آج دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے سب سے توانا آواز ملالہ کی ہے: ضیاء الدین یوسف زئی


ملالہ یوسف زئی کے والد، ماہر تعلیم، سماجی کارکن اور دانش ور ضیاء الدین یوسف زئی سے خصوصی انٹرویو (حصہ سوم)

فضل ربی راہی: Let Her Fly کے نام سے آپ کی پہلی انگریزی کتاب زیر طبع ہے۔ یہ کس موضوع پر ہے اور یہ کتاب کب تک شائع ہوسکے گی؟

ضیاء الدین یوسف زئی: یہ میری دوسری بلکہ تیسری کتاب ہے ، میری پہلی کتاب پشتو شاعری کی ہے، دوسری ایک چھوٹا سا کتابچہ تھا۔ میری یہ کتاب Let Her Fly جس کا اردو ترجمہ پرواز کرنے دو! ہوسکتا ہے۔ یہ دراصل میری زندگی کی کہانی ہے، ایک بیٹے کی حیثیت سے، پانچ بہنوں کے بھائی کی حیثیت سے، دو بیٹوں کے باپ کی حیثیت سے، ایک بیٹی کے باپ کی حیثیت سے اور ایک بیوی کے شوہر کی حیثیت سے۔

میری زندگی مختلف ادوار اور حالات کی وجہ سے جس طرح ٹرانسفارم ہوئی ہے اور جس طرح کا اب میں انسان ہوں، جس طرح مختلف محرکات کی وجہ سے میری تربیت ہوئی، اس میں ان حالات کی پوری کہانی ہے، جس میں بہت سے لوگوں کے لئے ایک ایسا موثر پیغام موجود ہے جس سے ان کو بہت حوصلہ مل سکتا ہے۔ یہ دراصل ایک مسیج اورینٹڈ سٹوری ہے۔ میں نے پدرانہ نظام کے خلاف ایک جنگ لڑی ہے لیکن میں نے اس کا کوئی جھنڈا نہیں اٹھایا تھا کہ میں پدرانہ نظام کے خلاف ہوں لیکن اپنی بیٹی پر اعتماد کرنا، اپنی بیوی تورپیکئی جس کو آپ بھی جانتے ہیں، وہ آپ سے بھی ملتی رہی ہے، بات بھی کرتی رہی ہے، اس پہ اعتماد کرنا، ایک طرح سے میرا پدرانہ معاشرے کے خلاف خاموش لیکن کھلی بغاوت تھی۔

جب میں سوات میں ہوتا تھا تو میرے کئی دوستوں کی بیویوں کا مجھے نہ نام کا پتا ہوتا تھا اور نہ میں نے کبھی ان کو دیکھا تھا، لیکن تورپیکئی کو یہ آزادی میں نے وہاں بھی دی تھی، وہ فون پہ بات بھی کرتی تھی اور ضرورت ہوتی تو مل بھی لیتی تھی۔ میں ایک مختلف انسان تھا، یہ تبدیلی آسانی سے نہیں آتی کیوں کہ جب آپ کسی بھی سٹیٹس کو یا کسی سوشل ٹیبو کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں، تو جو سب سے پہلا آدمی مخالفت میں آپ کے سامنے آتا ہے، وہ آپ خود ہوتے ہیں کیوں کہ ایک پرانا ضیاء الدین ہوتا ہے اور ایک نیا ضیاء الدین ہوتا ہے، پرانے ضیاء الدین کے لئے یہ بڑا آسان ہوگا کہ وہ دوسرے شوہروں کی طرح، دوسرے باپوں کی طرح کنٹرول رکھے، بیٹی کو ٹیلی فون کی طرف نہ جانے دے، اس کو کہے کہ جب باہر نکلنا ہے تو پورا پردہ کرکے کسی مرد رشتےدار کے ساتھ نکلنا ہے، میں اس طرح نہیں تھا۔

لوگ اس وقت شاید اب بھی مجھے بزدل سمجھتے ہیں لیکن میں اس کو بہادری سمجھتا ہوں۔ بزدلی یا بہادری کا جو سفر ہے، لوگ مجھے کچھ بھی کہیں میں اس کی پروا نہیں کرتا۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ میری بہت عزت کرتے ہیں لیکن مجھے بعض لوگوں کی طرف سے عجیب و غریب قسم کے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، وہ مجھے اکثر یہ لکھتے ہیں کہ آپ بیٹی کا مال یا اس کی کمائی کھاتے ہیں، آپ بڑے بزدل ہیں تو میں نے ایک شخص کو جواباً لکھا کہ اگر بیٹے کی کمائی کھانا قابل فخر ہے تو بیٹی کی کمائی کھانے میں کیا ممانعت ہے؟ اتنے ہم پدرانہ معاشرے کے عادی ہوچکے ہیں کہ اگر آپ کا بیٹا کماتا ہے تو آپ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ میرے بیٹے نے سعودی عرب سے دس ہزار ریال بھیجے ہیں، بے چارا اپنے ملک میں بھی نہیں ہوتا، اس نے دبئی سے میرے لئے کمبل بھیجا ہے، میرے لئے اتنے پیسے بھیجے ہیں اور اگر آپ کی بیٹی کسی سکول میں جاب کرتی ہے، یا ڈاکٹر اور نرس ہے، اس کی کمائی پہ آپ کو شرم محسوس ہوتی ہے، حالاں کہ اس رویے پہ معاشرے کو شرمسار ہونا چاہئے۔ وہ اگر نرس ہے اور اس کو کسی ہسپتال میں ایک باعزت جاب ملی ہے، وہ محنت کرتی ہے اور اپنی تنخواہ میں سے بیس ہزار روپے آپ کے گھر میں لاتی ہے تویہ اَمر قابل فخر ہے یا اس پہ آپ کو شرمندہ ہونا چاہئے؟ یا معاشرے میں وہ لوگ جو اپنے گاؤں میں اس بندے کو بری نظر سے دیکھیں کہ اس کی بیٹی جاب کرتی ہے اور یہ اس کی کمائی کھاتا ہے، ان لوگوں کی ذہنیت پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔اصل میں تو اس بیٹے کے لئے کچھ کرنا چاہئے جو روزگار کے سلسلے میں ملک سے باہر ہے۔

اس کتاب میں میری زندگی سے متعلق اس طرح کے واقعات اور خیالات کا ذکر ہے۔ یہ کہانی میرے خیال میں لوگوں کے لئے دل چسپ ہوگی کیوں کہ یہ کتاب انگریزی کے ساتھ چھ سات دوسری زبانوں میں بھی شائع ہو رہی ہے، اس کا مصنف میں ہوں اور اس کو لکھنے والی لوئس کارپنٹر نامی ایک خاتون رائٹر ہیں۔ انشاء اللہ یہ کتاب چار نومبر کو مارکیٹ میں آجائے گی۔ اگر لوگ اس کتاب کو پڑھیں گے تو مجھے امید ہے کہ ہمارے معاشرے خصوصاً مردوں میں اس کی جومثبت تبدیلی آنی چاہئے، وہ ہماری اجتماعی خوشحالی کے لئے بہت ضروری ہے۔ میں ترقی کی بجائے خوشحالی کالفظ اس لئے استعمال کر رہا ہوں کہ لوگ پھر یہ کہیں گے کہ ہم وہ ترقی نہیں چاہتے جس میں خواتین آزاد ہوں، اس لئے میں کہتا ہوں کہ خوشحالی کے لئے، کیوں کہ خوشحالی تو ہم سب چاہتےہیں نا، اب مجھے میری بیٹی یا بیوی کی خوشحالی پہ دکھ ہوتا ہے تو پھر مجھ میں کوئی بیماری ہے، مجھے علاج کے لئے کسی ڈاکٹر کے پاس جانا چاہئے کہ جب میری بیٹی جاب کرتی ہے، تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے، وہ اپنی بات کرتی ہے، اس کی اپنی ایک شخصیت بنتی ہے، جس پہ اسے خوشی ہوتی ہے اور مجھے دکھ ہوتا ہے۔

یہ جو پدرانہ معاشرہ ہے یہ نفسیاتی بیمار ہے اور میں پشتونوں سے خصوصی طور پر کہناچاہتا ہوں کہ ہم جب حکمرانوں سے سوال کرتے ہیں کہ چی دا سنگہ آزادی دہ (یہ کیسی آزادی ہے) تو جو اپنی آدھی آبادی کو غلام رکھے، پابند رکھے، اس کو تعلیم نہ دے، اس کی آزادی پہ یقین نہ رکھےاور جب وہ باہر جاتی ہے، تقریر کرتی ہے تو وہ اس کا مذاق اڑاتےہیں، اس کی ہتک کرتے ہیں، ایسے معاشرے میں جب پشتون آزادی کی بات کرتے ہیں تو مجھے بہت عجیب لگتا ہے۔ اگر وہ دس بار حکمرانوں سے کہتے ہیں کہ یہ کیسی آزادی ہے تو ایک بار خود کو بھی مخاطب کریں کہ یہ کیسی آزادی ہے جس میں انھوں نے اپنی آدھی آبادی کو محبوس کر رکھا ہے۔

فضل ربی راہی: آپ پشتو زبان کے بہت اچھے شاعر ہیں۔ آپ کے پہلے پشتو شعری مجموعہ ’’خو مینہ تل ژوندئ وی‘‘ (محبت ہمیشہ زندہ رہتی ہے) کے دو ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ کیا شاعری کا سلسلہ اب بھی جاری ہے؟

ضیاء الدین یوسف زئی: جب میں نے آخری نظم لکھی تھی وہ امن کے متعلق تھی جو میں نے افغانستان میں ایک مشاعرے میں پڑھی تھی اور جسے بڑی پزیرائی ملی تھی، اس کے بعد میں نے کوئی خاص شاعری نہیں کی ہے کیوں کہ اس کے بعد میں بہ طور ایکٹویسٹ بہت مصروف ہوگیا تھا یعنی سکولوں کی تنظیم کے ساتھ بھی، گلوبل پیس کونسل میں بھی، جرگے میں بھی اور سول سوسائٹی کی دیگر سرگرمیوں میں بھی ۔ اس کے علاوہ طالبان کے خلاف ہم جو جدوجہد کر رہے تھے، اس میں میری مصروفیات اتنی بڑھ گئیں کہ میں اپنی شاعری بھول گیا۔ میرے نازک احساسات اورلطیف جذبات پہ گرد پڑ گئی جس کی وجہ سے میری تخلیقی صلاحیت وہ نہیں رہی جو ہونی چاہئے۔ ہمارے دوست شوکت شرار آرکٹیکٹ، ڈاکٹر خادم حسین اور آپ بھی مجھے کہتے رہے ہیں کہ میں شاعری سے ناتا جوڑے رکھوں، آپ دوست ایسے ہیں جو مجھے ہمیشہ شاعری اور ادب کی طرف راغب کرتے رہتے ہیں جس کے لئے میں آپ سب کا بڑا شکرگزار ہوں کہ آپ مجھے شاعر سمجھتے ہیں ورنہ میں تو آج تک خود کو کوئی خاص شاعر نہیں سمجھ سکا۔

فضل ربی راہی: آپ کی سوچ اور نظریات سے ترقی پسند ہونے کا تاثر ملتا ہے، زمانہ طالب علمی میں آپ کون سی کتابیں پڑھتے رہے ہیں؟ آپ کن شاعروں اور ادیبوں سے متاثر ہیں؟

ضیاء الدین یوسف زئی: میں نے اپنے والد کی لائبریری میں کافی اسلامی لٹریچر پڑھا ہے۔ ان کی لائبریری میں ’’خدام الدین‘‘ نامی بہت رسالے ہوتے تھے، مجھے نہیں پتا کہ یہ مولاناعبدالحق صاحب یا مفتی محمود صاحب کی جمعیت علمائے اسلام کی زیر ادارت ہوا کرتے تھے، لیکن اس رسالے کے مضامین میں بہت پڑھتا تھا۔ میرے والد صاحب کی لائبریری میں زیادہ تر اسلامی کتابیں ہوتی تھیں، ان میں اقبال اور شیخ سعدی کی شاعری اور مولانا ابولکلام آزاد کی کتابیں غبار خاطر وغیرہ ہوا کرتی تھیں، تو کچھ کتابیں تو میں وہاں سے پڑھتا تھا اور قرآن پاک کے ترجمہ کے علاوہ فارسی و عربی کی کچھ کتابیں میرے والد صاحب نے ایک استاد سے مجھے پڑھوائی تھیں، اس لئے مطالعہ کے حوالے سے میری ایک بنیاد موجود ہے۔ پشتو ادب کے ساتھ میری دل چسپی ایف ایس سی کے بعد پیدا ہوئی، اس وقت میں نے پشتو کی شاعری پڑھنا شروع کی۔

جب میں سوات کے ایک نواحی گاؤں سپل بانڈئی میں مقیم تھا تو وہاں میں نے پہلی دفعہ ایک لمبی غزل نما نظم لکھی، اس سے پہلے جب میں نویں اور دسویں جماعت میں تھا تو رحمت شاہ سائل کی شاعری ٹیپ ریکارڈ کے ذریعے اس کی اپنی زبان میں سنتا تھا، سردار علی ٹکر کو بھی بہت سنتا تھا، ان کی کچھ نظمیں میں نے اس وقت یاد کی تھیں۔ سائل صاحب کی شاعری سے میری رومانوی تسکین ہوتی تھی، جب میں اپنی محبوبہ کا سوچتا تھا اور وہ میری اپنی بیوی ہے، تو میں رحمت شاہ سائل کی شاعری کا مطالعہ کرتا تھا اور ظاہر ہے ان کی شاعری میں پھر سیاست کی بات بھی آجاتی تھی تو دونوں موضوعات کے لئے سائل کی شاعری ٹھیک تھی۔ سائل کی رومانی اور مزاحمتی دونوں شاعری مجھے بہت اپیل کرتی ہے اور اس کو میں نے اپنی زندگی کے ایک ایسے دور میں اپنے اندر جذب کیا ہے جس کے اثرات میری شخصیت میں اب بھی موجود ہیں۔

میرے اندر جو مزاحمت کا فطری جذبہ موجود تھا، اسے تقویت سائل صاحب اور فیض صاحب کی شاعری نے دی ہے۔ جب میں سوات میں سوشل اکٹویسٹ کی حیثیت سے جدو جہد کرتا تھا تو میری زبان پر فیض کا کوئی شعر ہوتا تھا یا رحمت شاہ سائل کا۔ جہانزیب کالج میں جب میں طالب علم رہنما کی حیثیت سے کوئی تقریر کرتا تھا تو مجھے پشتون سٹوڈنٹ فیڈریشن کے ایک سینئر طالب علم رہنما کہتے تھے کہ آپ اپنی تقریر میں اردو کے شعر مت کہا کریں، میں نے انھیں کہا کہ نہیں یہ نہیں ہوسکتا ، I love Faiz  مجھے فیض کے شعر پڑھنے ہیں، آپ مجھے نہیں روک سکتے۔ ان کا اردو زبان کے ساتھ ایک قسم کا تعصب ہوتا تھا لیکن فیض کی طرح کی شاعری مجھے اور کہاں مل سکتی تھی کیوں کہ ’’ہم دیکھیں گے کہ لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے‘‘ اور کہاں ہے؟

فضل ربی راہی: مذہبی شدت پسندی نے پورے ملک پر خوف ناک پنجے گاڑ رکھے ہیں، آپ کے خیال میں اس کا تدارک کیسے ہوسکتا ہے؟ عام لوگوں میں مذہبی رواداری اور انسان دوستی کے جذبات کیسے پیدا کئے جاسکتے ہیں؟

ضیاء الدین یوسف زئی: اس حوالے سے جو بات میں بتانا چاہتا ہوں وہ کوئی نئی نہیں ہے، کیوں کہ جو سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار ہیں، اس شعبے پہ جنھوں نے باقاعدہ تحقیق کی ہے، وہ سب اس بات پہ متفق ہیں کہ مذہبی اتنہاپسندی اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک ریاستی ادارے مذہبی شدت پسندی کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کرتے، جب تک وہ یہ فیصلہ نہیں کرتے کہ پاکستان مذہبی شدت پسندوں کا ملک نہیں بلکہ یہ مختلف قومیتوں کا ایک خوب صورت، ترقی پسند، امن پسند اور معتدل انسانوں کا ملک ہوگا۔ جب تک ریاستی پالیسیوں میں تزویراتی مقاصد کے لئے مذہب کا استعمال روکا نہیں جاتا، اس وقت تک مذہبی شدت پسندی کا روکنا محال ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم تمام مذہبی شدت پسندوں کو مارے، پیٹے اور جیلوں میں ڈالیں، ایسا نہیں بلکہ جو مصنوعی پلیٹ فارم ہم ان کو دیتے ہیں، وہ دینا بند کریں۔

اچھے اچھے ترقی پسند،امن پسند، اعتدال پسند دانش وروں، اینکر پرسنز اور عالم فاضل لوگوں کو چھوڑ کر ہم جب انتہاپسندوں کو ٹیلی وژن پہ بٹھاتے ہیں، انھیں ٹاک شوز میں آئے دن بات کرنے کا موقع دیتے ہیں، اخباروں میں انھیں لکھنے دیتے ہیں اور جب ہمارے بچے اور بچیاں ان کو سنتے ہیں، پڑھتے ہیں، ان کے نفرت انگیز خیالات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں تو ایسے ماحول میں پھر کیسے ممکن ہے کہ یہ زہر نئی نسل کے ذہنوں میں نہ پھیلے۔ ایک طرف تو آپ ان کو اہم میڈیا میں پرائم ٹائم دیتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے تعلیمی نظام میں سوال کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تو اس تعلیمی نظام سے جو بچے اور بچیاں فارغ التحصیل ہوتے ہیں تو وہ بھی لکیر کے فقیر ہوتے ہیں، وہ ٹی وی پر بیٹھنے والے مولوی سے یہ سوال نہیں کرسکتے کہ یہ بندہ جو کچھ بتا رہا ہے، یہ کوئی حرف آخر نہیں ہے، یہ بندہ غلط بھی بول سکتا ہے اور پھر آپ کو پتا ہے کہ پاکستان میں جعلی پیروں کی طرح جعلی دانش وروں نے اپنے معتقدین اور پیروکاروں کے بڑے حلقے بنا رکھے ہیں، وہ پیغمبر بنے بیٹھے ہیں اور جن کی ہر ہر حرکت کو سنت سمجھا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ کہ رہے ہیں، وہی ٹھیک ہے، وہ اگر گالی بھی دیں تو وہ ٹھیک ہوگا۔

اس کے لئے تعلیمی نظام اور ہم نصابی سرگرمیوں میں دو چیزیں بہت ضروری ہیں، ایک یہ کہ آپ ہم نصابی سرگرمیوں کو آزاد کریں اور نصاب میںcritical thinking  کو بہ طور مضمون شامل کریں تاکہ بچے آزادانہ طور پر سوچ سکیں۔ سوچ کی آزادی اور تخلیق صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے سٹوریز کو شامل کریں۔ ہمارا ملک معاشی طور پر کمزور ضرور ہے لیکن اس میں ایسے رول ماڈلز کی کمی نہیں ہے جو ہمارے بچوں کے ذہنوں کو روشن نہ بنا سکیں۔ میں مثال کے طور پر ایدھی کانام لوں گا جب ہمارے Curriculum میں وہ شامل ہوں گے تو وہ بچوں کے لئے مثال بنیں گے۔ بچوں کے لئے رول ماڈل بہت ضروری ہوتے ہیں لیکن آپ بچوں کو شدت پسند شخصیات رول ماڈل کے طور پر دکھاتے ہیں یا ایدھی صاحب جیسے انسان دوست اور وسیع المشرب انسانوں کومتعارف کراتے ہیں، یہ آپ پہ منحصر ہے۔

فضل ربی راہی: حالیہ عام انتخابات میں بعض کالعدم شدت پسند مذہبی تنظیموں کا نام بدل کر انھیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی، لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ عوام کی اکثریت نے ان لوگوں کو مسترد کردیا۔ س سے ایک حوصلہ افزا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام میں ان کی وہ پزیرائی نہیں ہے جو بہ ظاہر محسوس ہوتی ہے۔ اسے آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ضیاء الدین یوسف زئی: انتخابات سے پہلے جو منظر پیش کیا جاتا تھا، اس میں تحریک لبیک یا جماعت دعوہ کے لوگوں کو ملی مسلم لیگ کے نام سے مین سٹریم میں لانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ ٹیلی وژن سکرین سے تو یہ تاثر ملتا تھا کہ یہ لوگ پتا نہیں کتنی سیٹیں لیں گے، یوں دکھایا جاتا تھا جیسے پورا پاکستان بالکل جہادی ہے، لیکن ان کے جو نتائج نکلے ہیں، وہ ایک لحاظ سے انتہائی حوصلہ افزا ہیں کہ یہ لوگ اتنے ہی ہیں جتنے یہ وہاں میدان میں ہوتے ہیں، یہ اتنے ہی ہیں جنھوں نے لاٹھیاں اٹھا رکھی ہوتی ہیں، یہ اتنے ہی ہیں جو توڑ پھوڑ کرتے نظر آتے ہیں، اور جن میں ہر ایک کے پیچھے ٹی وی کے دس کیمرے لگے ہوتے ہیں جو ان کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کے لئے ٹی وی چینلوں کو آرڈر دیا جاتا ہے کہ سارے کیمرے ان کے دھرنوں پہ لگاؤ اور ان کو چوبیس گھنٹے ٹی وی پر دکھاؤ جس کی وجہ سے عام لوگ سوچتے ہیں کہ یہ شاید ایک بہت بڑی قوت ہیں اور پھر آخر میں کھودا پہاڑ، نکلا چوہا کے مصداق ان کی اصلیت ظاہر ہو جاتی ہے۔

آپ نے موجودہ انتخابات میں یہ بھی دیکھا ہوگا کہ ایم ایم اے بننے کے باوجود مذہبی سیاسی جماعتیں قومی سیاست سے بڑی حد تک خارج ہوچکی ہیں، میرا خیال ہے کہ مذہب کو سیاست کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے اور سیاست کو بھی مذہب کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے، ان دونوں کا ایک دوسرے کے لئے استعمال مہلک ہے، ذاتی لحاظ سے بھی اور معاشرتی طور پر بھی، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ جب رجعت پسند تنظیمیں یا ایسی جماعتیں جو مذہب کے نام پر لوگوں سے ووٹ لیتی ہیں، وہ قوم کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں۔

فضل ربی راہی: ملک میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ موجودہ عام انتخابات میں عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے لئے نہ صرف دھاندلی کی گئی ہے بلکہ پری پول رگنگ سے بھی کام لیا گیا ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں ایسے میں اپوزیشن جماعتیں خان صاحب کو نیا پاکستان بنانے کے لئے فری ہینڈ دیں گی؟

ضیاء الدین یوسف زئی: دیکھئے ایک بات پہ تو تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق نظر آتاہے سوائے عمران خان کی تحریک انصاف کے، کہ اس الیکشن میں نواز شریف اور مریم نواز کو عدالتوں کے ذریعے جیل میں ڈال کر اور جنوبی پنجاب سے الیکٹ ایبلز کو تحریک انصاف میں شامل کراکے ایک مخصوص سیاسی جماعت کے لئے راہ ہموار کر دی گئی۔ پری پول رگنگ کے ذریعے جتنا بھی ہوسکتا تھا تحریک انصاف کے لئے زمین ہموار کردی گئی، وہ تو ہوا لیکن اب پوسٹ پول رگنگ کی جو شکایات سامنے آئی ہیں، وہ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک ہیں۔ نہ میں تو کسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہوں اور نہ ہی اپوزیشن میں ہوں یہ ان پہ منحصر ہے کہ اس ساری صورت حال میں وہ مستقبل میں کیا منصوبہ بندی کرتے ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ خیبر پختون خوا کے بعض حلقوں میں عوام نے پی ٹی آئی کو بڑی فراخدلی کے ساتھ ووٹ دیا ہے جو مجھے وہاں کے لوگوں نے بتایا ہے لیکن جب آپ خبریں سنتے ہیں کہ ملک کے مختلف حصوں میں فارم 45 پولیٹیکل ایجنٹ کو نہیں دیا گیا سادہ کاغذ پہ ان کو نتیجہ دیا گیا، یا انھیں مبینہ طور پر گنتی کے وقت باہر نکال دیا گیا تھا، اس صورت حال میں کوئی آئیڈیل صورت حال بالکل نہیں بن رہی ہے۔ زرداری سے جب نواز شریف کو انتقال اقتدار ہوا تھا اور اس کا جو ٹیمپو تھا، اس میں تسلسل نہیں رہا، اس دفعہ یہ سارا عمل اس سے بہتر ہونا چاہئے تھا۔

فضل ربی راہی: عمران خان کی حکومت سے آپ کیا توقعات رکھتے ہیں؟

ضیاء الدین یوسف زئی: میں ان سے تین توقعات رکھتا ہوں۔ میری پہلی توقع عمران خان سے یہ ہے کہ وہ ایک ایسی جمہوریت کی بنیاد رکھیں جس میں پختونوں کے جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ رہے، دوسری توقع یہ ہے کہ وہ خارجہ اور داخلہ پالیسیوں پر نظر ثانی کریں، وہ کچھ ایسی سٹرٹیجک پالیسیاں کھل کر اپنائیں جن میں پشتونوں کو اطمینان ہو، بلوچوں کی بے چینیاں ختم ہوں اور وہ کسی دہشت گرد تنظیم یا کسی خودکش حملہ کے شکار نہ ہوں۔ اگرہمیں یہ تسلی ہوجائے کہ پشتون باجوڑ سے لے کر سوات اور جنوبی وزیرستان تک محفوظ ہیں تو میں سمجھوں گا کہ بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اہم بات یہ کہ وہاں چیک پوسٹیں ختم یا کم ہوسکیں اور لوگ آزادی کے ساتھ جی سکیں۔

دوسری چیز جو میں سمجھتا ہوں وہ یہ کہ نواز شریف آج جیل میں ہیں تو ان کے ساتھ ہماری ہمدردی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے پشتونوں کے ساتھ زیادتی کی ہے، سی پیک کے جائز حصہ سے ہمیں محروم کردیا گیا تھا۔عمران خان سے ہماری یہ توقع ہے کہ وہ سی پیک میں خیبر پختون خوا کا جائز حصہ حاصل کریں، اس سے بے انصافی کا ازالہ ہوسکے گا۔ اگر وہ یہ نہیں کرسکتے تو میرا مطالبہ ہے کہ وہ اےپیک متعارف کرائیں یعنی افغان پاکستان اکنامک کاریڈور(APEC)، تاکہ پشتون بیلٹ کا افغانستان کے ساتھ اقتصادی راہداری ہو اور اس کے لئے سرمائے کی بھی ضرورت نہیں ہے جس طرح مشرق میں یہ کام ہو رہا ہے وہ مغربی سرحد پہ بھی ہو۔

تیسری بات، انھوں نے تعلیم کے معاملے میں پختون خوا میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنایا ہے لیکن انفراسٹرکچر کے حوالے سے انھوں نے کوئی کام نہیں کیا ہے، سکولوں میں کہیں لیٹرین نہیں ہے، کہیں پانی کا مسئلہ ہے، کہیں چاردیواری مفقود ہے تو کہیں لڑکیوں کی ہائی جین کے لئے پراپر واش روم نہیں ہے، میرا خیال ہے کہ وہ خود اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے ہیں، اس لئے ان کی سب سے بڑی ترجیح تعلیم اور لڑکیوں کی تعلیم ہونی چاہئے تاکہ پاکستان کو ایک تعلیم یافتہ ملک بنایا جاسکے۔ تعلیمی بجٹ میں نواز شریف نے چار فی صد کے اٖضافے کا وعدہ کیا تھا ، ان سے ہماری تین دفعہ ملاقات ہوئی تھی جن میں ہم نے تعلیم کے بجٹ میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا لیکن انھوں نے ہمارے مطالبے پر کوئی عمل نہیں کیا، لیکن ہماری عمران خان سے توقع ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں تمام صوبوں میں بجٹ کا 20 فی صد تعلیم پہ خرچ کیا جائے گا اور قومی جی ڈی پی میں تعلیم کے لئے کم از کم پانچ فی صد تک بجٹ بڑھا دیا جائے گا۔

فضل ربی راہی: کیا آپ کو لگتا ہے کہ پاکستان میں پختونوں اور بلوچوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے؟ ان کے جائز شکایات پر بھی ریاست دھیان نہیں دے رہی ہے جس کے نتیجے میں پختون تحفظ موومنٹ وجود میں آگئی اور بلوچستان میں قوم پرست انتہا پسندی کو مہمیز مل رہی ہے۔

ضیاء الدین یوسف زئی: یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ کبھی کبھی ہم حقائق کو تسلیم نہیں کرتے اور شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپا لیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پختون تحفظ موومنٹ صرف پختون خوا کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے کچلے ہوئے عوام کے حقوق کے لئے ایک ہر دل عزیز مزاحمتی تحریک بن چکی ہے۔ یہ تحریک سترہ اٹھارہ سالوں کے دوران ریاست کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں اٹھی ہے جس میں پختون خطہ بالخصوص اور پورا پاکستان بالعموم دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ واضح رہے کہ اس تحریک میں جو لوگ اٹھے ہیں انھیں کسی نے اکسایا نہیں ہے بلکہ وہ خود اٹھے ہیں۔ جب کوئی مظلوم شخص ظلم کے خلاف اٹھتا ہے اور آپ اسے کہتے ہیں کہ آپ مظلوم نہیں ہیں، آپ غدار ہیں تو یہ بذاتِ خود بڑا ظلم ہے اور یہ مسئلے کا حل بھی نہیں ہے۔

اس طرح بلوچ بھائیوں کی محرومیاں ہیں۔ میرے خیال میں عمران خان کے لئے تیسرا بڑا چیلنج یہ ہےکہ وہ سارے ناراض، دل برداشتہ، مقہور، مجبور، مظلوم لوگوں کو نئے پاکستان کا فعال حصہ بنائیں، ان میں خصوصی طور پر پشتون، بلوچ، ہزارہ اور احمدی بھی شامل ہیں۔ وہ اگر ایک نئے پاکستان کی بات کرتے ہیں اور اس میں ان تمام لوگوں کی یکساں شمولیت ممکن نہیں ہوتی، ان کے جان و مال کی حفاظت نہیں ہوتی تو میرا نہیں خیال کہ پاکستان کے اندر یا باہر کوئی ان کے نئے پاکستان کا دعویٰ مانے گا۔

فضل ربی راہی: نقیب اللہ محسود کے قاتل راؤ انور کی حال ہی میں عدالت سے ضمانت منظور ہوگئی ہے، جب کہ ان پر کراچی میں چار سو سے زائد ماورائے عدالت ہلاکتوں کا الزام بھی ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ان سے اعلیٰ عدالتوں کا خصوصی سلوک کیا انصاف کے دوہرے معیار کی عکاسی نہیں کرتا؟

ضیاء الدین یوسف زئی: راؤ انور کے کیس کو انتہائی شرم ناک طریقے سے برتا گیا ہے، اس میں بے انتہا ظلم سے کام لیا گیا ہے کیوں کہ ایک ایسا شخص جس پہ 444 لوگوں کے قتل کرنے کا الزام ہو، جس پہ نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا الزام ہے اور ان کے ساتھ دو اور بھی لڑکے قتل کئے گئے تھے، جن کا ذکر کوئی نہیں کرتا، تو نقیب اللہ کی وجہ سے محسود تحفظ موومنٹ، پختون تحفظ موومنٹ میں تبدیل ہوگئی اور وہ آج بھی انصاف کا مطالبہ کرتی ہے جو کہ ایک بہت ہی چھوٹا اور آسان مطالبہ ہےلیکن راؤ انور کو جب چیف جسٹس صاحب کی ہدایت پر خصوصی پروٹوکول ملتا ہے، اس کا گھر جسے بڑے شاہانہ انداز میں ٹھیک کروا دیا جاتا ہے، اس کو سب جیل قرار دیا جاتا ہے، تو ایسی چیزوں کو دیکھ کر پھر لوگ نہ صرف مایوس ہوجاتے ہیں بلکہ ہر ذی شعور انسان کا انصاف کے عمل پر اعتماد بھی اُٹھ جاتا ہے اور عام لوگ اس خطرناک نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ ملک خداناخواستہ ہمارا نہیں ہے بلکہ چند نامزد مجرموں یا دہشت گردوں کا ملک ہے جن کو یہ سرٹیفکیٹ ملا ہے کہ آپ جس کو جس وقت بھی مارنا چاہیں مارسکتے ہیں، آپ قانون سے ماورا ہیں۔ راؤ انور کے کیس میں جس طرح قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں میرے خیال میں وہ بیس بائیس کروڑ عوام کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔

 فضل ربی راہی: سوات میں آپ نے ایک ماہر تعلیم اور سوشل ایکٹویسٹ کی حیثیت سے کافی فعال زندگی گزاری ہے، کیا آپ کا جی نہیں چاہتا کہ آپ سوات واپس چلے جائیں اور اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ ان ہی سرگرمیوں میں ایک بار پھر مصروف ہوجائیں؟

ضیاء الدین یوسف زئی: کاش! ایسا ہوسکتا۔ لیکن میرے خیال میں وہ ایک خیال یا خواہش تو ہوسکتی ہے لیکن حقیقت میں اب ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ بعض اوقات انسانی زندگی میں کوئی ایسا موقع ضرور آتا ہے کہ اس کے پاس اپنی پسند کا آپشن باقی نہیں رہتا۔ میں نے جس آپشن اے کا انتخاب کیا تھا کہ میں ایک سوشل سوسائٹی ایکٹویسٹ، ایک استاد اور ایک ذمہ دار شہری کی طرح اپنی زندگی گزاروں گا اور میں اپنے معاشرے کو کچھ دوں گا۔ ماحولیات، انسانی حقوق اور تعلیم کے حوالے سے حق کے لئے آواز اٹھاؤں گا لیکن وہ آپشن اب میرے پاس نہیں رہا ہے۔

اب آپشن بی یہ ہے کہ میں یو کے میں رہتا ہوں، ملالہ تعلیم حاصل کر رہی ہے، میرے بیٹے یہاں زیر تعلیم ہیں اور پہلے کی طرح وہاں آزادی سے گھومنا پھرنا اور ان تنظیموں میں کام کرنا اب میرے خیال میں زیادہ قرین حقیقت نہیں ہے، اس لئے مجھے آپشن بی پہ زیادہ فوکس کرنا چاہئے کہ چوں کہ اس المیے کے نتیجے میں جو کہ اب المیہ نہیں رہا بلکہ اس کے بطن سے خیر کے کئی پہلو برآمد ہوئے ہیں، میں اپنی تمام تر صلاحیتیں اور وسائل ملالہ کے ساتھ ملا کر اپنے وطن پاکستان ، پختون خوا اور جہاں جہاں بھی لڑکیوں کی تعلیم کی بات ہے، اس کے لئے کام کرسکوں۔ آج دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے سب سے توانا آواز ملالہ کی ہے اور اس میں ایک کردار میرا بھی ہے کیوں کہ میں ملالہ فنڈ کے بورڈ میں بھی ہوں، میں ان کے پروگرام اور پراجیکٹ میں حصہ لیتا ہوں۔ ایک استاد، ایک ایجوکیشن ایکٹویسٹ اور ایڈووکیٹ کی حیثیت سے میرے رول کی عالمی سطح پہ ایک اہمیت ہے، میری بات غور سے سنی جاتی ہے، تو اب مجھے یہی کردار ادا کرنا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).