ باہر احاطے میں تین بزرگ حقہ پی رہے تھے ساتھ کچھ کتابچے دھرے بیٹھے تھے اور صحن میں ایک بورڈ پر ان کی جانب تیر کر کے دارالعلوم لکھا ہوا تھا، بھاگا بھاگا ان کے پاس گیا، جتنی کتابیں اور کتابچے تھے زمان ایڈووکیٹ نامی ایک شخص نے لکھے تھے جن میں حضرت قنبیط علیہ السلام کی قبر کی موجودگی کے متعلق کسی ثبوت کا تذکرہ بالکل بھی نہیں تھا البتہ اولیاء کرام کی کرامات پہ سیر حاصل گفتگو شامل تھی، دل مطمئن نہ ہوا تو پوچھا کہ آیا ایڈووکیٹ صاحب زندہ ہیں یا مر گئے، بزرگوں نے بتایا انہیں گزرے بھی عشرہ بیت چکا ہے۔ سو میں نے دو تین تصویریں بنوائیں اور بغیر کوئی روحانیت لیے بے مراد، بے مزہ لوٹ آیا۔

دوستوں کو لنگر کی بڑی فکر تھی سو اگلی زیارت کی طرف چل دیے۔ وہ دربار بڑیلہ شریف تھا، بارڈر وہاں سے کوئی تیس پینتیس میل ہی دور ہے۔ بڑی سخت سکیورٹی اور جگہ جگہ جدید کیمرے نصب تھے۔ لاہور کے علاوہ پہلی دفعہ میں نے کسی دربار پر اتنا ہجوم دیکھا۔ لوگ بمعہ بیوی بچے آ جا رہے تھے، جگہ جگہ ہدایات درج تھیں اور کیمرے کا استعمال سختی سے منع ہی نہیں تھا بلکہ انضباطی کارروائی کا انتباہ بھی درج تھا۔ سب سے پہلے ہم کھانا کھانے گئے، آلو شوربہ سے زائرین کی ضیافت وسیع پیمانے پر جاری تھی۔ میں نے راہ چلتے راہ گیروں سے پوچھا کہ بھئی یہ مزار کن کا ہے؟ ہر کوئی نام سے ناواقف تھا۔ جب کھانا کھانے گیا تو ایک صاحبِ ریش ویٹر سے پوچھا کہ یار کھانا تو میں کھا لیتا ہوں پہلے یہ تو بتاؤ کہ یہ مزار کن کا ہے؟

وہ صاحب بھی بجائے جواب دینے کے گرم ہو گئے خیر عوام کافی تھے تو میں نے بھی خاموشی میں عافیت جانی۔ بَیروں نے سر پہ عربیوں کی طرح سرخ رومال اور کالے پٹے چڑھا رکھے تھے اور ہاتھ میں ایک ہی گندی رومالی سے ہر پلیٹ اور گلاس کو بظاہر صاف کیے جا رہے تھے۔ وہیں معلوم ہوا کہ اس مزار پر فیمیلیز، مرد و زن کے الگ الگ رہائش کے کمرے بھی ہیں جو کوئی بھی چاہے یہاں کسی بھی وقت آ کے رہ سکتا ہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ پنج وقتہ نماز با جماعت ادا کرنی ہے اور صبح دوپہر شام ختم پاک میں لازمی شریک ہونا ہے۔

ایک طرف کو چند پرندوں اور دو بندروں پر مشتمل نام نہاد چڑیا گھر بھی بنا ہوا تھا اور ایک مرید ان کی خبر گیری پہ معمور تھا۔ میں یہ عجیب و غریب دنیا دیکھ کر ورطۂِ حیرت میں مبتلا تھا۔ سب سے آخر پہ اس مزار پہ حاضری دینا قرار پائی، جب ہم اندر گئے تو ششدر رہ گئے، قبر زمین سے کافی اونچی تھی مگر اس کے گرد لکڑی کا حصار اس سے بھی بلند تھا یہاں تک کہ قبر نظر نہیں آ رہی تھی۔ مجھے ایک دفعہ پھر تجسس ہوا، پنجوں پہ کھڑا ہو کر اس حصار میں جھانکنے کی کوشش کی تو زائرین نے عجیب نظروں سے دیکھا بعد ازاں یہ بھی دیکھا کہ قبر کے چاروں طرف سکیورٹی کیمرے نگرانی کر رہے ہیں۔

بہرحال میں وہیں بیٹھ گیا اور جونہی ہجوم ذرا کم ہوا تو فوراً اس حصار میں جھانکا اور بے ساختہ سبحان اللہ پکار اٹھا۔ اس چھوٹے سے احاطے میں لاتعداد سو، پچاس و زائد قیمت کے چھوٹے بڑے نوٹ پڑے تھے۔ ہم دربار سے باہر نکل رہے تھے تو میرے دوست پیٹ پر ہاتھ مارتے ہوئے اس دربار کے ذیلی تبرکات اور برکات پر اندھا دھند روشنی ڈال رہے تھے جبکہ میری زبان گنگ ہوئی پڑی تھی۔ سکیورٹی علاقے سے باہر نکلتے ہی میں نے اس عجیب و غریب مزار کی تصویر لے کر اپنی جبلت کی تسکین کا اہتمام کیا۔

وہاں سے نکلتے ہی واپسی کا سفر اختیار کیا اور ایڈونچر کے لیے دوسرے رستے کا انتخاب کیا۔ واپسی کے اس سفر میں ہم گجرات کے سرحدی موضعات رنگڑہ، کُری پور، ٹانڈہ وغیرہ سے گزرتے ہوئے سرخ پور جا پہنچے جہاں سے آگے لائن آف کنٹرول اور جموں کا علاقہ ہے۔ سرخ پور بہت ہی خوبصورت علاقہ ہے، وہاں سے سرخ رنگ کا پانی کشمیر کے گلیشئر پگھلنے سے بہتا ہوا آتا ہے اور ہیڈ مرالہ کے مقام پر دریائے چناب میں گر جاتا ہے۔

ہیڈ مرالہ سے واپسی پر ہماری بائیک کا پٹرول ختم ہو گیا، ابھی دو قدم ہی چلے تھے کہ دو نوجوان آئے اور اپنی بائیک سے پٹرول نکال کر ہمیں دے گئے۔ پھر ہم نے سیالکوٹ آ کر ہی دم لیا، یہاں دوپہر کا کھانا کھایا۔ تا دمِ تحریر ایک انجانی کیفیت میں مبتلا ہوں جسے میں بیان کرنے سے قاصر ہوں، بڑے سفر کیے اور بڑے نگر گھومے مگر ایسا سفر کیا نہ ایسا نگر دیکھا۔ مالک کے ہزار رنگ ہیں اور یہ رنگ تو خیر سب سے ہی نرالا ہے۔ میری دعا ہے رب اپنے بندوں پر رحم فرمائے اور انہیں آزمائش سے چھٹکارا نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).