قاتل ٹرول اور خوفزدہ صحافی


‘ٹرول‘ ایک ایسامہیب لفظ ہے جو ’ڈیئرپرائم منسٹرنریندرموی جی‘ کی معرفت ہم تک پہنچا اور اس کے اصل مفہوم اوررموزومضمرات سے واقف ہوئے۔ مودی جی نے ہندوستان کوبہت سے ’کاسمیٹک آئیڈیاز‘ دیے ہیں جو زمینی سطح پر ناقابل تنفیذ تھے ماسوائے ‘ ٹرول‘ کے جو اپنی تمام تر حشر سامانیوں اور سفاکیوں کے ساتھ صرف ملک میں نافذ ہی نہیں ہے بلکہ اب تک نامعلوم کتنے لوگ اس ٹرول کی وجہ سے رزق ِ خاک ہوگئے ہیں۔ مودی جی نے جب 2013 میں اپنی انتخابی مہم کا آغازکیا تو انہوں نے ملک کے بے روزگار، تعلیم یافتہ غنڈوں، منہ زوروں اور موالیوں کی یومیہ اجرت پر خدمات حاصل کیں اور انہیں ایک‘ آئی ٹی ہب‘ بنا کر‘آئی ٹی پروفیشنل‘ بنادیا جن کاصرف ایک ہی کام تھا کہ وہ صبح تا شام مودی بھکتی کا بھجن گائیں، رام اوتار کے سیاسی، سماجی اوراقتصادی مخالفین کے پیچھے پڑجائیں، ان کی کردارکشی کریں، نفرت پر مبنی مواد کی تشہیر کریں اور ہر اس شخص کی آواز خاموشی سے دبا دیں جس کے خیالات کی بازگشت ان کے تعصب ومنافرت پر مبنی نظام اعتقاد کے دروبام ہلاسکتی ہو۔

دوسرے آسان لفظوں میں ہر اس شخص کے پیچھے پڑجائیں جو ’مودی ویژن‘ کا مخالف ہو۔ یہ‘ مودی ویژن‘ ہندوتوا کی تنفیذ کے علاوہ اگر کچھ اورہے تو ابھی تک اس قاتل‘معشوق‘ پر سے پردہ نہیں اٹھ پایا ہے۔ یہ مودی ویژن اگراچھے دنوں کا کوئی مسودہ یا اعلامیہ ہے تو پھر بھگوان بچائیں کہ اتنے برے دن تو چلی، کولمبیا، افریقہ اور افغانستان جیسے پسماندہ ترین ممالک میں بھی نہیں ہیں۔ یہ برے دن وندے ماترم، گوڈسے، گؤکشی، ہجو می تشدد، موب لنچنگ، بے لگام مہنگائی، طوائف الملوکی، انارکی، مذہبی غنڈہ گردی اور عصمت دری جیسے واقعات کے عروج سے مشروط نہیں ہیں کیوں کہ یہ سب توپہلے سے ہوتا آرہا ہے کوئی آج کا فنومنا نہیں ہے جس پر تشویش میں مبتلا ہوں۔

کم ازکم مودی جی اور ان کے بدمست بھکت تو یہی کہہ رہے ہیں کہ جتنے اچھے کام ہوئے ہیں وہ صرف چار سال میں ہوئے ہیں اور جتنے بھی برے کام ہوئے ہیں وہ سب کانگریس کے دور میں ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ برے دن جس کی میں بات کررہا ہوں اور جو چلی، کولمبیا، اور افغانستان میں بھی نہیں پائے جاتے ہیں ہندوستان میں صحافیوں کی آزادی کے حوالے سے ہیں کہ آج ہندوستانی صحافت جس غیر اعلانیہ سینسرشپ کی شکار ہے اگرمودی جی کے اچھے دنوں میں یہی ہونا تھا تو پھر وہ برے دن ہی کون سے برے تھے کیوں کہ ان برے دنوں میں صحافیوں کو ’مودی ٹرول‘ کے خوف کی وجہ سے ’سیلف سینسرشپ‘ کے عذاب سے نہیں گزرنا پڑتا تھا۔ دشمن ایک مرئی صورت میں سامنے ہوتا تھا۔

مودی حکومت اندراگاندھی کے زمانے میں نافذ ایمرجنسی کو ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین باب کہتی ہے لیکن اس دور کو جینے والوں کاکہنا ہے کہ وہ ایک اعلانیہ ایمرجنسی تھی جس میں شہریوں سے سارے بنیادی حقوق سلب کرلئے گئے تھے اور یہی کام مودی راج میں اعلانیہ ایمرجنسی کے بغیرہورہا ہے۔ سو اچھے دنوں کے نام پر یہ ناقابل برداشت المیہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے صحافی برداشت کررہے ہیں اور ان کے پاس کوئی مفر نہیں ہے۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ ہندوستان ایک طرف خود کو دنیا کی بڑی طاقتوں میں شامل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے اور دوسری طرف عوام کو آزادی دینے کے معاملے میں 137 ویں مقام پر ہے۔ یعنی کہ ہم، یعنی کہ ہندوستان جیسا عظیم جمہوری ملک 136ممالک سے پیچھے ہے۔

یوں تو خاشاک و خذف ریز کے مانندان چھوٹے موٹے ممالک کی فہرست طویل ہے جو آزاد ئی اظہار رائے یا پریس کی آزادی کے معاملے میں ہماری درخشاں جمہوریت پر ایک طمانچہ ہیں لیکن یہاں میں نے جن ممالک کا ذکر کیا ہے وہ ہماری تنزلی کامحض ایک ادنیٰ اشاریہ ہیں۔ ٹرول کے ذریعہ صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے والے مودی بھکتوں کے لئے خوش کن بات یہ ہے کہ پاکستان، چین اور شمالی کوریا ہم سے پیچھے ہیں اور شرمناک بات یہ ہے کہ 136 ممالک ہم سے آگے ہیں اور ان میں 90 فیصد وہ ممالک ہیں جو دنیا کے نقشے پر مدور نقطے کی شکل میں اس طرح موجو د ہیں کہ اگر پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی کوشش میں کسی صاحب نظر کو آجائیں تو یہ سمجھ لیں کہ اس کی آنکھ انسان کی نہیں شیطان کی ہے۔

ہرچند کہ رپورٹرس ودھاؤٹ بارڈرس کے اس انڈیکس پر بالکل یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ یہ رپورٹ اعدادوشمار پر کم صحافیوں یا صحافیوں کی جماعت کی رائے اور رجحانات پر زیادہ مبنی ہوتی ہے اور پریس کونسل آف انڈیا نے اسی بنیاد پر اس کو مستردبھی کردیا ہے لیکن کم از کم ان اسباب و عوامل کو مسترد نہیں کیا جاسکتا جو صحافی کام کرتے وقت محسوس کرتے ہیں اور ررپورٹرس ودھاؤٹ بارڈرس کی رپورٹ میں انہیں رجحانات پرگفتگو کی گئی ہے کہ کس طرح آر ایس ایس کی تفریقی زعفرانی سیاست کے خلاف لکھنے والے دانشوروں اور صحافیوں کا ٹرول کے ذریعہ پیچھا کیا جاتا ہے اور کس طرح ’ ملک سے غداری‘ کے نام پرسیکولرمزاج دانشوروں اورمفکروں کے خلاف خوف ودہشت کا منظم اورمنصوبہ بند ماحول پیدا کیا جاتا ہے۔

آر ڈبلیو ڈی نے تکثیریت کی سطح، میڈیا کی آزادی، ماحول اور سیلف سینسر شپ، شفافیت، قانی فریم ورک، بنیادی ڈھانچے کا معیار وغیرہ کو پیمانہ بناکرہندوستان کو137واں مقام عطا کرتے ہوئے تبصرہ کیا ہے کہ ’ہندوقوم پرست ’ملک مخالف‘ خیالات کے تمام اظہاریئے کو قومی مباحث سے پاک وصاف کردینا چاہتے ہیں، قومی میڈیا میں سیلف سینسرشپ بڑھ رہی ہے اور انتہا پسند ہندو قوم پرست رسوا کرنے کی آن لائن مہم کے ذریعہ صحافیوں کو ہدف بنارہے ہیں۔ یہ آن لائن مہم وہی ہے جس کا ذکر میں ٹرول کے نام سے اوپر کرچکا ہوں۔

2017 سے اب تک ملک میں 11صحافی قتل ہوچکے ہیں، 46 صحافیوں پر جان لیوا حملے ہوچکے ہیں۔ اگر یہی اچھے دن ہیں تو پھر وہ ممالک بہتر ہیں جن کا اوپر ذکر ہوچکا ہے اور اس کے لئے کانگریس کو ذمہ دار بھی قرارنہیں دیا جاسکتا کہ ماحول کو کشیدہ کرنے میں 90 فیصد رول ٹرول کا رہا ہے۔ ٹرول دراصل ایک طرح سے ’ٹارگٹ کلنگ‘ جیسا ہوگیا ہے اور گوری لنکیش کا قتل اس کی ایک مثال ہے۔ ٹوئٹر، فیسبک اورواٹس اپ پر گروپ بناکر جعلی خبریں پھیلاکرعوام کو ہجومی تشدد کے لئے مشتعل کرنا اسی ٹرول کا نتیجہ ہے جس کا کریڈٹ ڈیئر پرائم منسٹر کے علاوہ کسی اور کو نہیں دیا جاسکتا۔

مودی کے ٹرول بریگیڈ کی یاد یوں تو آتی رہتی ہے کیوں کہ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب ’دیش بھکت جہلاء‘ کی ٹیم کسی صحافی، دانشور اور پروفیسرکو ٹرول نہ کررہی ہو لیکن آج بہت شدت سے اس لئے یاد آئی ہے کہ ملک میں 2019 کے پارلیمانی انتخابات کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں اور اب ان ’سرکش چراغوں ‘ کوجو اس ہوائے تیز و تند میں گودی میڈیا سے دور بہت دور طاق میں فروزاں تھے ایک ایک کرکے بجھایاجارہا ہے۔ نیوز چینل کے ان اینکروں کو ٹرول کیا جارہا ہے، انہیں ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے یا ان کے مالکین کو مجبور کیا جارہا ہے کہ ایسے کسی بھی اینکر کی خدمات حاصل نہ کریں جو ’آفیشیل ٹروتھ‘ یعنی سرکاری سچ پر یقین کرنے کے بجائے اس سچ کوعوام کے سامنے پیش کرنے پر ایمان رکھتا ہو جو مودی حکومت کی صحت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

معروف ماہر آئین فلی ایس نریمن نے کہا تھا کہ ’تقریر کے بعد کی آزادی یہی اصل آزادی ہے‘ اور بدقسمتی سے یہی آزادی حاصل نہیں ہے۔ اس وقت ملک میں جرات مندانہ صحافت کے نام پر گنے چنے صرف دو پانچ ادارے ہیں اور یہ ادارے کب تک آزاد رہیں گے اس کا فیصلہ اب قانون و عدلیہ، جمہور یا عوام نہیں بلکہ وقت کرے گا، وہ وقت جو اس وقت جبر و عفریت کے نصف النہار پرہے اور معلوم نہیں کہ اس کا سورج 2019 کے پارلیمانی انتخاب کے بعد مودی کے نام سے طلوع ہوگا یاراہل گاندھی کے نام سے۔ المیہ یہ ہے کہ میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح سرکار کو نفع و نقصان سے ماوراہوکر کا م کرنا ہے ٹھیک وہی کام میڈیا کو کرنا تھا لیکن بدقسمتی کہہ لیں کہ اب یہ جمہوریت کا چوتھا ستون نہیں کارپوریٹ ہاؤسز کا ’پریسٹی ٹیوٹ‘ (Presstitue) ہوگیا ہے۔

فی الحال تو اس گھٹن، جبر اور آہنی حصارسے باہر نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی ہے کیوں کہ خوف کی شکل ہمارے سامنے واضح نہیں ہے۔ اس وقت تو سب سے پہلا خوف ٹرول (ٹارگٹ کلنگ) کی شکل میں ہے اور صرف متن کی صورت نظرآتا ہے آدمی کی صورت نہیں۔ گوری لنکیش کو جس طرح سے قتل کیا گیا ہے وہ ہمارے سامنے ہے، پنیہ پرسنہ واجپئی کو جس طرح سے نکالا گیا ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے لیکن ٹرول چلانے والے وہ منہ زور غنڈے اور موالی ہمارے سامنے نہیں ہیں اور نہ ہی ان کو ٹریس کرنے کے اختیارات ہمارے پاس ہیں۔ سارے اختیارات حکومت کے پاس ہیں اور حکومت انہیں ’ٹرولیوں ‘ کی ہے۔

جب جب سچ کی روشنی حکومت کی آنکھ تیز آلے کی طرح چیرتی جائے گی تب تب ’ٹرول‘ کو استعمال کیا جائے گا، ٹرول جس کی کوئی شکل نہیں ہوتی، صرف کچھ الفاظ ہوتے ہیں، کچھ خوف کے سائے پلتے اور بڑھتے ہیں اور خوف کے انہیں سایوں میں کچھ سائے خون آلود اور کچھ بھاگتے ہوئے نظرآئیں گے۔

محمد ہاشم خان، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد ہاشم خان، ہندوستان

مصنف افسانہ نگار ناقد اور صحافی ہیں، ممبئی، ہندوستان سے تعلق ہے

hashim-khan-mumbai has 15 posts and counting.See all posts by hashim-khan-mumbai