اقتدار ملنے کے بعد تنہا رہ جانے والا عمران خان


آج پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان کو باقاعدہ طو ر سے وزیر اعظم کا امید وار نامزد کردیا ہے۔ گو کہ اس بات کا کافی امکان موجود ہے کہ عمران خان منتخب پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن تادم تحریر یہ بات واضح نہیں تھی کہ تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں اکثریت کی حمایت حاصل ہوچکی ہے۔ عمران خان کے معتمد اور پارٹی لیڈر آزاد ارکان اور چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ معاملات طے کرکے اکثریت کو یقینی بنانا چاہتے ہیں ۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے تحریک انصاف کو بہت سے پاپڑ بیلنے پڑے ہیں تاہم عمران خان وزیر اعظم بننے کے جوش میں ان سب مشکلات کو عبور کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ اپوزیشن نے اگرچہ متفقہ طور پر وزیراعظم کا امید وار لانے کا اعلان کیا ہے لیکن اس بات کا امکان نہیں ہے کہ موجودہ حالات میں بھاری بھر کم اپوزیشن تحریک انصاف یا عمران خان کے لئے فوری طور پر کسی پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقتدار کا ہما عمران خان کے سر پر بیٹھ چکا ہے اور ملک کا وزیر اعظم بننے کے لئے ان کا دیرینہ خواب پورے ہونے میں چند ہی روز باقی ہیں۔

اس موقع پر عمران خان کی سیاست پر نظر رکھنے والے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے کون کون سے اصولوں کی قربانی دی گئی ہے اور کن کن ساتھیوں کو بیچ سفر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس وقت ملکی میڈیا کے بزرجمہر بڑی تعداد میں عمران خان کو پروموٹ کرنے میں مشغول ہیں اور کالم نگاروں کی اکثریت اس تازہ بتازہ کامیابی کے بعد عمران خان سے دیرینہ تعلق و رشتہ کے حوالے ریکارڈ پر لانے کی کوشش کررہی ہے۔ ان میں سے اکثر کو عمران خان کی صورت میں اہل پاکستان کے خوابوں کی تعبیر دکھائی دینے لگی ہے۔ تاہم ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اس سفر میں عمران خان کی بدلتی ترجیحات کے علاوہ، ان کے تبدیل ہوتے ساتھیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہیں درپیش مشکلات کے بارے میں آگاہ کررہے ہیں۔ گو کہ اس بات پر اتفاق رائے موجود ہے کہ عمران خان ایک پر عزم اور دیانت دار لیڈر ہیں لیکن یہ طے نہیں ہے کہ ان سے وابستہ کی گئی توقعات کس حد تک درست اور قابل عمل ہیں۔

اس کا حوالہ عمران خان کی پہلی اور سابقہ بیوی اور ان کے دو بچوں کی ماں جمائمہ کے ٹویٹ پیغام میں بھی موجود تھا۔ انہوں نے عمران خان کی جیت کو طویل جد و جہد ، انتھک محنت اور شکست قبول نہ کرنے کے عزم کی کامیابی قرار دیا ہے لیکن ساتھ ہی عمران خان کو باور کروایا ہے کہ وہ اس کامیابی کے بعد اس بات کو نہیں بھولیں گے کی وہ سیاست میں کیوں آئے تھے۔ جمائمہ سیاسی سفر کے آغاز میں عمران کی شریک سفر تھیں لیکن وہ بہت دیر تک اس راستے پر ان کا ساتھ نہیں دے سکیں جبکہ عمران خان سیاست ترک کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ جمائمہ کے ساتھ ان کی راہیں جدا ہوگئیں لیکن اب لیلی اقتدار سے بغلگیر ہوتے ہوئے جمائمہ نے ایک اہم سوال ان کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ اس کا جواب نعروں کی صورت میں تو دیا جا رہا ہے اور بہت سے لوگوں کے خوابوں میں بھی اس جواب کی تصویر موجود ہے لیکن اس کی تعبیر تک پہنچنے کے لئے ابھی بہت سفر طے کرنا ہوگا۔ یہی عمران خان کا اصل امتحان ہے۔ بصورت دیگر یہ تو کہا جاسکے گا کہ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کا قصد کیا اور بہر طور یہ مقصد حاصل کرلیا لیکن جس مقصد کے لئے وہ اقتدار حاصل کرنا چاہتے تھے ، اسے حاصل کئے بغیر یہ عمران خان کی ذاتی کامیابی کہلائے گی۔ اسے پاکستان یا اس کے باشندوں کی کامیابی نہیں کہا جاسکے گا۔

عمران خان کو دھن کا پکا اور ٹارگٹ حاصل کرنے کے لئے جنون کی حد تک مستقل مزاج ہونے کی شہرت حاصل ہے۔ وہ خود اپنے انٹرویوز اور تقریروں میں متعدد بار اپنی اس صلاحیت کا ذکر کرچکے ہیں کہ وہ شکست سے ہمت نہیں ہارتے اور کامیابی حاصل کرکے ہی رہتے ہیں۔ اس حوالے سے 1992 میں کرکٹ کا ورلڈ کپ حاصل کرنے کا حوالہ دینے کے علاوہ شوکت خانم کینسر ہسپتال کے قیام کا ذکر فخر سے کیا جاتا ہے۔ اس بیان میں البتہ کرکٹ ٹیم کے ان ہمراہوں کا ذکر شاذ و نادر ہی سننے میں آتا ہے جن کے ساتھ مل کر عمران خان نے پاکستان کے لئے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا تھا۔ حالانکہ اس جد و جہد اور کوشش میں ٹیم کے باقی دس کھلاڑیوں کے علاوہ متعدد دوسرے معاونین کا کردار بھی موجود تھا۔ لیکن عمران خان خود اور ان کے پر جوش حامی اس کامیابی کو عمران خان کی ذاتی کامیابی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح شوکت خانم ہسپتال کا منصوبہ مکمل کرنے اور اسے کامیابی سے چلانے کے لئے عمران خان نے کرکٹ سے ملنے والی شہرت اور کامیابی کو استعمال کیا اور دنیا بھر سے عطیہ دینے والے لاکھوں لوگوں اور اس منصوبہ کی تکمیل میں کام کرنے والے سینکڑوں کارکنوں نے دن رات محنت کی۔ لیکن اس کا کریڈٹ بھی عمران خان کو ہی ملتا ہے۔

 ان دو اہداف کو حاصل کرنے کے بعد عمران خان نے وزیر اعظم بن کر ملک کی اصلاح کا تہیہ کیا تھا۔ وہ اس مقصد میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ اب ان کے وزیر اعظم بننے کے راستے میں چند دن اور بعض رسمی کارروائیاں ہی حائل ہیں۔ تاہم پہلے دو منصوبوں کے برعکس وزیراعظم بننے کے منصوبہ کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان کی سرا سر ذاتی کامیابی ہے۔ تحریک انصاف کے آغاز سے لے کر اسے قومی اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی بنوانے تک کے سفر میں عمران خان نے پارٹی کے اندر اور باہر سے ہر مزاحمت کو ذاتی خواہش اور کوشش کی وجہ سے عبور کیا۔ انہوں نے اپنے نظریاتی اور اصولوں پر سودے سے گریز کرنے والے ساتھیوں کو تبدیل کیا، سیاسی پاکیزگی کے اس رویہ کو ترک کردیا جو اقتدار تک پہنچنے کے لئے ان کا راستہ کھوٹا کررہا تھا اور ان طاقتوں سے ہاتھ ملایا جو ملک میں جمہوری ارتقا کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہیں۔ تحریک انصاف کی کامیابی ایک فرد کی مقبولیت اور مسلسل جد و جہد کی مرہون منت ہے ۔ اس کا نام بلاشبہ عمران خان ہے۔ اس جد و جہد کے نتیجہ میں ہی وہ چند روز میں اس ملک پر حکمرانی کے منصب پر فائز ہوجائیں گے۔ عمران خان اگر وزیر اعظم بننے کے لئے سیاست میں آئے تھے تو بلاشبہ وہ تن تنہا اپنی ہمت اور حوصلہ کی وجہ یہ مقصد حاصل کرنے والے ہیں لیکن اگر وہ وزیراعظم بن کر قومی اصلاح کا کوئی بڑا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے انہیں ساتھیوں اور دوستوں کی ضرورت ہوگی۔ افسوس کی بات ہے کہ اس ارفع مقصد کے لئے وہ جن لوگوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھیں گے، وہ بار بار قوم کے آزمائے ہوئے ہیں۔ وہ راستہ ہموار کرنے کی بجائے مقاصد کے حصول میں رکاوٹ بنیں گے۔

عمران خان اپنی ذاتی خوبیوں کو سامنے لانے اور فوکس کروانے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ ان کی ذاتی خوبیوں کے لاکھوں مداح ملک میں موجود بھی ہیں۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے ان سے ایسی توقعات وابستہ کی گئی ہیں جنہیں پورا کرنے کے لئے کئی نسلوں کا سفر درکار ہوگا۔ ان سے یا ان کی پارٹی سے یہ توقع کرنا غیر فطری ہوگا کہ وہ پانچ برس کی مدت میں ملک کی کایا پلٹ دیں گے، غیر ملکی قرضے اتار دئیے جائیں گے، ہر نوجوان کو روزگار مل جائے گا، تعلیم کی سہولتیں گھر گھر پہنچ چکی ہوں گی، صحت کے مسائل ختم ہوجائیں گے اور ملک کے انتہا پسند اپنی زبانوں کو قفل لگا کر نیکی پھیلانے اور محبت عام کرنے کے کام میں جٹ جائیں گے۔ مسائل کی کثرت و شدت اور وسائل و امکانات کی قلت کو سامنے رکھتے ہوئے انتخابی وعدوں کی سہانی تصویر مکمل ہونے کی توقع نہ بھی کی جائے تو بھی یہ امید تو کی جائے گی کہ وہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے بنیادیں فراہم کرنے کے کام کا آغاز کریں گے۔

قوم کی تعمیر نو، سیاسی نظام کی اصلاح،سماجی رویوں میں تبدیلی اور نعرے کی بجائے محنت کا کلچر متعارف کروانے کے لئے عمران خان کی ذاتی خوبیوں کے علاوہ مخلص ماہرین کی ٹیم اور تربیت یافتہ سیاسی کارکنوں کی ضرورت ہوگی۔ عمران خان سفر کی عجلت میں یہ زاد راہ جمع کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ اس کی ایک وجہ ان کا اپنی ذات پر غیر معمولی اعتماد بھی ہے۔ انہیں ووٹ دینے والے اور ان سے معجزوں کی توقع کرنے والے حامیوں کو بھی ان شخصی خوبیوں پر بھروسہ ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس شخص کو ایک موقع تو دیا جائے، وہ سب مسئلے حل کر دے گا۔ یا حکومت کا سربراہ اگر بے داغ شخص ہو گا تو اس کے ساتھ کام کرنے والے کسی شخص کو بدعنوانی کا حوصلہ نہیں ہو گا۔ اب ان خوابوں کی تعمیر کے سفر پر روانہ ہوتے ہوئے عمران خان کو قومی اسمبلی میں اکثریت لینے کے لئے نمبر پورا کرنے کے ساتھ اپنے دائیں بائیں دیکھنا ہو گا کہ وہ لوگ کہاں ہیں جو ان کا نیا پاکستان تعمیر کریں گے۔

سیاسی پارٹیاں اجتماعی کاوش کا نمونہ ہوتی ہیں۔ تحریک انصاف نے اگرچہ اسی مقصد سے سفر کا آغاز کیا تھا لیکن عمران خان کے حصول اقتدار کی خواہش نے نہ پارٹی کو تنظیم بننے دیا، نہ تہ دار قیادت تیار ہوسکی اور نہ ہی ایسا سیاسی گروہ سامنے آسکا جو عزم کے علاوہ کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور رموز مملکت سے باخبر ہو۔ اب تن تنہا عمران خان سے امیدیں بھی وابستہ ہیں اور انہی کو ان سوالوں کا جواب بھی دینا پڑے گا جو ان کے عہدہ سنبھالتے ہی سامنے آنے لگیں گے۔ تحریک انصاف کی دوسرے درجے کی قیادت کے اختلافات اور رسہ کشی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ نہ ہی عمران خان کے علاوہ کوئی دوسرا لیڈر پارٹی کو اکٹھا رکھنے اور اس ’وژن‘ کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو جو عمران خان سے منسوب کیا جاتا ہے۔

 اس صورت میں یہ سوال تو پوچھا جاسکتا ہے کہ عمران خان کا اقتدار حاصل کرنے کے علاوہ کیا مقصد تھا۔  قومی اصلاح اور بہبود کا خواب اب عمران خان کو ووٹ دینے والے لوگوں کے علاوہ ملک کے کروڑوں دوسرے لوگوں نے بھی اپنی خالی آنکھوں میں سجا رکھا ہے۔ یہ خواب ٹوٹے تو تبدیلی پر عوام کا اعتبار بھی شکستہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali