پاکستان کی نئی حکومت کو درپیش خارجہ، معاشی اور داخلی مسائل کیا ہوں گے؟


عمران

پاکستان میں حالیہ عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ وہ صوبہ خیبر پختونخوا میں تو حکومت بنا ہی رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وفاق اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے گڑھ صوبہ پنجاب میں بھی حکومت بنائے گی۔

بی بی سی کے پروگرام سیربین نے پاکستان تحریک انصاف اور ممکنہ وزیر اعظم عمران خان کو درپیش خارجہ، معاشی اور داخلی مسائل کے حوالے سے سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، اقتصادی ماہر اور صحافی حمیرہ شاہد اور سینیئر صحافی اور تجزیہ کار قطرینہ حسین سے بات کی۔

خارجہ چیلنجز

سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ جو چہرہ امریکہ کا اب سامنے آیا ہے اور سب دیکھ رہے ہیں یہ بہت مختلف چہرہ ہے۔

’امریکہ کا مسئلہ صرف پاکستان ہی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے ساتھ ہے۔ جس طریقے سے امریکہ اپنے آپ کو دنیا کے سامنے اب پیش کر رہا ہے وہ بہت مختلف ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ پہلے امریکہ سپر پاور ہونے کے ناطے دنیا کے ایشوز کو سنبھالتا تھا ان کو نمٹاتا تھا۔

’پاکستان کے لیے فائدہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ ایک حد تک تعلقات کو باہمی احترام کے تحت برقرار رکھے۔ یہ ہمارے حق میں نہیں ہو گا کہ ہمارے تعلقات امریکہ کے ساتھ دوستانہ نہ ہوں۔‘

انھوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت پر لازم ہے کہ وہ ملک کی خارجہ پالیسی کو ذمہ دارانہ طریقے سے چلائے۔

’عمران خان صاحب کی حکومت پر لازم ہے کہ وہ دنیا کو باور کرائے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو نہ صرف پاکستان میں امن چاہتا ہے بلکہ خطے میں بھی۔ اور خاص طور پر افغانستان میں مثبت کردار ادا کر بھی سکتا ہے اور اس کا خواہشمند بھی ہے۔‘

china

ان سے جب پوچھا گیا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پاکستان کے لیے بہت اہم ہو گیا تو ایسے میں کیا پاکستان کو امریکہ کو راضی رکھنا اہم ہے تو حنا ربانی کھر نے کہا کہ پاکستان کو کسی کو راضی نہیں کرنا ہے بلکہ ایک جمہوری ملک ہونے کے ناطے اپنی عوام کو راضی کرنا ہے۔

’پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے یہ اصول بار بار یہ دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی۔‘

ایک اور سوال کہ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کے ساتھ عمران خان نے برابری اور برادرانہ روابط کی بات کی ہے جبکہ اس سے قبل ہم چند شاہی ممالک کو فوج بھی مہیا کرتے رہے ہیں تو یہ کیا حقیقت مندانہ پالیسی ہو گی تو سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ عمران خان کی یہ حقیقت مندانہ پالیسی ہو گی۔

’اگر آپ صحیح جگہ پر کھڑے ہوں اور آپ کو معلوم ہے کہ کس پر سمجھوتہ نہیں کرنا جو کہ پاکستان کا فائدہ ہے تو دنیا بھی سمجھ جاتی ہے اور دنیا بھی آپ پر بے وجہ دباؤ ڈالنا بند کر دیتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان کسی کی پراکسی ریاست اور کلائنٹ ریاست نہیں ہے۔ ہمارا دنیا میں اور اس خطے میں عزت اور وقار ہے۔

اگر دعوت نامہ آتا تو؟

دنیا کا سب سے ’ہینڈسم‘ وزیرِ اعظم کون؟

’ہمارے کچھ لیڈروں نے خود پاکستان کی عزت اور وقار کو بیچنے کی کوشش کی ہے۔ وہ لیڈروں کی غلطی ہے وہ ملک اور ریاستی غلطی نہیں ہے۔‘

کشمیر کے حوالے سے حنا ربانی کھر نے کہا کہ انڈیا کے ساتھ کشمیر سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے دروازے بالکل کھل سکتے ہیں۔

’اگر انڈیا اور پاکستان میں لیڈرشپ ایک ساتھ یہ دروازے کھولنے چاہے تو کھل سکتے ہیں۔ اس سے بڑے بڑے مسئلے دنیا میں حل ہو چکے ہیں۔ اگر کشمیریوں کی آسانیاں دیکھیں اور خواہشات دیکھیں تو ہمارے لیے یہ مسئلہ حل کرنا مشکل نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے انڈیا پوری دنیا کو اپنا نہایت گھناؤنا چہرہ دنیا کو دکھا رہا ہے۔‘

معاشی مسائل

اقتصادی ماہر حمیرہ شاہد سے پوچھا گیا کہ کیا نئی حکومت کو دوبارہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا یا کوئی اور طریقہ ہے تو ان کا کہنا تھا پاکستان پر قرض بہت زیادہ ہو گیا ہے اور سب سے اہم بات قرض مینیجمینٹ ہے کہ اس کو آہستہ آہستہ کم کیا جائے۔

’پاکستان کے لیے آئی ایم ایف بیل آؤٹ کا جواز نہیں‘

’ہمارے 124 پبلک ادارے ہیں جیسے پی آئی اے، ریلویز، سٹیل ملز وغیرہ۔ ان اداروں کو کھڑا کرنے کی ضرورت ہے اور ضروری نہیں کہ ہر چیز کو نجکاری کی جانب لے جایا جائے۔ ان کے لیے فنڈ مہیا کیے جائیں اور خودمختار مینجمنٹ دی جائے۔‘

نوجوانوں کے حوالے سے حمیرہ شاہد نے کہا کہ دنیا بھر میں بےروزگاری بہت زیادہ ہے اور پاکستان میں نوجوانوں کو کاروبار کی جانب لانا ضروری ہے۔

cpec

’سی پیک پاکستان اور ہمارے نوجوانوں کے لیے بہت اہم ہے اور ہماری حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ سی پیک کو پاکستان کی عوام کے فائدے کے لیے کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ مکانات بنائیں گے تو حمیرہ شاہد نے کہا کہ مکانات بنانے میں بھی جو ریئل سٹیٹ کی سیاست چل رہی ہے جس کے باعث ایک عام فرد کے لیے یہ نہایت مشکل ہو گیا ہے کہ وہ اپنی تین نسلوں میں ایک مکان خرید سکے۔

انھوں نے کہا کہ سود کے بغیر مکانات لے کر آئیں اور اس کے قسطیں کس طرح ادا کی جائیں اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ’یہ یورپ میں ہو رہا ہے یہ انڈیا میں ہو رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی عمران خان کی مہمات میں چندہ دیتے آئے ہیں اور اب بھی وہ پاکستان کو بہتر بنانے کے لیے رقم بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔

’لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومتیں گذشتہ 20 سال سے سوئی ہوئی تھیں اور اوور سیز پاکستانیوں کے لیے نہ تو کوئی پالیسی بنائی، نہ پروگرام، نہ سہولت دی۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر بیرون ملک پاکستانیوں کے حوالے سے پالیسی بنائی جائے اور ان کی جانب سے پاکستان بھیجی جانے والی رقم کو بینکنگ چینلز میں لا سکتے ہیں تو ہفتوں میں بہت بڑی رقم جمع کر سکتے ہیں۔‘

داخلی چیلنجز

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار قطرینہ حسین نے کہا کہ فوج نے جو شدت پسندوں کے خلاف آپریشنز کیے ہیں ان سے فرق پڑا ہے لیکن الیکشن سے قبل حملوں سے یہ بات سامنے آ گئی ہے کہ شدت پسندوں کا صفایا نہیں ہوا ہے۔

’آپریشنز سے فرق پڑا ہے لیکن نئی حکومت کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنا ہو گا۔ نئی حکومت کو ایک بالکل نئے چیلنج کا سامنا کرنا ہو گا۔ داعش اب بلوچستان اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں نظر آ رہی ہے اور پچھلی حکومت کے وزیر داخلہ داعش کی پاکستان میں موجودگی کا انکار کرتے رہے ہیں۔‘

balochistan

ایک سوال کے جواب میں قطرینہ حسین نے کہا کہ پنجاب میں اگر پاکستان تحریک انصاف حکومت بناتی ہے تو وہ منصوبے مکمل کرے گی جو وہ چاپتی ہے۔ ’پاکستان تحریک انصاف کے لیے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ پاکستان کو پیسے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے نئی حکومت کو ڈائریکٹ ٹیکس میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ عمران خان کے لیے بڑا چیلنج متحدہ اپوزیشن ہو گی۔ ’پی ٹی آئی نے دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا ہے لیکن کسی ایسی جماعت کے ساتھ اتحاد نہیں کیا جو ان کے لیے کمزوری ثابت ہو۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ مضبوط حکومت کے لیے ضروری ہے کہ مضبوط اپوزیشن بھی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp