یااللہ! یہ فحش نگاری کیا ہوتی ہے


کہتے ہیں ایک آدمی تھا، اس کی تین چار بیویاں تھیں، کم بختیں، سب کی سب توتلی۔ ایک دن چند دوستوں کی دعوت کی، میاں نے سختی سے بولنے سے منع کر دیا کہ سنیں گے تو ہنسی اڑائیں گے۔ پر جب انھوں نے کھانے کی تعریف کی تو بیویوں کا جی نہ مانا اور بول اٹھیں۔ تینوں تو خیر اپنی اپنی تعریف میں بولیں، پر چوتھی نے کہا، ”بھلا ہوا ہے جو ہم نہ بولے، میاں آئیں گے تو جوتے لگیں گے۔ ” تو صاحب وہ جوتے لگے مگر سب سے زیادہ ان آخری بولنے والی کے۔ تو آج کل ”ساقی“ سب کی باتیں سن رہا ہے تو ہم کیوں چپ رہیں، آخر ہم بھی منھ میں زبان رکھتے ہیں۔

عام موضوع نیا ادب ہے۔ ہمدرد لوگ انسانیت، اخلاق، ادب اور تہذیب کو گمراہی سے بچانے کے لیے اس شتر بے مہار یعنی نئے ادب کے پیچھے ہر قسم کے ہتھیار لے کر حملہ آور ہوئے ہیں اور قبلہ اونٹ صاحب کچھ بوکھلائے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اللہ جانے کس کروٹ بیٹھتے ہیں یا بدحواس ہونے کا ارادہ ہے؟ سنا ہے کہ جب اونٹ کو غصہ آتا ہے تو دشمن کی کھوپڑی اتار لیتا ہے۔ کیا معلوم بھئی! اور ذرا ہتھیار ملاحظہ ہو اور بدکانے والے! ”نیا ادب سوائے جنسی الجھنوں کے کچھ نہیں، نیا ادب گر رہا ہے۔ “

یا اللہ، یہ فحش نگاری کیا ہوتی ہے؟ ہماری ایک خالہ تھیں جو کمسن لڑکیوں کو ہر وقت ڈھنگ سے دوپٹہ اوڑھنے کی تلقین کیا کرتی تھیں۔ ذرا شانے سے دوپٹہ ڈھلکا اور ان کی آنکھوں میں خون اتر ا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اس خاص حصہ  جسم سے کیوں جلتی تھیں۔ معلوم ہوا کہ محترمہ خود چونکہ نہایت مرجھائی ہوئی، کھٹائی کی شکل کی تھیں، اور لڑکیوں کے جسم کو دیکھ کر کوئلہ ہو جاتی تھیں۔ بے چاری خالہ! نہ جانے کتنی خالائیں، نانیاں جوانی کھو کر لڑکیوں کی سوتیں بن جاتی ہیں۔ یہی حال نئے ادب نے پرانے ادب کا کر د یا ہے اور وہ اس کے شباب کی تپش سے پگھلا جا رہا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا، آخر اگر عریانی نظر آتی ہے تو لوگ بلبلا کیوں اٹھتے ہیں۔

یہ مانا کہ یورپ کے لڑکیوں اور لڑکوں کی تعلیم و تربیت سے بچپنے سے ہی کچھ اس انداز سے ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک صنفی چیزوں کی کچھ اہمیت نہیں رہ جاتی۔ وہ جب اس کے متعلق کچھ پڑھتے ہیں تو ان کے کانوں پر جوں تک بھی نہیں رینگتی اور یہاں تو سانپ پھنپھنانے لگتا ہے۔ کیوں صاحب، کیا ضروری ہے کہ اس مقدس سانپ کو ہم اپنی آئندہ نسل کا خون چوسنے کے لیے زندہ چھوڑدیں! کیوں نہ اس کا پھن جلد از جلد کچل کر قصہ پاک کر دیا جائے۔ نئے ادیب جو چن چن کر سانپوں کو کچلنے کی فکر میں ہیں، دشمن دین و دنیا کیوں سمجھے جا رہے ہیں؟

مگر یہ بھی توغلط ہے کہ نئے ادب میں صرف عریانی ہی ہے۔ وہ مثل ہے نا کہ جیسی روح ویسے فرشتے۔ چند اصحاب نے صرف عریانی کو پڑھا اور ان کے دل و دماغ پر نقش کر گئی باقی باتیں مطلب کی معلوم نہ ہوئیں، لہٰذا نظر انداز کر دیں۔ مگر عریاں جملے یقینا سو سو بار رٹے۔ ذرا غور کیجیے، عریانی پڑھنے کے شوقین تو معصوم بن کر چھوٹ جائیں، اور لکھنے والا برا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر گندگی فضول میں دکھائی جائے اور سڑکوں پر بے کار ننگے گھومنے لگیں، لیکن غسل آفتابی کے لیے کسی ضروری حصہ  جسم کو کھولنے کا موقع آئے تو اس میں کیا شرم؟ اگر پٹی کھولنے سے زخم خشک ہو جائے تو یہ عریانی نہیں ہوتی بلکہ اسے علاج کہتے ہیں اور وہ بزرگ جو اس سے چڑجائیں، قابل رحم ہیں۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ عریانی تکلیف دہ ہوتی ہے، اور اس عریاں ادب کے آئینے میں نہ جانے لوگوں کو کیا نظر آتا ہے کہ وہ اینٹ لے کر غریب آئینے پر دانت پیس کر دوڑتے ہیں۔ بھلا سوچیے تو اس میں آئینے کا قصور ہی کیا؟

شاید افسانوں اور کہانیوں میں عریانی دیکھ کر لوگوں کے رکیک جذبات میں ہیجان پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک صاحب کو زہرہ کا مرمریں مجسمہ دیکھ کر مرگی کا دورہ پڑجاتا ہے، اب اس کا علاج کسی ادیب کے پاس تو نہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ واقعے کو واقعہ سمجھ کر پڑھیے۔ ارے صاحب، یہ تو زندگی کی تصویر ہے، کھلی بھی ہے، ڈھکی بھی ہے۔ اگر عریانی ہے بھی تو کیا ضرور کہ مرگی کا دورہ ضرور ڈالا جائے، ضبط اور جذبات پر قابو بھی تو کوئی چیز ہے۔ اور ایسا عریانی میں عیب ہی کیا ہے جو آپ ادب کی عریانی سے لرزے جاتے ہیں۔

یہ نہیں دیکھتے کہ ادیب خود دنیا کی عریانی سے لرزا ٹھا ہے، اور دہشت کے مارے کانپ رہا ہے۔ وہ تو صرف حروف میں انھی باتوں کو منتقل کر رہا ہے جو دنیا میں ہو رہی ہیں۔ نیا ادب موجودہ زمانہ کی تاریخ ہے۔ برسوں بعد جب یہ نیا ادب نیا نہ رہے گا، تب بھی اسی طرح سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی حالات کے متعلق تاریخی مواد پہنچاتا رہے گا۔ یہی کہانیاں اور نظمیں تاریخ کے صفحات میں تبدیل ہو جائیں گی۔ اگر نیا ادب گندہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا گندی ہے جس کی یہ تصویر ہے، مصور کا کیا قصور؟

تاریخ اور ادب ساتھ ساتھ رہیں ہیں اور رہیں گے۔ اقتصادیات جدا نہیں کی جا سکتی، خواہ سیاسی مجبوریاں ادب کو سیاست سے دور رکھیں، پھر بھی چھپا رنگ پھوٹ ہی نکلے گا۔ اس نئے ادب سے پہلے، رومان اور مزاح کا زور تھا۔ پطرس، عظیم بیگ، رشید احمد، شوکت تھانوی، امتیاز علی تاج، فرحت اللہ بیگ سب ہی تو کم وبیش ایک ہی سا لکھتے تھے۔ ذرا غور سے پڑھیے، وہی بیویوں کے مظالم، دوستوں کی خوش مذاقیاں، گھریلو جھگڑے سب کے سب ایک ہی بات لکھتے تھے، ہاں یہ بات اور تھی کہ سب کا رنگ جدا تھا۔ اور اب نئے ادیب کیا لکھ رہے ہیں، جنسی الجھنیں، امیر و غریب کے جھگڑے، زندگی سے جنگ اور جملہ دنیا کی تلخیاں، یہ تو ہمیشہ ہی ہوتا ہے، پھر نئے ادیبوں سے کیوں شکایت ہے کہ وہ سب ایک رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ کس قدر فضول نقص ہے؟ ارے صاحب، ملیریا پھیلنا ہے تو سب کو ”کونین“ ہی دیتے ہیں، دکھ درد میں سب انسان ایک ہی طرح روتے پیٹتے ہیں، کوئی گانا تو ہو نہیں رہا جو سر، تال میں ہو، پرانا ادب بھی زندگی کی تصویر تھی اور نیا ادب بھی۔

یہ مانا کہ جب پرانا ادب لکھا گیا تو یہ دنیا اتنی گندی اور عریاں نہیں تھی، اور اب آپ جدھر نظر اٹھا کر دیکھیے، دنیا ننگی، بھوکی، چور، ا چکی اور مکار نظر آتی ہے۔ نئے ادیب کیا کریں، کیسے آنکھوں پر پٹی باندھ کر گل بکاؤ ¿لی اور مثنوی گلزار نسیم لکھنے لگیں۔ ”فسانہ آزاد“ اور مذاقیہ کہانی لکھتے چلے جائیں، نئے ادیب زیادہ تر ننگے بھوکے اور حساس ہیں۔ ان کے دل و دماغ زیادہ تیزی سے کام کر رہے ہیں اور ذرا سی چوٹ سے بھنا اٹھتے ہیں۔ ان کے بھیانک خواب جن کی اور بھی بھیانک تعبیریں، یہ ہماری دنیا کا نقشہ ہے۔ برا ہے یا اچھا، یہ فیصلہ آئندہ پود کے ہاتھوں میں ہو گا کہ وہ اسے سینے سے لگائے یا ٹھکرائے۔ ہم اور آپ کبھی انصاف سے کچھ نہیں کہہ سکتے اور آپ کا فیصلہ بے کار ہے، جوچوٹ کھایا ہوا سانپ ہے وہ دب نہیں سکتا، آپ کے اعتراض اور طعنے اسے خاموش دبک جانے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ وہ چیخے گا۔ دکھ ہو گا تو روئے گا۔

یہ جنسی بھوک ہے جس پر مہذب لوگوں کو اعتراض ہے، اسی طرح کہانیوں میں جھلکے جائے گی جب بھوک ہی ٹھہری تو پھر ہائے ہائے کیوں نہ ہو۔ نئے ادیب اتنے شرمیلے اور بزدل نہیں جو طعنوں تشنوں سے ڈر جائیں گے۔ یہ جنسی پکار جو افسانوں میں نظر آ رہی ہے، کیا ان کا تعلق اقتصادی اور معاشرتی حالت سے کچھ بھی نہیں۔ کیا اس میں آپ کو سیاست کی چاشنی نظر نہیں آتی؟ آپ نے ڈیمانڈ اور سپلائی کے متعلق اکنامکس میں پڑھا ہو گا۔ ذرا اس نکتے کو ہماری موجودہ زندگی پر پرکھیے، جنس ڈیمانڈ بھی ہے اور سپلائی بھی۔ مگر مارکیٹ نہیں، یعنی عورتیں بھی ہیں اور مرد بھی اور خواہشات بھی، مگر ان کا ذکر بے شرمی۔

ہندوستان کے لوگ غریب ہیں، اکثر نادار ہیں۔ ناداری میں شادی مصیبت، ناداری میں عیاشی گناہ، ناداری میں جینا منع، کیوں؟ ہمارے نوجوان باوجود تعلیم اور جسمانی قابلیت رکھنے کے دنیا کی دلچسپیوں سے محروم۔ علم تو الٹا ہمارے لیے مصیبت ہو گیا کہ نہ پڑھتے نہ یہ معلوم ہوتا کہ دنیا کے دوسرے انسان کیا مزے اڑا رہے ہیں۔ مزے سے اپنی چمڑی میں مگن رہتے ہیں مگر اب ہم جانتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اور ملکوں میں زندہ رہنا جرم نہیں اور یہاں کے نوجوانوں کو کچھ بھی نصیب نہیں۔ یہاں ہر بات عجیب، ہر بات گندگی، عریاں اور مخر ب الاخلاق، وہاں کے عیش کے ہزاروں اسباب، یہاں زندگی کے خواب دیکھنا جرم، خیر اگر یہ مصیبتیں تھیں تو کم از کم احسا س ہی کند ہوتا۔ کاش مٹی کے تودے ہوتے جو نہ سنتے، نہ دیکھتے، نہ دیکھ کے چلاتے، زمانے کی ٹھوکروں میں لڑھکتے، فنا کی طرف چلے جاتے۔

مگر نئی دنیا کا نیا بنیا، ضدی، بد مزاج اور اکھڑہے۔ وہ موجودہ نظام کو پسند نہیں کرتا، وہ ایک نظام کے لیے بے کل ہے، وہ اسے بدل ڈالنا چاہتا ہے۔ مگر ابھی تو بدنظمی سے متنفر، غصہ ہو ہو کر اپنی بوٹیاں چبارہا ہے، خود اپنا ہی جسم اور روح چیر کر پھنک رہا ہے اور کل وہ اس نظام کو توڑپھوڑکر دوسرا نظام بنائے گا۔ مگر نظام کو توڑنے سے پہلے اسے نہ جانے کس کس کو کچلنا پڑے گا، کس کس کے پیروں سے روندا جائے گا، اور جو باقی رہے گا وہ نئے نظام کی تکمیل کرے گا، یہ نظام کیا ہو گا، یہ ابھی کسی کو نہیں معلوم۔ نئے ادب کے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نئے نظام میں دکھ، بھوک اور افلاس تو نہ ہو گا۔ فاقے، جنسی اور روحانی نہ ہوں گے، بدمعاشی نہ ہو گی، طوائفوں کے اڈے نہ ہوں گے۔ اگر ہوں گے تو صرف انسانوں کے گھر ہوں گے، جہاں انسان رہے گا۔ عورتوں کو بھوکی کتیوں کی طرح غلیظ مورچوں میں عذاب دوزخ بن کر نہیں بیٹھنا پڑے گا، مرد حیوانیت سے دور ہوں گے۔ قدرت کے اصول کے مطابق جو انسان پیدا ہوں گے، وہ انسان مانے جائیں گے، اور شادی بیاہ صرف پیسے ہی والوں کے نہ ہوں گے بلکہ ہر تندرست انسان کو مکمل زندگی گذارنے کا حق ہو گا۔

نیا ادب پکار پکار کر انسان کو جینے کا حق دلانا چاہتا ہے۔ زندگی اور اس کے سارے لوازمات جو باپ دادا کی وراثت بن گئے ہیں، انسان کا حق ہو جائیں گے۔ نئی دنیا کے دکھ بہت بڑھ گئے ہیں اور نیا ادب اسی دنیا کے دکھوں کی آہ ہے جو دنیا کے ہر نوجوان کے چور چور جسم سے نکل رہی ہے۔ طعنے دینے سے کچھ نہیں ہوتا، بڑھیائیں طعنے دیتے مرگئیں، بوڑھے لاحول بھیجتے چل دیے، مگر نوجوان زندگی کی کشمکش میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ مٹنے کے لیے تیار نہیں، وہ بزدل نہیں اور اسے بے شرمی کے خطاب سے ذرا بھی شرم نہیں آتی۔ جب ادب کا سوال آتا ہے تو اس میں زنانے، مردانے ادب کا کیا سوال؟ جو نظام لڑکوں کو پسند نہیں، وہ لڑکیوں کو کب پسند آ سکتا ہے۔ مرد اگر چیخ سکتا ہے تو عورت کو بھی کراہنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

نئے ادب کا مقابلہ ایک بزرگ جنسی کتاب سے کرتے ہیں۔ بالکل ٹھیک، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے ملک کے لوگ جنسی معلومات پر لکھی ہوئی کتابوں کو صرف لذت کے لیے پڑھتے ہیں، اسی طرح وہ نئے ادب سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ جنسی معلومات پر کتابیں طبعی اصول واضح کرنے کو لکھی گئی تھیں لیکن لوگ ان سے ”ادبی ذوق“ فرمانے لگے اور اسی طرح نئے ادب کو ناول اور افسانہ سمجھ کر مزہ لینا چاہتے ہیں۔ مگر بجائے اس میں چٹخارے دار مسالے کے جب کونین نکلتی ہے تو غریب ادیب کے جنم پر تھوکتے ہیں۔

آخر میں ایک بات نئے ادیبوں سے۔ ان فضول طعنوں کی پرواہ نہ کیجیے، یہ اعتراض کب نہیں ہوئے۔ کس نے نہیں کیے، سوائے دادی اماں کے لاڈلے بیٹوں کے کون ایسا ہے جس نے کبھی بزرگوں سے شاباشی وصول کی ہو؟ نوجوانی سے بزرگوں کو ہمیشہ نفرت رہی ہے اور رہے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ جو کچھ لکھتے ہیں، یہ بزرگوں کے لیے ہے بھی نہیں، کچھ کہیں تو ادب سے سر جھکا کر مسکرا دیجیے، لکھیے ضرور۔ جو کچھ آپ دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، سوچتے ہیں، وہ ضرور لکھیے۔ نہ زبان کی غلطیوں سے ڈریے، نہ اس بات سے ڈریے کہ کوئی آپ کو ادیب نہیں مانتا۔

اگر آپ جس دنیا میں رہتے ہیں، اس میں کچھ مسموم کانٹے ہیں، کچھ بھیانک درندے ہیں، کچھ خوف ناک کیڑے مکوڑے ہیں تو آئندہ نسل کے لیے اسے لکھ جائیے، اس کا سبق آپ ہی کے تجربے ہوں گے، آپ کے ہی مشاہدے ان کے ذہنی مشاہدات ہوں گے۔ اچھا، برا، کڑوا، کسیلا، سب کچھ لکھ دیجیے اور وہ خوراکیں جو ہمارے شریر مریض پینے سے انکار کر رہے ہیں اور بے طرح مچلتے ہیں، آئندہ نسلیں انھیں فخر یا احترام سے لیں گی، کیوں کہ آئندہ نسل زیادہ سمجھ دار، روشن دماغ اور اچھے برے کو پرکھنے والی ہو گی، اس کے لیے یہ خوراکیں بھاری نہیں ہوں گی۔ وہ نسل واقعے کو واقعہ سمجھ کر پرکھے گی، اس کے جذبات اس قدر بودے نہ ہوں گے جو عریانی اور سچی بات سے پھڑپھڑا جائیں، جیسے شیر کی بو پا کر گھوڑا بدکنے لگتا ہے۔ لکھیے اور اتنا لکھیے کہ یہ ان کے لیے بالکل معمولی بات ہو جائے اور ان جراثیم کو اپنے تیزاب جیسے ادبی مادے سے تباہ کر دیجیے اور یہی روئی کے گالے جن میں ایک چنگاری بھی پڑجائے تو بھک سے اڑجاتے ہیں، برف کے گالے بنا دیجیے جن سے انگارے بھی سرد پڑجائیں۔

اور چلتے چلتے ایک بات ان بزرگان قوم سے کہ یہ نوجوانوں پر اعتراض تو اب پرانا فیشن ہو گیا، اور پرانی چیز کو دفن ہی کر دیا جائے تو بہتر ہے۔ بے شک آپ کو برا لگتا ہے، اور آئندہ ادب ان موجودہ ادیبوں کو برا لگے گا۔ موت کسی کو اچھی نہیں لگتی۔ ان اصحاب کو کیوں کر بھول جاؤں جو خود تو خوب لکھ چکے ہیں اور اب تائب ہو گئے ہیں، نصیحت پر تل گئے ہیں۔ ایک صاحب تو بہت ہی بگڑگئے اور انھوں نے چند لاجواب اشعار بھی گنہ گاروں کو راہ راست پر لانے کے لیے لکھے، جن کی داد دیے بغیر رہا نہیں جاتا۔ مجھے بدقسمتی سے ان کا قافیہ اور ردیف اس وقت یاد نہیں رہا، مگر معنی جو دل پر نقش ہیں وہ یہ ہیں کہ ادیب ایسی فحش نگاری کرتے ہیں تو کیا ان کی ماں بہن نہیں ہوتیں۔

علاوہ شاعری کے، یہ نرالا اور گالی دینے کا مہذب طریقہ ہے اور مجھے از حد خوشی ہوئی کہ اور باتوں میں پیچھے سہی لیکن اس ہنر میں ہر ملک سے بہت ترقی کر چکے ہیں۔ ان حضرات سے دست بستہ عرض ہے کہ قبلہ، اگر ماں بہن نہ ہوتیں تو پھر مشاہدہ کہاں ہوتا؟ یہ ادب ہے، گپ اور خرافات تو ہے نہیں کہ نشہ پی کر لکھ ڈالا۔ آپ کہیں گے شرم نہیں آتی؟ جی سچ مچ کی تو نہیں آتی، اگر آپ کہیں تو رعایتاً شرمانے کو تیار ہیں۔ اگر مصور شرمانا شروع کر دیتے تو آج آپ کو آرٹ نظر نہ آتا۔ نئے ادیب آئینہ ساز ہیں، ہر شخص اس آئینے میں دیکھ کر شرما سکتا ہے۔ اوہ ہاں! بس ایک بات اور، اچھے فرماں بردار بچوں سے جو اخلاق اور تہذیب کے حامی ہیں، وہ ہرگز ہرگز نہ نیا ادب لکھیں اور نہ پڑھیں، کیوں کہ نیا ادب اخلاق اور تہذیب کی دھجیاں بکھیرتا ہے۔

یہ تو صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو بے خوف اور بے جگرے ہیں، جن کا ہاتھ بھی سڑجائے تو اسے کاٹ کر پھینک نہیں سکتے ہیں، کجا جھوٹی اور بناوٹی سوسائٹی، جو اس بات کی پروا نہیں کرتی کہ اخباروں نے بائیکاٹ کر دیا اور ادیب روٹھ گئے۔ اور وہ دن دور نہیں جب اس ادب کا ریزہ ریزہ لوگ پلکوں سے چن لیں گے۔ مورخین، اکنامسٹ اور محکمہ تعلیم والے اسے جمع کر لیں گے۔ اگر یہ موجودہ ادب موجودہ زمانے کی سچی تصویر ہے تو خود بخود عجائب خانے کی زینت بن جائے گا، اور اگر کوڑا کرکٹ ہے تو اپنے راستے لگ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).