اگر بھٹو صاحب کی بیٹی وزیراعظم بن سکتی ہیں تو میری بیٹی کیوں نہیں؟


فضل ربی راہی: آپ اردو، پشتو اور انگریزی تینوں زبانوں میں عمدہ تقریر کرلیتے ہیں۔ قدرت نے آپ کو خاصی فیاضی سے یہ صلاحیت دے رکھی ہے۔ ایک اچھے مقرر بننے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟

ضیاء الدین یوسف زئی: ایک اچھے مقرر کے لئے سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ سچ بولیں کیوں کہ بندہ جب جھوٹ بولتا ہے، (اگرچہ کچھ لوگ جھوٹ بھی بڑی فصاحت و بلاغت سے بول لیتے ہیں)، تو اس میں وہ اعتماد اور اثر نہیں ہوتا، لیکن بندہ سچ بولیں اور وہ اس اعتماد سے بولیں کہ وہ جو کچھ بول رہا ہے وہ اس پہ خود بھی یقین کرتا ہے اور باقی جو ہے میرے خیال میں یہ ایک ایسی صلاحیت ہےجو مسلسل مشق سے پیدا ہوجاتی ہے۔ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو دو لفظ تک نہیں بول سکتے تھے، جب میں پرائیویٹ سکول منیجمنٹ ایسوسی ایشن کا صدر تھا تو میں کوشش کرتا تھا کہ میری تنظیم میں اور بھی مقررین ہوں، میں نے چند دوستوں کی ایسی تربیت کی تھی کیوں کہ وہ مجھے کہتے تھے کہ آپ اچھی تقریر کرلیتے ہیں تو ہماری بھی مشق کرائیں ، ہمیں بھی تھوڑی سی ٹِپ دیں، پھر وہ بڑے اچھے سپیکر بن گئے۔ تو یہ ہے کہ اس کو سیکھا جاسکتا ہے بشرط یہ کہ آپ مقرربننے کا عزم کریں۔

فضل ربی راہی: تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی کا آغاز کہاں اور کس حیثیت سے کیا؟

ضیاء الدین یوسف زئی: میں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز سوات پبلک سکول سے کیا۔ یہ بہت دل چسپ کہانی ہے، میرے ایک قریبی دوست نعیم خان جو اس وقت گومل یونی ورسٹی میں ایم اے انگریزی کر رہے تھے اور میں بنوں میں، تعلیم مکمل کرکے جب ہم سوات واپس آئے تو ہمارا ارادہ تھا کہ شانگلہ میں مشترکہ طور پر ایک پبلک سکول کھولیں گے۔ اس سلسلے میں جب ہم شانگلہ گئے تو وہاں ہم نے شاہ پور میں پہلے سے ایک پبلک سکول کے بینرز دیکھے جس کے بعد ہم نے اپنا ارادہ ملتوی کردیا کیوں کہ ہمارے خیال میں یہ مناسب نہیں تھا کہ وہاں دوسرا سکول کھول لیا جائے۔ پھر میں نے اس سکول کو مقامی طور پر سپورٹ کیا اور ہم نے مینگورہ میں آکر خوشحال پبلک سکول کھول دیا لیکن سکول کا آئیڈیا تو ہمیں بعد میں آیا تھا، اس سے پہلے ہم دونوں نے سوات پبلک سکول میں بحیثیت استاد اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔ اس کے پرنسپل منور شاہ صاحب تھے۔

ان کا ذکر میں بطور خاص اس لئے کرنا چاہتا ہوں کہ وہ سوات اور ملاکنڈ ڈویژن میں نجی تعلیم کے بانی ہیں، ان کے ساتھ کام کرکے آپ اتنا ضرور متاثر ہوتے ہیں کہ آپ میں بھی اپنے ذاتی سکول کھولنے کی خواہش پیدا ہو۔ ان کا کمال یہ تھا کہ انھوں نے اس پیشے کو بہت عزت دی۔ ان کا اپنا ایک رکھ رکھاؤ تھا، وہ کسی کمشنر کی طرح لوگوں سے ملتے تھے، ان سے ملنے کے لئے پہلے سے وقت لینا پڑتا تھا، اس پہ ہمیں اس وقت غصہ بھی آتا تھا کیوں کہ ہم تو سیاسی سوچ کے حامل لوگ تھے اور چاہتے تھے کہ ہر شخص سے ہر وقت مل سکیں لیکن ان کے اس ڈسپلن میں ایک وزن تھا، انھوں نے اپنے آپ کو ایک تاجر کی حیثیت سے پیش نہیں کیا تھا بلکہ اس شعبے کو ایک توقیر دی تھی، ایک ماہر تعلیم اور بحیثیت سکول پرنسپل لوگ جب ان کے پاس آتے تھے تو انھیں بڑی خوشی ہوتی تھی۔ ہمارا بھی دل چاہتا تھا کہ ہم بھی سکول کے پرنسپل ہوں، ایک پورا سٹاف ہماری نگرانی میں کام کرے، ان کی طرح معاشرے میں عزت ہو۔

تعلیم کا شعبہ بذاتِ خود ایک قابل احترام شعبہ ہے اور ویسے بھی میں ایک استاد کا بیٹا تھا، میرے اندر تو استاد پہلے سے موجود تھا، اور اب بھی ہے تو ایس پی ایس میں میں نے قریباً ایک سال گزارا، مجھے یاد ہے میں 6 جنوری 1993ء میں وہاں گیا تھا اور 6 جنوری 1994ء کو میں نے وہاں کام چھوڑ کر اپنے سکول کا آغاز کیا تھا۔ تو ایس پی ایس وہ پہلا ادارہ تھا جہاں میں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا، میں نے وہ وقت بہت اچھے طریقے سے گزارا تھا۔ شاہ صاحب کو مجھ سے شکایتیں بھی ہوتی تھیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اپنی دوسری سرگرمیوں کی وجہ سے کبھی کبھار غیر حاضر رہتا تھا کیوں کہ میں سوشلی بہت فعال تھا لیکن اس کے باوجود وہ میرا بہت خیال رکھتے تھے کیوں کہ جب میں وہاں سے ملازمت چھوڑ رہا تھا تو انھوں نے مجھے روکنے کی کوشش کی تھی، تاہم میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے، ایک استاد اور ایک منتظم کی حیثیت سے، اگرچہ میں ان کی طرح اپنا سکول نہیں چلا سکا لیکن وہاں کام کرنے کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ میں نے اپنا سکول کھولا۔ اس میں میرے دوست نعیم صاحب کا بھی بڑا رول تھا کیوں کہ ان کی بھی خواہش تھی کہ ہمارا اپنا سکول ہو، پھر سارا بندوبست بھی انھوں نے کیا تھا۔

فضل ربی راہی: ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کا قیام آپ کا ایک خواب تھا۔ کیا خوشحال پبلک سکول کی صورت میں یہ خواب عملی شکل اختیار کرگیا تھا؟ یا اب بھی وہی خواب تشنہ تکمیل ہے؟

ضیاء الدین یوسف زئی: کوالٹی کی جب ہم بات کرتے ہیں تو میں یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ خوشحال پبلک سکول ایک مثالی ادارہ تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے لئے ایک ایسا بندہ ہونا چاہئے تھا جو ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ماہر معاشیات بھی ہو، میں سکول کے بزنس کو نہیں بنا سکا تھا، یعنی میں سکول کی معیشت کو ایسا نہیں بنا سکا تھا جو ایک اچھا ماہر معاشیات کرسکتا ہو کہ اس کی اپنی زمین ہو، اپنی بہترین عمارت ہو، ہاں اتنا ضرور تھا کہ میں نے کوئی حرص، لالچ نہیں کی، میرے پاس جتنے اضافی پیسے آتے، اس سے میں اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ کرتا ۔ میں نے 150 کے قریب بچوں کو مفت تعلیم دی۔ اس وقت میرا سکول دو ناموں سے مشہور تھا، ایک اس کو لوگ طالبان (عسکریت پسند طالبان نہیں) کا سکول کہتے تھے کیوں کہ مسجدوں کے جو طالب علم ہوتے تھے، وہ میرے سکول میں پڑھتے تھے، میں نے ان کو یونی فارم سے بھی مستثنا کیا تھا، کیوں کہ وہ ان کی تعلیم کے آڑے آتی تھی، وہ مسجد سے پینٹ شرٹ میں نہیں آسکتے تھے۔ اس کو لوگ افغانوں کا سکول بھی کہتے تھے، کیوں کہ وہاں زیادہ تر افغانستان سے تعلق رکھنے والے پشتون اور فارسی بان افغان بچے پڑھتے تھے۔

وہ سو، ایک سو پچاس روپے مہینے کے آخر میں آکر کہتے کہ استاد جی تنخواہ لیں اپنا، وہ اس کو فیس بھی نہیں کہتے تھے، تو میرے سکول میں بزنس کی بجائے ایک مشنری جذبہ غالب تھا، اس لئے میں اس کو انفراسٹرکچر کے لحاظ سے اتنا آگے نہیں لے جاسکا تھالیکن اٹھارہ سال تک اس سکول کو چلانے کے دوران میرے سکول کی جو خصوصیت بن گئی تھی، وہ یہ تھی کہ میرے سکول کے بچوں اور بچیوں میں دیگر تعلیمی اداروں کے مقابلے میں بہت اعتماد ہوتا تھا، وہ ہم نصابی سرگرمیوں میں بہت آگے ہوتے تھے۔ میرا سکول بڑا نہیں تھا لیکن ایک دفعہ تعلیمی بورڈ نے مقابلے منعقد کئے تھے اور بائیس میں سے میرے خیال میں پندرہ مقابلوں میں خوشحال سکول نے پہلی اور دوسری پوزیشنیں حاصل کی تھیں۔ پھر شاہ صاحب نے مجھےمبارک باد کا ایک خط لکھا تھا جو میرے لئے ایک بڑی بات تھی۔

یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ لوگ تو صرف ملالہ کو دیکھتے ہیں لیکن جب آپ خوشحال پبلک سکول کے دوسرے لڑکوں اور لڑکیوں سے ملتے تھے تو یہ ان کی ایک نمایاں خصوصیت ہوتی تھی کہ وہ بولتے کمال کے تھے اور وہ لکھتے بھی کمال کے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں خود ان چیزوں کو بہت اہمیت دیتا تھا ۔ میں جب بھی کلاس میں جاتا تو میں بڑے پر زور طریقے سے بچیوں سے کہتا تھا کہ دیکھئے میری لکنت ہے اور میں بولتا ہوں اورخدا نے تمھیں کتنی رواں زبان دی ہے تم پھر بھی نہیں بولتیں، بولو بولو شاباش۔ میں ان کی حوصلہ افزائی کرتا کہ وہ بولیں، اس وجہ سے میں فخر سے کہ سکتا ہوں کہ میرے سکول کے بچوں میں ایک اعتماد ہوتا تھا اور وہ اعتماد اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ شاید اسلام آباد کے کسی اچھے سکول میں بچوں میں اتنا اعتما ہوگا جتنا میرے سکول کے بچوں میں ہوتا تھا۔

میں ان سے ہر بات ڈسکس کرتا تھا، میں والدین کو بھی بلاتا تھا، یہاں تک میں نے سکول میں ایسے ورکشاپ بھی کئے جس میں ہم بچوں کو سکھاتے تھے کہ ان کا معاشرے میں رویہ کیسا ہونا چاہئے۔ ان کے والدین سے میں ان کی جسمانی صحت اور جنس کے بارے میں بھی گفت گو کرتا تھا تاکہ بچے اور بچیاں ہر لحاظ سے صحت مند رہیں۔ میرا سکول اس لحاظ سے بھی بہت منفرد تھا کہ اس میں لیبرٹی زیادہ تھی، ڈسپلن اس میں کم تھا اور وہ ایک روایتی سکول نہیں تھا۔ میں اپنے اساتذہ سے اکثر یہ کہتا تھا کہ آپ بچوں کو کتنا پڑھاتے ہیں، کورس کتنا ختم کرتے ہیں، یہ اتنا اہم نہیں لیکن اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ سکول کاماحول ایسا ہو جس میں بچے یہاں آکر خوشی محسوس کریں، بچوں کی خوشی ہماری بڑی ترجیح تھی تاکہ وہ ہر خوف اور دباؤ سے آزاد ہوں۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3