اگر بھٹو صاحب کی بیٹی وزیراعظم بن سکتی ہیں تو میری بیٹی کیوں نہیں؟


اس وقت میں نوجوان تھا اور دوسرے نوجوانوں کی طرح میری بھی خواہش ہوتی تھی کہ میں کوئی انقلابی قسم کا کام کروں، اس لئے میں کافی فعال رہا۔ یوں میں نے وہاں بہت کچھ سیکھا۔ میں نے باچا خان کے بارے میں بھی پڑھا تھا اور جب میں دسویں جماعت میں تھا تو میں نے رحمت شاہ سائل کی انقلابی شاعری کا مطالعہ بھی کیا تھا، اس لئے ان کے زیر اثر میں کالج میں پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن میں چلا گیا۔ وہاں پہ مجھے بڑا دانشور سمجھا جاتا تھا، لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن میں سلوگنز کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا تھا، وہاں سٹڈی سرکل کا کوئی تصور موجود نہیں تھا، اس کے مقابلے میں ڈی ایس ایف ایک علمی تنظیم تھی، اس میں سیاست، معیشت وغیرہ پر علمی انداز میں بحث مباحثہ ہوتا تھا تو اس زمانے میں میں نے پی ایس ایف کے سیکرٹری کو ایک چھوٹے سے عہدے کے لئے درخواست دی، وہ میری درخواست پڑھ کراتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے مجھے پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کا جنرل سیکرٹری بنا دیا۔

پھر میں نے اس عہدے کو بہت انجوائے کیا کیوں کہ میں نے دیکھا کہ لوگ مجھے دل چسپی سے سنتے ہیں، جب آپ بات کرتے ہیں، آپ کے ارد گرد لوگوں کا جمگھٹا ہوتا ہے اور وہ آپ کو دل چسپی سے سنتے ہیں تو اس کا اپنا ایک مزہ ہوتا ہے جس طرح سیاست دانوں میں یہ مزہ بڑھ کر نشہ بن جاتا ہے۔ اس طرح مجھے کالج کی حد تک پاور بھی مل گئی کیوں کہ میں لڑکوں کے مسائل حل کرنے کے سلسلے میں پرنسپل کے آفس میں بلا جھجک داخل ہوتا تھا، یعنی وہ لڑکا جو ایف ایس سی میں اپنی بات نہیں کرسکتا تھا، میری زبان میں لکنت بھی تھی، میں شانگلہ سے نیا نیا بھی آیا تھا، جب کہیں گھومتا پھرتا تھا تو بہت عجیب سا محسوس ہوتا تھا کیوں کہ میں گاؤں سے شہر میں آیا تھا تو وہ بندہ پھر چیف پراکٹر سے بھی بات کرتا تھا، بڑے اعتماد کے ساتھ طلبہ کے مسائل کالج انتظامیہ تک پہنچاتا تھا کیوں میں سمجھتا تھا میرے ساتھ طلبا کی طاقت ہے، اس لئے اس کا مجھے بہت مزہ آتا تھا۔

پھر میں پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کا لیڈر بن گیا۔ اپنی تعریف اچھی نہیں ہوتی لیکن میں بڑا پرامن تھا، تشدد پہ یقین نہیں رکھتا تھا، کیوں کہ میں باچا خان کے عدم تشدد کے نظریے سے متاثر تھا لیکن میری تقریر کی جو صلاحیت تھی، وہ میری بہت مدد کرتی تھی کیوں کہ جب میں کالج کی بالکونی پہ تقریر کرنے جاتا تھا تو اگر مخالف تنظیم کسی دوسری جگہ پہ لوگوں کو اکٹھا کرتی تھی تو سارے اسے چھوڑ کر مجھے سننے کے لئے آتے تھے اور اکثر یہ بھی ہوتا تھا کہ جب میں تقریر کے لئے بالکونی میں چلا جاتا تھا اور بسم اللہ پڑھتا یا رحمت شاہ سائل اور فیض صاحب کا کوئی شعر پڑھتا تو لڑکے میری تقریر سننے کے لئے اپنی کلاسوں کو چھوڑ کر باہر نکل آتے تھے اور شاید میں نے اس طرح ان کی پڑھائی کا کچھ نقصان بھی کیا ہوگا ۔ اس وقت کچھ لڑکے مجھے کہا کرتے تھے کہ جب آپ بات کرتے کرتے ہکلا کر رک جاتے ہیں تو ہم انتظار کرتے ہیں کہ اب آگے آپ کیا کہنے والے ہیں اس سے ہمیں آپ کی بات زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آتی تھی۔ تو اس وقت میرا طلبہ کی سیاست میں ایک اہم رول تھا اور میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ وہ مثبت تھا۔

تنظیم کے سینئر نائب صدر مجھے اکثر کہتے کہ ضیاء الدین بالکونی سے تقریر کرنے کے لئے کچھ ایسے مسئلے بنانے چاہئیں جن پہ آپ بات کرسکیں، میں کہتا یار کہ ہم تو مسائل حل کرنا چاہتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کچھ مسائل پیدا کرکے تقریر کے لئے موقع فراہم کرنا چاہئے تو اس وقت یہ شعور کم از کم میرے اندر موجود تھا۔ چوں کہ میں پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن میں ڈی ایس ایف سے آیا تھا اس لئے میرے پاس سیاست سے متعلق انقلابی سوچ اور طبقاتی جنگ وغیرہ جیسی نظریاتی باتیں ہوتی تھیں، اس لئے طلبہ مجھ سے بہت متاثر ہوتے تھے، میں ان کی نظر میں ایک بڑا عالم فاضل شخص تھا۔ میری سوچ ہمیشہ مثبت ہوتی تھی۔

ایک میٹنگ کے دوران ایک دفعہ ایک لڑکا اٹھا، پھر دوسرا اور اس کے بعد تیسرا اٹھا اور کہنے لگا کہ میں پی ایس ایف کے لئے اتنا کام کرتا ہوں کہ میں نے پچھلے ایک مہینے سے کوئی کلاس نہیں لی، دوسرے نے کہا کہ مجھے کالج سے خارج کردیا گیا ہے، تیسرے نے بھی اس سے ملی جلی بات کی تو میں اٹھا اور کہنے لگا کہ آپ لوگ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن میں ہیں، اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ پہلے سٹوڈنٹ ہوں اور اگر آپ کلاس میں نہیں جا رہے ہیں تو پھر تو آپ سٹوڈنٹ نہیں رہے اور اگر آپ کو کالج سے خارج کردیا گیا ہے تو پھر تو آپ سرے سے سٹوڈنٹ نہیں رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ میں خود کلاس کو کبھی مس نہیں کرتا تھا۔ میں پڑھتا بھی تھا اور سیاست بھی کرتا تھا۔

فضل ربی راہی: بلاشبہ آپ اپنے سکول میں بھی بہترین مقرر سمجھے جاتے تھا اور جیسا کہ آپ نے بتایا کہ جب جہان زیب کالج کی بالکونی سے آپ طلبہ کے مسائل پر تقریر کا آغاز کرتے تو کیا اپنے اور کیا مخالف، سب آپ کی تقریر کے سحر میں گرفتار ہوجاتے۔ اس معاملے میں کس نے آپ کی تربیت کی؟

ضیاء الدین یوسف زئی: اس معاملے میں تین لوگوں نے میری تربیت کی۔ ایک میں نے خود اپنی تربیت کی کیوں کہ قرآن پاک میں بھی ہے کہ جب تک آپ خود اپنی حالت بدلنا نہیں چاہتے تو آپ کی حالت کبھی نہیں بدل سکتی، تو ایک میرا اپنا عزم تھا کہ میں تبدیل ہونا چاہتا تھا کیوں کہ میں جس گھر میں پلا بڑھا اس میں میرے والد کی موجودگی میں ایک مقرر پہلے سے موجود تھے۔ میرے والد خطیب تھے، وہ ہر جمعہ کو مسجد میں تقریر کرتے تھے، لوگ ان کی تقریر سننے کے لئے دور دراز سے آتے تھے۔ وہ ان کے سامنے ٹیپ ریکارڈ رکھ کر ان کی تقریر ریکارڈ کرتے تھے اور پھر اپنے گاؤں جا کر اسے سنتے تھے۔ یوں وہ ایک خطیب کے طور پر مشہور تھے اور یہ ان کی پہچان تھی اور جب وہ پگڑی باندھ کر جبہ پہنتے اور بڑی شان سے منبر پر بیٹھ کر پورے جوش و جذبے سے تقریر کرتے تو میں بڑا متاثر ہوتا تھا۔

Malala Yousafzai (2nd R), is introduced before her first speech since the Taliban in Pakistan tried to kill her for advocating education for girls, at the United Nations Headquarters in New York, July 12, 2013.

وہ اپنی تقریر میں اصل موضوع سے ہٹ بھی جاتے تھے اور ان کی یہ عادت کچھ مجھ میں بھی ہے لیکن ملالہ ٹو دی پوائنٹ ہوتی ہے، وہ نہایت شائستہ اور نفیس طریقےسے اپنی بات کرتی ہے۔ تو یہ فن اپنے والد سے مجھے اور مجھ سے ملالہ میں منتقل ہوا ہے۔ پھر جب آ ٓپ کو تقریر کرنے کا شوق بھی ہو اور اس کے ساتھ زبان میں لکنت کا مسئلہ بھی ہو تو یہ آپ کے لئے ایک چیلنج بن جاتا ہے کہ آپ اپنی لکنت پہ کیسے قابو پائیں گے۔ مجھے اس سے بڑی تکلیف بھی ہوتی تھی کیوں کہ جب میں گھر سے باہر جاتا تھا تو لڑکے میری نقل اتارتے تھے، میرے کزنز بھی میری نقل اتار کر مذاق اڑاتے تھے۔ اس وقت میرے پاس دو راستے تھے ، ایک یہ کہ میں خاموش رہتا، بھیگی بلی بن کر ایک کونے میں بیٹھ جاتا تاکہ لوگ میرا مذاق نہ اڑائیں اور دوسرا راستہ یہ تھا کہ میں ایک صحت مند زندگی گزارنے کی کوشش کرتا کہ میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح انسان ہوں۔ لکنت میں میرا اپنا کوئی کردار نہیں ہے، یہ کوئی غلطی نہیں ہے جو مجھ سے سرزد ہوئی ہے، یہ ایک پیدائشی خامی ہے، اس لئے میں نے سوچا کہ میں نے بولنا ہے۔ اس لئے جب بھی کوئی موقع ملتا، میری خواہش ہوتی کہ میں بولوں۔ میں نظمیں پڑھتا تھا، اقبال کی شاعری تحت اللفظ بولتا تھا، مسجد میں بھی بعض موقعوں پر بولتا تھا، تو مجھے ہمت اور حوصلہ اپنے والد سے ملا ہے۔ یہ ساری چیزیں میں خود کرتا تھا کیوں کہ میری خواہش تھی کہ میں تقریر کروں۔ میرے والد جو میرے لئے تقریر لکھتے تھے، وہ مجھے ہر جگہ لے جاتے تھے کیوں کہ جب میں تقریر کرتا تو ان کو بھی مزہ آتا تھا، انھیں معلوم ہوچکا تھا کہ مجھ میں یہ صلاحیت ہے۔

برہ بانڈئی (سوات) کے فضل ہادی صاحب ہمارے ہیڈ ماسٹر تھے، وہ بڑے مشفق انسان تھے، اگر وہ اس وقت شاہ پور ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر نہ ہوتے تو میں مقرر نہ بنتا کیوں کہ جہاں کہیں سکولوں کے مابین تقریری مقابلہ منعقد ہوتا، وہ کوئی موقع ضائع نہیں کرتے، وہ میرے والد صاحب کو آنے جانے کی رقم دے دیتے کہ اسے مینگورہ لے جاؤ اور اسے سکول کی طرف سے تقریری مقابلے میں شریک کرا دو۔ آٹھویں جماعت میں میں پورے سوات کے تقریری مقابلوں میں دوسرے نمبر پہ آیا تھا اور نویں اور دسویں جماعت میں پہلے نمبر پہ آیا تھا۔ اس سے میرا بڑا حوصلہ بڑھ جاتا۔ پھر پہلی تقریر کے بعد میرے ایک محترم استاد احمد خان صاحب نے آکر میرے کان میں کہا کہ ’’ضیاء الدین تم نے تو پوری محفل میں آگ بھڑکا دی‘‘۔ ان کے الفاظ  نے مجھے بہت حوصلہ دیا تھا۔ تو میں نے خود، میرے والداور میرے اساتذہ نے میری مدد کی کہ میں اپنی لکنت پہ قابو پاسکوں اور ایک نارمل زندگی گزار سکوں۔ اتنی تفصیل سے بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی بچے یا بچی کو لکنت ہے تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، آپ اس پہ بالکل پریشان نہ ہوں، اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے، اور آپ اس کو اپنی طاقت میں تبدیل کرسکتے ہیں بشرط یہ کہ آپ میں ہمت ہو اور آپ بولیں، ہکلاہٹ کے ساتھ مگر خوب صورت ہکلاہٹ کے ساتھ، بقول معروف امریکی ادارہ ایملی بلنٹ I stutter but I stutter so well.

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3