بلوچستان: اسٹیمبلشمنٹ کے ایما پر انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کی ہے: جام کمال


بلوچستان

بلوچستان کے چیلنجز امن و امان کے حوالے سے بہت زیادہ نہیں بلکہ اچھی طرز حکمرانی سب سے بڑا مسئلہ ہے: جام صادق

بلوچستان میں وزراتِ اعلیٰ کے لیے نامزد امیدوار اور بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ جام کمال نے انتخابات میں اسٹیمبلشمنٹ کے ایما پر اکثریت حاصل کرنے کے تاثر کو مسترد کیا ہے۔

عام انتخابات میں بلوچستان میں اکثریت لینے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کا قیام چند ماہ قبل مئی میں ہوا تھا۔

مختصر عرصے میں پارٹی کو سب سے زیادہ نشستیں ملنے پر حریف جماعتوں کا کہنا ہے کہ انتخابات سے جماعت کو اسٹیمبلشمنٹ کی وجہ سے اتنی کامیابی ملی ہے۔

اس بارے میں جاننے کے لیے مزید پڑھیے

بلوچستان: اتحادی حکومت گرانے والی جماعتیں کامیاب

بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے بی اے پی کو واضح برتری

بلوچستان: نئی حکومت کے لیے جوڑ توڑ کا آغاز

اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے جام کمال کا کہنا تھا کہ یہ بات درست نہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی انتخابات سے ایک ماہ قبل بنی۔

انھوں نے کہا کہ پارٹی کی عملی شکل اس سال سینٹ کے انتخابات کے موقع پر ابھر کر سامنے آئی لیکن پارٹی کے خدوخال پر کام گذشتہ ڈیڑھ دو سال ہورہا تھا اور اس سلسلے میں ہم آہنگی پیدا کی جارہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان افراد سے مشاورت کی جا رہی تھی جو وفاقی یا صوبائی سطح کی جماعتوں سے نالاں تھے۔

انھوں نے استفسار کیا کہ لوگ کس بنیاد پر یہ بات کررہے ہیں کہ ان کی جماعت کو اسٹیمبلشمنٹ کی بنیاد پر اکثریت حاصل ہوئی۔

جام کمال کا کہنا تھا کہ مخالفین اگر انتخابات کے نتائج کو مد نظر رکھ کر بات کر رہے ہیں تو یہ درست نہیں ہے کیونکہ ان انتخابات میں پارٹی کو صرف 15 نشستیں ملی تھیں اور چار آزاد اراکین کی حمایت کے بعد پارٹی کے اراکین کی تعداد 19 ہوئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ بعض دیگر جماعتیں جن میں متحدہ مجلس عمل اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) شامل ہیں، ان کو بھی بلوچستان سے زیادہ نشستیں ملی ہیں۔

وزارتِ اعلیٰ کے نامزد امیدوار جام کمال نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے انتخابات میں جیتنے والے لوگوں کی پوزیشن مضبوط تھی اور یہ لوگ آج نہیں بلکہ پہلے سے انتخابات جیتتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی اسٹیمبلشمنٹ کی ایما پر نہیں بلکہ ایک نظریے کی بنیاد پر بنی جو یہ تھا کہ بلوچستان کے فیصلے بلوچستان میں ہوں۔

واضح رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی جن سیاستدانوں پر مشتمل ہے اُن کے خاندانوں کا تعلق قیام پاکستان سے لی کر بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام تک زیادہ ترمسلم لیگ سے رہا لیکن انھوں نے نئی پارٹی کے قیام کے لیے ایسا نام اختیار کیا جو کہ قوم پرستی اور علاقہ پرستی کے قریب ہے۔

اس تناظر میں پوچھے جانے والے سوال کے حوالے سے جام کمال کا کہنا تھا کہ لوگ مسلم لیگ کے نام سے بیزار نہیں ہوئے بلکہ اس ذہنیت سے بیزار ہو گئے جس کے تحت لوگوں نے پارٹیوں کو اپنی ذاتی جاگیر بنایا اور ہم بھی اسی ذہنیت سے بیزار ہوگئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ قومی دھارے کی جماعتوں میں رہے ان کو یہ تلخ تجربہ رہا کہ ان میں بلوچستان کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی جس کے باعث انھوں نے بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے جماعت کی داغ بیل ڈالی۔

جام صادق کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کا مقصد پاکستان کو مزید مضبوط اور مستحکم بنانا ہے۔

جام کمال کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کو بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے اکثریت سے زائد اراکین کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔

ایک اور سوال پر انھوں نے بتایا کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال میں پہلے سے زیادہ بہتری آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں انتخابات میں ٹرن آؤٹ بھی زیادہ رہا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ کے مطابق آج کے بلوچستان کے چیلنجز امن و امان کے حوالے سے بہت زیادہ نہیں بلکہ اچھی طرز حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp