گلوریا جینز میں شام اور ہزار داستان


گلوریا جینز میں شام

آج بہت دنوں بعد

گلوریا جینز میں کافی پیتے ہوئے

آخری سِپ کے ساتھ

شام کو بھی انڈیل لیا ہے منہ میں

معدہ چاکلیٹی تنہائی سے لبا لب ہو گیا ہے

اور تم کاغذی مَگ ہاتھ میں پکڑے

ہمیشہ کی طرح منہ کھولے، ساکت و صامت

ناگاہ ہونے والی اِس ملاقات میں

میری طرف دیکھتے ہوئے سوچ رہی ہو

کہ آفرینش سے پہلے تھما ہُوا وقت

گلوریا جینز میں کیسے آ گیا ہے

جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا

شام اِسی طرح مٹ میلی تھی

تاریخ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی

زمین پر صرف جغرافیہ تھا

پرندوں اور جانوروں کا ترتیب دیا ہُوا

اور وقت سایوں کی طرح چلتا تھا

اور تم یونہی حیران و پریشان

میری طرف دیکھ رہی تھیں

تم نے کبھی خود کو باخبر نہیں رکھا

تمہیں نہیں معلوم کہ ان دنوں

میری دنیا کتنی چھوٹی سی ہے

عالمِ نبات و حشرات کی طرح

جس میں چیونٹیوں کی قطاریں ہیں

پرندوں کے گھونسلے ہیں

لچک دار پلاسٹک کے سانپ اور کیڑے مکوڑے ہیں

اور آئس ایج کے زمانے سے کھیلنے والا

ایک ننھا نواسا ہے

اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟

سائبر ایج کے بچے

کھلونوں سے نہیں زمانوں سے کھیلتے ہیں

اور کھیل ہی کھیل میں

تاریخ کا آغاز ہو جاتا ہے

اور خاتمہ بھی ۔۔۔۔

پانی پر تیرتے مکان اور آبی شاہراہیں

اور مصوروں اور مجسموں کے شہر

آباد ہوتے اور اجڑ جاتے ہیں

بادشاہوں کی میتوں کے ساتھ

ہزاروں مصاحبین زندہ دفن کر دیے جاتے ہیں

اور عہد بہ عہد صدیاں ویران ہو جاتی ہیں

تمہیں نہیں یاد کہ دوسری بار

میں نے تمہیں دشمن سرزمینوں کے عین وسط میں دیکھا تھا

زیرِ زمین سرنگوں میں

جھک کر چلتے ہوئے اور رینگتے ہوئے

اور غاروں کے اندر بنے ہوئے گھروں میں

جہاں سوراخوں اور چمنیوں سے تازہ ہوا آتی تھی

گہری نیند میں

خوابوں کو کیمو فلاژ کیے ہوئے

اور ہونٹوں کے بیچ مسکراہٹ کی لکیر کھنچی ہوئی

جیسے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہو

اب تو دنیا اتنے ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے

کہ اسے دِکھانے کے لیے

ہاتھوں کی لکیریں بھی ناکافی ہیں

اور اِس جگہ

جہاں اب شہر آباد ہے

اور ہم بیٹھے ہوئے ہیں گلوریا جینز میں

میں نے تمہیں آخری بار دیکھا تھا

یہاں چند گھر تھے،

ایک راستہ تھا، ایک موڑ تھا، جہاں میں کھڑا تھا

بدترین شکستوں اور ہزیمتوں کے ساتھ

گلیاں سنسان اور چھتیں خالی تھیں

درختوں اور مکانوں سے دھواں اٹھ رہا تھا

اور تمہاری صرف ایک جھلک تھی

دشمن نے دلوں اور ذہنوں کے سارے رابطے جام کر دیے تھے

پہاڑوں نے ہمیں پناہ نہیں دی تھی

اور بادل بے وقت برس رہے تھے

اور آج پھر ۔۔۔۔۔ یگوں بعد

ہم مِلے ہیں گلوریا جینز میں

اور ہمیشہ کی طرح تمہیں نہیں معلوم

کہ ہم ایک ہی ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہتے ہیں

ہماری کوئی تاریخ ہے نہ جغرافیہ

بس ایک سوک سینٹر ہے

اور ایک قبرستان

اور گلوریا جینز میں

وقت تھما نہیں، روشنی کی رفتار سے سڑپ رہا ہے!

ثروت نجیب

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ثروت نجیب

ثروت نجیب کا تعلق کابل، افغانستان سے ہے۔ پیشے کے اعتبار سے گرافک ڈیزائنر اور جرنلسٹ ہیں۔ کابل ٹائمز اور یوریشیا کے لیے لکھتی ہیں۔ سارک ادبی شعبہ اور بین الاقوامی اماروتی پوئیٹک پریزم کی ممبر ہیں۔ معاشرتی، سیاسی، ملکی اور عالمی مسائل ان کے خاص موضوعات ہوتے ہیں۔ مادری زبان پشتو ہونے کے باوجود اردو ادب سے شغف رکھتی ہیں اور اردو میں نظم، افسانے، مضامین اور کالم بھی لکھتی ہیں۔

sarwat-najeeb has 6 posts and counting.See all posts by sarwat-najeeb