ہر گھر میں ایک بے نظیر اور ملالہ ہے، ان پر اعتماد کرنا سیکھیں: ضیاء الدین یوسف زئی


فضل ربی راہی: سوات کے لوگوں کا بڑا شکوہ یہ ہے کہ ملالہ کو سوات کے حوالے سے شہرت ملی لیکن آپ لوگوں نے تعلیم کے سلسلے میں پہلا قدم شانگلہ میں اٹھایا۔ سوات اور پاکستان کے دیگر پس ماندہ علاقوں کے لئے ملالہ فنڈ کے ذریعے کیا کوئی منصوبہ زیر غور ہے؟

ضیاء الدین یوسف زئی: میرے خیال میں یہ بات عملی طور پر ٹھیک بھی ہے اور تھوڑی سی مشکل بھی ،کیوں کہ جب ہم نے اپنے علاقے میں ایک بڑے تعلیمی پراجیکٹ کا عندیہ ظاہر کیا تو مجھ سے سوات کے کچھ لوگوں نے رابطہ کیا کہ آپ سب سے پہلے شانگلہ میں سکول بنائیں، کیوں کہ شانگلہ میں لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ ویسے کئی پراجیکٹ تو اب بھی مینگورہ میں ہیں، جن میں پانچ سال پہلے ہم نے ڈومیسٹک چائلڈ لیبر میں پھنسے بچوں کو گھریلو مشقت سے نکال کر انھیں سکول میں داخل کرایا تھا، ان کے والدین کو کچھ ماہانہ رقم بھی ملتی ہے، تو چالیس بچوں کا ایک یہ پراجیکٹ ہے۔

اس کے علاوہ سوات کے ایک مشہور رفاہی تعلیمی ادارے کو ہم نے چودہ ملین روپے گفٹ کیے ہیں، اس طرح مینگورہ میں کئی دوسرے پراجیکٹس بھی موجود ہیں لیکن ہمارا ارادہ ہے کہ ہم سوات میں بہت کام کریں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ملالہ کی جو شناخت اور پہچان ہے وہ سوات ہے، جب اس کا نام لیا جاتا ہے تو لوگوں کے ذہنوں میں سوات آجاتا ہے اور جب سوات کا نام لیا جاتا ہے تو لوگوں کے ذہنوں میں ملالہ آتی ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ سوات کے جو انصاف پسند لوگ ہیں وہ شانگلہ کے پراجیکٹ پر خوش ہوں گے اور ہمیں یہ خیال نہیں رکھنا چاہئے کہ ملالہ سوات سے ہے تو سارا کام سوات میں ہونا چاہئے۔ میں نے ایک انٹرویو میں کسی سے کہا تھا کہ اگر والئی سوات شاہ پور ہائی سکول نہ بناتے تو ضیاء الدین آج نہ ہوتا، ملالہ آج نہ ہوتی، کیوں کہ اپنی زندگی میں ایک ٹیچر اور سوات میں سول سوسائٹی کے ممبر کی حیثیت سے یا ملالہ پہ حملے کے وقت تک مجھے سوشل ایکٹویزم اورا یجوکیشن ایکٹویسٹ کا جو کردار ملا ہے، وہ مجھے میری تعلیم نے دیا تھا۔ میرے اور بھی رشتے دار تھے وہ ان سہولتوں سے فائدہ نہ اٹھا سکے لیکن اگر تعلیم کی سہولت میرے گاؤں میں نہ ہوتی تومیرا نہیں خیال کہ میں مینگورہ پڑھنے کے لئے جاتا کیوں کہ میرے والد نہ جا سکے تھے، انھوں نے مدرسے کا انتخاب اس لئے کیا تھا کہ وہ شانگلہ کے چند گنے چنے صاحب ثروت لوگوں کی طرح سوات آکر ودودیہ ہائی سکول میں نہیں پڑھ سکتے تھے، اس لئے انھوں نے مذہبی تعلیم کے لئے مسجدوں کا رخ کیا، یہ سارے مسئلے بڑے معاشی ہیں۔

مجھ پر شانگلہ کی مٹی کے بڑے احسانات ہیں، میں اگر پرائمری سکول نہ جاتا، شاہ پور سکول نہ جاتا تو میں آج موجودہ پوزیشن میں نہ ہوتا۔ شہزاد رائے جو ہمارے بڑے قریبی دوست اور ممتاز ماہر تعلیم ہیں،انھوں نے ایک دن مجھ سے کہا تھا کہ آپ نے شانگلہ کے لئے بہت بڑا کام کیا ہے، آپ کو نہیں پتا کہ لوگ کتنے خوش ہیں، میں نے ان سے کہا کہ دیکھئے میں کوئی خلا سے نہیں اترا ہوں ، میں اسی مٹی کا بیٹا ہوں، جب میں شاہ پور کے سکول سے برکانا جاتا تھا، وہاں چنار کا ایک درخت تھا جس کے نیچے سکول کا بستہ رکھ کر میں دھوپ سے بچنے کے لئے سستانے بیٹھ جاتا تھا، اگر میں ایسے کئی سکول بناؤں تو میں اس چنار کے سائے کا بھی قرض نہیں چکا سکتا۔ میں شانگلہ اور سوات کے لئے جتنا بھی کام کروں کم ہے۔

فضل ربی راہی: گل مکئی نیٹ ورک کی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ بتائیں۔ اس کے تحت اب تک کوئی پراجیکٹ شروع ہوا ہے؟

ضیاء الدین یوسف زئی: گل مکئی نیٹ ورک در اصل ایڈوکیسی کے لئے ایک نیٹ ورک ہے، یعنی یہ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے وکالت کرتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں ایک سو تیس ملین بچیاں سکول نہیں جا سکتیں، یہ تعداد قریباً یو کے کی کل آبادی کی دگنی تعداد سے بھی زیادہ ہے، ملالہ فنڈ کے لئے ممکن نہیں کہ اتنے سارے بچوں کے لئے تعلیمی ادارے بنائے۔ اس لئے گل مکئی نیٹ ورک کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ حکومتوں، سول سوسائٹی اور ڈونرز کو ترغیب دے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم پہ زیادہ خرچ کریں، تعلیمی بجٹ میں اضافہ کریں، یہی ہمارا رول ہے۔

آپ نے سنا ہوگا کہ کینیڈا کی حکومت نے ملالہ کی ایڈوکیسی کی وجہ سے تعلیم کے لئے اتنے ملین ڈالرز مختص کئے، اب وہ پیسے ملالہ فنڈ کو نہیں ملتے، وہ پیسے گلوبل پارٹنرشپ فار ایجوکیشن، یو این یا بین الاقوامی طور پر تعلیم کے فروغ کے لئے کام کرنے والی مختلف تنظیموں کو ملتے ہیں۔ اگر ملالہ فرانس کے صدر، جرمن کے چانسلر، کینیڈا یا نیدر لینڈ کے وزیر اعظم سے ملتی ہے تو وہ ان کو یہی کہتی ہے کہ دیکھئے آپ تعلیم کو پیسے دیں، آپ تعلیم کے مد میں اینویسٹمنٹ کریں، تو خدا کا فضل ہے کہ اس کی بات سنی جاتی ہے، لوگ اس کی عزت کرتے ہیں۔ میں کوئی بڑی بات نہیں کہنا چاہتا لیکن ملالہ کی ایکٹویزم سے لڑکیوں کی تعلیم کو ایک توانا آواز ملی ہے اور اس کو جو زبردست قسم کی وکالت ملی ہے، میرا خیال ہے اس کا اعتراف کیا جاتا ہے۔

ہم پچھلے سال ستمبرمیں جب یو این کی جنرل اسمبلی کی میٹنگ میں شریک تھے تو ملالہ کی میٹنگ فرانس کے صدر میکرون اور ان کی اہلیہ کے ساتھ بھی تھی،ا ن کی اہلیہ سکول میں استاد رہ چکی ہیں، ان کی لڑکیوں کی تعلیم میں بڑی دل چسپی تھی، دونوں میاں بیوی ملالہ کے ساتھ گفت گو میں اتنے منہمک تھے کہ جاپان کے وزیرا عظم جنہیں فرانس کے صدر سے ملاقات طے تھی، انھوں نے باہر دس منٹ تک انتظار کیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ملالہ کی تعلیم کے حوالے سے بات اتنے غور سے سن رہے تھے کہ وہ اپنی اگلی ملاقات جو ان کی ایک اہم ملک کے اہم وزیرا عظم کے ساتھ طے تھی، اس کے لئے انھوں نے دس منٹ کی تاخیر گوارا کی۔

گل مکئی نیٹ ورک کے تحت تعلیمی وکالت کے لئے ہم نے سات ممالک سے اپنے چیمپئن لئے ہیں اور وہ چیمپئن لوکل ایجوکیشن ایکٹویسٹ ہیں، ان میں کچھ آن گراؤنڈ پراجیکٹ کرتے ہیں اور کچھ ایڈوکیسی کرتے ہیں، کچھ ایف ایم ریڈیو پہ ایسے پروگرام کرتے ہیں جن کے ذریعےوہ لڑکیوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور کچھ ٹریننگ کے پروگرام کرتے ہیں کہ اگر کسی علاقے مثلاً افغانستان کے کسی علاقے میں سکول ہیں لیکن وہاں استانیاں نہیں ہیں تو کچھ ایسے پراجیکٹس بھی ہیں جن میں لڑکیوں کو ٹیچنگ کی ٹریننگ دی جاتی ہے، پھر ان کوسکولوں میں جاب بھی ملتی ہے تو ہمارے پیش نظر کچھ ایسے پراجیکٹس بھی ہیں لیکن فی الحال ہمارے چیمپئن کی تعداد چھبیس ہے، اور ان میں سب سے زیادہ یعنی سات پاکستان سے ہیں، تین افغانستان، تین بھارت، تین نائجیریا اور کچھ برازیل سے ہیں اور اس کے علاوہ شام کے پناہ گزینوں کے لئے ترکی اور لبنان میں بھی ہمارے گل مکئی کے چیمپئن موجود ہیں۔ ان کی تعدا د ہم بتدریج بڑھانا چاہتے ہیں۔

فضل ربی راہی: اس وقت ملالہ کی تین کتابیں مارکیٹ میں موجود ہیں I am Malala کے نام سے دوکتابیں جن میں ایک عام پڑھنے والوں اور ایک نوجوانوں کے لئے ہے۔ ان کی تیسری کتاب Mala’s Magic Pencil کے نام سے بچوں کے لئے ہے جو خاصی مقبول ہو رہی ہے۔ کیا ملالہ مزید کسی کتاب پر کام کر رہی ہیں؟

ضیاء الدین یوسف زئی: آج کل یہ ساری کتابیں I am Malala جو Adult version ہے، جس کے اردو ترجمہ میں آپ کا بہت رول ہے، ینگ ریڈرز کے لئے دوسری کتاب ہے (جس کا اردو ترجمہ راقم نے کیا ہے) اور ملالہ کی تیسری کتاب Mala’s Magic Pencil ہے جو پیکچر بک ہے یعنی اس کی زندگی کی تصویری کہانی ہے، وہ بہت مشہور ہے۔ بہت سے ملکوں سے لوگوں ہمیں اس کی ویڈیوز بھیجتے ہیں، بچے اس کے ساتھ اپنی تصویریں کھینچ کر ہمیں ارسال کرتے ہیں کہ یہ کتاب ہمیں بہت پسند ہے، فی الحال وہ جس نئی کتاب پہ کام کر رہی ہے، اس کا نام ہے We Are Displaced یعنی ہم بے گھر ہوگئے ہیں، اس میں اس کی اپنی کہانی بھی شامل ہے جب ہم آئی ڈی پیز بنے تھے اور پھر وہ دنیا بھر میں جہاں جہاں گئی ہے وہاں سے اسی طرح کی کہانیاں لے کے کتاب میں شامل کی گئی ہیں، جس طرح ہم کردستان، کینیا، روانڈا، نائجیریا اورسیرین ریجن جورڈن اور لبنان گئے ہیں تو ان ممالک میں جو پناہ گزین لڑکیاں ہیں، اور ان کی جو پاور فل سٹوریز ہیں، وہ بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔ اس لئے اس کتاب کا نام بھی We Are Displaced رکھا گیا ہے۔ اس کتاب کی رائلٹی کی ساری رقم ملالہ فنڈ کو جائے گی۔

تو یہ ملالہ فنڈ کے لئے اس کی ایک فنانشل کنٹری بیوشن بھی ہے، پناہ گزیں لڑکیوں کی تعلیم کے جو مسائل ہیں، ان کو اجاگر کرنا بھی اس کتاب کا مقصد ہے لیکن ساتھ ساتھ ان کی آواز، استقامت اور ان کے حوصلے کو تقویت پہنچانا بھی مقصد ہے کہ یہ لڑکیاں اگرچہ بہت مشکل حالات کا سامنا کر رہی ہیں لیکن ان کےعزم کی وجہ سے اگر ہم ان کو تعلیم کی سہولت دیں تو یہ جنریشن لاسٹ نہیں ہوگی بلکہ جب امن قائم ہوگا اور حالات معمول پر آجائیں گے تو یہ اپنی قوم اور ممالک کے لئے بڑا اثاثہ ہوں گی۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3