ایک بکھرے گھرانے کا فسانہ عجائب


میں اپنے گھر کے دروازے پر قدم دھر کر جو ذرا بائیں جانب نگاہیں اٹھاتی ہوں تو سامنے ایک کتھئی رنگ کا دروازہ نظر آتا ہے۔ یہ دروازہ بظاہر تو عام دروازوں جیسا ہے جس کے اندر میرے اور آپ کے جیسے ہی چند نفوس سانسیں بھر کر زندہ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ گھر کے اندر سامان کم وبیش وہی ہے جو فی زمانہ صرف بنیادی ضرورتوں کے زمرے میں آتا ہے لیکن جب وہاں کے مکینوں کی بنیادی ضرورتیں چادر سے پاؤں باہر نکالنے کی کوشش کرتی ہیں تو سامان کم پڑنے لگتا ہے۔ ایک اور بات جو اس گھر کو اطراف میں واقع دیگر گھروں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہاں سے اکثر و بیشتر بلند ہونے والا شور وغل ہے۔

یہ شور زندگی سے بھرپور قہقہوں کا نہیں، نہ ہی روزمرہ معاملات کو نمٹانے کی اٹھا پٹخ کاہے بلکہ گھر کے چاروں مستقل مکینوں کے باہم دست بہ گریباں ہو کے مغلظات کے بے مہار استعمال کا ہے۔ یہ شور جب حد سے بڑھتا ہے تو دیواروں میں نقب لگاتا ہوا ہماری پرسکون اور دریا جیسی رواں زندگی میں سمندر جیسا تلاطم پیدا کر دیتا ہے اور آس پڑوس میں بسنے والوں کی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ان سے نالاں رہتے ہیں اور اس گھر سے فاصلہ رکھ کر چلتے ہیں۔ لیکن نہ جانے کیوں وہ شور ایک ٹیس بن کر اکثر میرے سینے میں اتر جاتا ہے۔

اس گھر میں ایک عورت اور اس کے تین بچے مقیم ہیں۔ ان کی کہانی کچھ مختلف نہیں عام سی ہے۔ سیکڑوں، ہزاروں بلکہ لاکھوں مردوں کی طرح اس عورت کا شوہر بھی اس وقت طلاق دے کر چلتا بنا جب ایک بچہ پیروں چلتا تھا، دوسرا گھٹنوں اور تیسرا کسی ننھے کیڑے کی مانند شکمِ مادر میں ہی رینگ رہا تھا۔ یوں تو اس عورت نے اپنے شوہر کے کم زور لمحوں کی خطائیں اپنے پاس رکھ لیں لیکن جس طرح رکھیں اس کا مشاہدہ کرنے والا ہر ذہن بس یہی رائے دیتا ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ بھی باپ کی طرح ان سے جان چھڑا کر انہیں کسی یتیم خانے کے حوالے کردیتی، جہاں اگر وہ کچھ بن نہ پاتے تو کم از کم اتنے مسخ بھی نہ ہوتے۔

اس کی مامتا جانے کیسی آگ میں سلگتی رہی کہ بچوں کی زندگیاں راکھ بنا ڈالیں۔ بچوں کا بچپن اب جوانی کی سرحد میں داخل ہونے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ تینوں بلا کے بدزبان، جھگڑالو اور ہر اخلاقی قدر سے عاری ہیں۔ پڑوسی اپنے بچوں کو ان سے دور رکھنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔ لیکن میں اپنی گود میں تین بچے لے کر سوچتی ہوں کہ پودوں کو پنپنے کے لیے سازگار حالات اور ماحول ہی فراہم نہ کیا گیا ہو تو قصور پودوں کا کب ہوا؟ یہ الزام تو باغ کے مالی کے کھاتے میں جائے گا۔

وہ عورت اگر چہ اب بڑھاپے کی دہلیز پر پاؤں رکھ چکی ہے لیکن اس کی ترجیحات میں آج تک بچوں کی نہ تعلیم ہے اور نہ تربیت، اس کے دماغ کی سوئی اب بھی بچوں کے باپ کی بے حسی پر اٹکی ہے، جس نے بچوں کا حال جانتے ہوئے بھی کبھی پلٹ کر ان کی خبر نہ لی۔ یوں الزام در الزام کے اس کھیل میں اس عورت نے کبھی اپنی ذمہ داری نبھانے کا بھی کوئی جتن نہ کیا، بس اسی ’ نامُراد‘ کو کوستے پیٹتے ساری عمر گزار دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کسی کے ہاتھ کچھ نہ آیا بلکہ رہا سہا بھی ہاتھوں سے نکل گیا۔

بچے اب ایک طرف تو ہر چوک پر کھڑے ہوکر باپ کو برا بھلا کہتے ہیں، اس کی حیوانی جبلت پر ملامت کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زندگی کے جہنم میں جلنے کو چلے آئے، تو دوسری طرف اپنی ماں کے لیے بھی ان کے دل میں نہ کوئی عزت و احترام ہے اور نہ ہی کوئی جذبۂ ترحم۔ ہو بھی کیسے سکتا ہے! خود ماں باپ کی توجہ کا مرکز و محور بچے تھے بھی کب؟ وہ تو طلاق کے بعد بھی ساری توانائیاں آپس کی دشمنی نکالنے میں صَرف کرتے رہے اور بچے چَکّی کے دو پاٹوں میں بری طرح پستے رہے، زمانے کی ٹھوکروں میں رُلتے رہے۔

یہی وہ وجہ ہے کہ ان تینوں بچوں کو لوگوں کا حقارت سے دیکھنا مجھے تکلیف دیتا ہے۔ میں اکثر سوچتی ہوں کیا جانور صرف چار پیروں والی مخلوق ہی کہلاتی ہے؟ حیوان کیا صرف جنگلوں کے مکین ہی ہوتے ہیں؟ کیا ایسے والدین کو انسانیت کے زمرے میں شامل کیا جائے گا جن کے بچے ان کی محبت اور محنت کے بنا محض قانون قدرت کے تحت کسی خاردار جھاڑی کی طرح خود بہ خود اُگتے چلے گئے۔ کیا یہ والدین درندے نہیں جو اپنے بچوں کا بچپن، خوشیاں، شخصیت اور مستقبل سب کچھ ہی ہڑپ کرگئے۔

ایک دن وہ عورت راستے میں ملی تو مجھے روک کر عادت کے تحت اپنا ”فسانۂ عجائب‘‘ سنانے کھڑی ہوگئی۔ اس کی درد بھری آواز میرے دل کو ذرا نرم نہ کرسکی۔ لیکن اس کی ایک بات پر میں چونک اُٹھی، جب اس نے کہا کہ اس آدمی نے تین بچوں کے ساتھ ایسے خوار کیا کہ اب تو دل چاہتا ہے خود کشی کرلوں۔ اور میں تصور کی آنکھ سے اس کتھئی دروازے کے پیچھے ایستادہ ان درودیوار پر سکون کی لہریں اترتی دیکھنے لگی جو پہلے ہی باپ کے وجود سے خالی تھے اور اب انہیں ماں کی بھی کوئی ضرورت نہ تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).