ایران پر امریکی پابندی سے انڈیا کو مشکلات کا سامنا، خام تیل کے قلت کا خطرہ
ایران پر امریکی پابندیوں کا پہلا مرحلہ پیر کو شروع ہوا لیکن ان کے اثرات انڈیا پر بھی مرتب ہوں گے کیونکہ عراق اور سعودی عرب کے بعد انڈیا کو تیل فروخت کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ایران ہی ہے۔
گذشتہ ہفتے ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ انڈیا کی سرکاری تیل کمپنیوں نے جولائی میں ایران سے بہت زیادہ تیل کی خریداری کی ہے۔
لیکن نومبر میں جب ایران پر امریکی پابندیوں کا دوسرا دور شروع ہوگا تو یہ سلسلہ بھی منقطع ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے
انڈیا ایران کا ساتھ دے یا امریکہ کا؟
تیل کی پیداوار: ’اس دغابازی کی قیمت ادا کرنی پڑے گی‘
بی بی سی کے نمائندے وبھو راج نے اس معاملے پر بزنس صحافی شِشِر سنہا سے بات کی اور ان سے یہ جاننا چاہا کہ ایران پر امریکی پابندیوں کے ہندوستان پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔
شِشِر سنہا کا نقطۂ نظر
انڈیا کو خام تیل فراہم کرنے والے چار بڑے ممالک میں ایران، عراق، سعودی عرب اور وینزویلا ہیں۔
اب تک انڈیا نے ایران پر امریکی پابندیوں کے اثرات کے تدارک کے لیے کچھ انتظامات کر رکھے تھے۔ مثال کے طور پر انڈیا نے ڈالر کے بجائے ریال-روپے کا معاہدہ کر رکھا تھا جس کے تحت تیل کی قیمت روپے میں ادا کی جاسکتی تھی۔
اس کے علاوہ بارٹر سسٹم یعنی جنس کے بدلے جنس کے نظام پر عمل درآمد ہو رہا تھا اور اس کے تحت بعض اجناس کے بدلے ہندوستان ایران سے خام تیل لیتا تھا۔
یہ انتظام اب بھی قائم ہے لیکن امریکی پابندیوں کے مکمل نفاذ کے بعد یہ غیر مؤثر ہو جائے گا۔ انڈیا کے لیے اصل پریشانی نومبر سے شروع ہونے والی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
چابہار: ایران 18 ماہ کے لیے بندرگاہ انڈیا کو لیز پر دے گا
کیا چین ایران کو اقتصادی بحران سے نکال سکتا ہے؟
امریکی پابندیوں کے دو مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ چھ اگست کو شروع ہوا ہے جب نہ ڈالر سے ریال خریدا جا سکے گا اور نہ ہی ریال سے ڈالر۔
دوسرے مرحلے یعنی نومبر سے خام تیل لے جانے والے امریکی ٹینکروں کا استعمال مکمل طور پر بند ہو جائے گا۔
زیادہ تر نجی کمپنیوں نے ایران سے تیل کی درآمد کم کردی ہے اور جو سرکاری کمپنیاں ہیں، جن کے پرانے معاہدے ہیں وہ اسے فوری طور پر پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اسی لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ جون اور جولائی کے دوران ایران سے بہت سارے خام تیل انڈیا لائے گئے۔
یہاں تک صورت حال درست ہے لیکن انڈیا نومبر سے ایران سے تیل لینے کے قابل نہیں ہوگا کیونکہ امریکی ٹینکروں کا استعمال بند ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے
ایران پر پابندیوں کے اثرات: چارٹس میں
دوسرے بین الاقوامی تجارت کی اہم ری اشیورینس پالیسی قابل عمل نہیں ہوگی کیونکہ اسے بھی امریکی کمپنیاں فراہم کرتی ہیں۔ لہذا انڈیا کے لیے خام تیل کا ایک ذریعہ بند ہو جائے گا۔
اس صورت میں انڈیا کا دوسرا وسیلہ وینزویلا ہو سکتا ہے، لیکن خبر یہ ہے کہ ان کے خلاف بھی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو انڈیا کو خام تیل کی فراہمی متاثر ہوگی اور انڈیا کو متبادل تلاش کرنا ہوگا۔
ابھی تک انڈیا کے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر صورت حال یہی رہی تو نومبر کے بعد انڈیا کے سامنے پریشانیاں ہوں گی۔
کیا اس کا کوئی حل ہے؟
اس سے بچنے کا ایک راستہ ہے۔ انڈیا کو اگر امریکہ یہ رعایت دے کہ وہ ایران سے خام تیل لے سکتے ہیں اور اس کی ادائیگی یورو یا دوسری کرنسیوں میں کر سکتے ہیں تو اس سے انڈیا کی راہ آسان ہو جائے گی۔ لیکن ابھی تک امریکہ کا رویہ نرم ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔
ایسی صورت حال میں ہم امید رکھتے ہیں کہ تمام پابندیوں کے بعد امریکہ انڈیا کو اپنے ٹینکروں کے ذریعہ نومبر سے ایران سے تیل لانے کی اجازت دے گا لیکن اس کا امکان بہت کم ہے۔
ہند ایران رشتے پر اثرات؟
انڈیا اور ایران کے درمیان باہمی تعلقات ایک مختلف پہلو ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران سے کوئی سامان ہندوستان کے لیے روانہ کیا جائے اور وہ اپنی منزل پر نہ پہنچے تو اس میں دو طرفہ تعلقات کیا کر سکتے ہیں۔
دو طرفہ تعلقات اپنی جگہ ہیں لیکن بیچ کا وسیلہ ہی ٹوٹ جائے تو پھر تجارت کیسے ہوگی؟
اب سوال یہ ہے کہ اگر ڈالر میں تجارت ہو تو کیا انڈیا کو اس کا فائدہ ہوگا؟
بین الاقوامی تجارت میں زیادہ تر ادائيگی ڈالر میں ہوتی ہے اور ڈالر کو زیادہ قبولیت حاصل ہے۔
اس لیے اگر ڈالر میں کاروبار جاری رہتا ہے تو انڈیا کو زیادہ آسانی ہوگی۔ لیکن اگر بیچ کا لنک ہی ٹوٹ جائے تو پھر تجارت کس طرح ہو سکتی ہے۔ معاملہ پیچیدہ نظر آتا ہے۔
- میٹا کو فیس بک، انسٹاگرام پر لفظ ’شہید‘ کے استعمال پر پابندی ختم کرنے کی تجویز کیوں دی گئی؟ - 28/03/2024
- ’اس شخص سے دور رہو، وہ خطرناک ہے‘ ریپ کا مجرم جس نے سزا سے بچنے کے لیے اپنی موت کا ڈرامہ بھی رچایا - 28/03/2024
- ترکی کے ’پاور ہاؤس‘ استنبول میں میئر کی نشست صدر اردوغان کے لیے اتنی اہم کیوں ہے؟ - 28/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).