اچھلتے تاج اور لرزتے تخت اس جمنا نے دیکھے ہیں


اچھلتے تاج اور لرزتے تخت اس جمنا نے دیکھے ہیں
یہ اس وقت ہنستی ہے جب دولت و جاہ مغرور ہوتا ہے
اندرپرستھ کہے یا شاہجہان آباد دلی، قدم سے قدم ملاتی، لہراتی، بل کھاتی اور اٹھکیلیاں کرتی جمنا ندی اپنے کناروں کے باسیوں کے سکھ دکھ میں شریک ہوتی رہی ہے۔ جمنا کا خیال آتے ہی ان بے شمار تہذیبوں کا خیال آتا ہے, جس کے کنارے کبھی اس کے سائے میں آباد رہتے تھے۔ جمنا نے ان گنت تہذیبوں کو جنم دیا اور اس کی بے شمار داستانوں کی گواہ رہی ہے۔ جس نے اپنی لہروں میں تاج محل کا چمکتا عکس سمویا ہے اور انسان کے غلط کرموں کو بھی اپنی آغوش میں چھپایا ہے۔
جمنا گر چہ ایک ندی کا نام ہے لیکن اس سے بے شمار یادیں، باتیں اور داستانیں وابستہ رہی ہیں۔ سکندر اعظم کا کروفر ہو یا چندر گپت کا طاقت ور عہد، سلاطین دہلی کی سطوت ہو یا پھر مغلوں کی عظمت رفتہ، انگریزوں کا دور یا پھر جدید ہندوستان کے سیاسی اقدار، جمنا ان سب کے رازوں کی امین اور گواہ رہی ہے۔ جمنا نے کبھی کسی کو آئنہ نہیں دکھایا، ادوار کی دمک اور تاریکی پر بحث کرنے کی بجائے جمنا اسے ہمیشہ اپنے اندر پناہ دیتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے میں صرف اس کے آس پاس رہنے والے ہی نہیں بلکہ وہ بھی جنھوں نے صرف اس کو دیکھا یا جنھیں اس کے کناروں سے ہوکر گزرنے کا کبھی اتفاق ہوا، اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔
شمشیر کے مانند یہ مڑتی ہوئی جمنا
یہ آب کہ جو پگھلے ہوئے زر سے بنا ہے
شاعروں سے لے کر ادیبوں تک سبھی نے اس دریا کی عظمتوں کے گن گائے اور اس پر الفت و محبت کے ترانے رقم کیے۔ شاعر ظفر کمالی کہتے ہیں:
امرت سے بھی بڑھ کر ہے گنگا جمنا کا پانی
جو بھی اس پانی کو پی لے بولے میٹھی بانی
ہندوستان کی تاریخ جتنی پرانی ہے، اتنی ہی جمنا کی بھی، جمنا ویدوں کے عہد سے گنگا کے ساتھ بہتی ہے جسے ہندو سنسکرتی میں پوتر ندی مانا گیا ہے۔ یہ شمالی ہند میں بہنے والی سب سے لمبی ندیوں میں سے ایک ہے۔ اس ندی کی لمبائی تقریبا 1376 کلو میٹر ہے۔ اسے گنگا کی سب سے بڑی معاون ندی کے روپ میں بھی جانا جاتا ہے۔ یہ کوہ ہمالیہ کے علاقہ جمنوتری سے نکلتی ہے جو 850 میل جنوب کی جانب بہتی ہوئی الہ آباد کے مقام پر دریائے گنگا سے جا ملتی ہے۔ ہندو اس مقام کو بہت متبرک خیال کرتے ہیں۔
دہلی، برنداون، متھرا اور آگرہ سمیت کئی اہم شہر اس دریا کے کنارے آباد ہیں۔ جس کی گود میں جامع مسجد سے لے کر تاج محل، الہ آباد کے مانکیشور مندر اور کاشی گھاٹ تک نہ جانے کتنے ہی آثار جلوا فگن ہیں۔ جہاں عقیدت و احترام کے ساتھ لوگ جاتے اور اپنے چشم و روح کو سکون بخشتے ہیں۔
جمنا سے جڑی کئی باتیں آج بھی اہم مانی جاتی ہیں، ہندو عقیدے کے مطابق یہ ندی کرشن کے بچپن سے ان ترنگ روپ سے سمبندھت ہے۔ جہاں انسان غسل کرکے اپنے ناکردہ گناہوں کو کم کر سکتا۔ تاریخ کے اوراق پلٹیے تو معلوم ہوتا ہے کہ پانڈوؤں کی راج دھانی اندر پرستھ جمنا کے کنارے پر واقع تھی۔ جمنا پریاگ میں گنگا سے ملتی ہے، جو ہندوستانی باشندوں کے لیے سب سے اہم جگہوں میں سے ایک ہے۔ یہاں ہر بارہ سال پر کمبھ میلہ منعقد ہوتا ہے جو ہندوؤں کے نزدیک بہت مقدس تسلیم کیا جاتا ہے، ہندو عقیدے کے مطابق اس مخصوص موسم میں غسل کر کے انسان اپنے گناہوں سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔
مگر اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس قدر عظیم اور تاریخی وراثت کی حامل ندی ہونے باوجود بھی جمنا ہندوستان کی سب سے سے گندی ندی ہے۔ مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ آف انڈیا کے دعوے کے مطابق جمنا کا تقریبا 600 کلو میٹر حصہ آلودہ ہے۔ اتنا ہی نہیں دہلی میں ہی جمنا ندی میں زیادہ تر کچرا پھینکا جاتا ہے۔ ساتھ ہی زہریلے مادے اور سیوریج کا پانی بھی جمنا میں ہی شامل ہورہا ہے۔
حکومت کی جانب سے اس کے لیے کئی پروجیکٹ شروع کیے گئے ہیں لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے ہیں، ایسے میں عام شہریوں اور اس کی گود میں آباد لوگوں کو اس پر دھیان دینا ہوگا، اور جمنا کو بچانے کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ خود عام شہریوں کوبھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی، اگر ہم ایسا کرنے میں کام یاب ہوتے ہیں، کوڑا، کچرا، گندگی اور خطرناک کیمیکل سے جمنا کو پاک رکھنے میں ہم معاون بنتے ہیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ ہم صرف جمنا ہی کو نہیں بچا پائیں گے بلکہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پا سکیں گے اور اس کے مثبت اثرات ہماری صحت پر بھی پڑیں گے، دیکھنا یہ ہے کہ آخر ہم کب ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔
محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah