علم ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے


دور جدید کی ایک بڑی خوبی انسانوں کے بڑھتے ہوئے باہمی تعلقات ( connectivity ) ہیں۔ جتنا ایک سوسائٹی ماڈرن ہے اتنا ہی وہ دوسری سوسائٹیز سے جڑی ہوئی ( connected ) ہے یعنی گلوبلائزڈ ہے۔

اس باہم ربط کا ایک بڑا اثر علم کی دنیا پر بھی ہوا ہے۔ ایک چیز دریافت یا ایجاد ہوتی ہے یا کوئی تصور کسی قابل ذہن میں سرگوشی کرتا ہے، چند ہی گھنٹوں میں دنیا بھر کے وہ تمام لوگ اس سے واقف ہو جاتے ہیں جنہیں اس خاص موضوع میں دلچسپی ہوتی ہے۔

دنیا کے تمام بڑے اخبارات و رسائل کو دیکھیں کتنے الفاظ روزانہ کی بنیاد پر چھپ رہے ہیں۔ سالانہ شائع ہونے والی کتابیں دیکھ لیں۔ دنیا میں شائع ہونے والے کل ریسرچ جرنلز کو گننا ہی بہت مشکل ہے۔ میری رائے میں سب سے محتاط سائنسی تحقیق ریسرچ جرنلز میں شائع ہوتی ہے۔ کتابیں دیکھ لیں۔ ریسرچ پیپرز اور کتابیں برسوں کی انسانی تخلیقی محنت اور تجربہ کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ میری ایک کتاب دو ہزار سترہ کے اوائل میں شائع ہوئی۔ اسے تحریر و اشاعت میں لانے میں مجھے تقریبا ڈیڑھ سال لگے جبکہ پولیٹیکل اکانومی جو اس کتاب کا موضوع ہے گزشتہ آٹھ سال سے میری تحقیق کا مرکزی میدان ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں یہ اربوں کی تعداد میں سالانہ شائع ہونے والے قیمتی الفاظ جنہیں محققین نے برسوں سوچا اور انتہائی احتیاط سے منتخب کیا ہوتا ہے، کہاں جا رہے ہیں؟ کیا یہ انسانی ذہن و معاشرہ پر اثرانداز ہو رہے ہیں؟ اگر ہاں تو کس نسبت میں یعنی کتنا؟

پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے پہلے تحریر چاہے وہ مذہبی تھی یا غیر مذہبی، اسے مقدس سمجھا جاتا تھا۔ معلوم لٹریچر کی رو سے لارڈ ایکیانوس پہلا شخص تھا جس نے متن کو خاموشی سے (جسے ہم دل ہی میں دل میں پڑھنا کہتے ہیں) پڑھا جبکہ اس سے پہلے رواج تھا کہ متن کو بلند آواز میں پڑھا جائے۔ اس کا ایک بڑا سبب تحریر یا متن کی حرمت تھی۔ آج تحریر مقدس نہیں سمجھی جاتی جس کا بڑا سبب اس کی بہتات ہے۔ یہاں تک کہ مقدس مذہبی متن کو جو اخباروں رسالوں اور کتابوں میں شائع ہوتا ہے اسے سنبھال کر رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد تحریر اہم نہیں رہی بلکہ اس کی جگہ معانی یعنی فکر و دانش اور دانائی کو زیادہ اہمیت ملی ہے۔ بے معنی لفظ بے کار ہے۔ لفظ نہیں معانی کو عزت ملی۔ پرنٹنگ پریس نے کتابوں رسالوں اور اخبارات کو گلی محلے سمیت ہر اس جگہ پہنچا دیا جہاں اس کا قاری موجود تھا۔ الفاظ کی جگہ جب معنی کو عزت ملی تو روشن خیالی (Enlightenment ) کی فکری تحریک نے اول اقوام مغرب میں اور پھر اس کے بعد ساری دنیا میں دیگر افکار کے مقابلے میں خود کو منوایا۔

سنتے ہیں کہ ہر آمریت کو تحریر سے بہت خطرہ رہا ہے۔ دور جدید میں اس کا عملی مظاہرہ ہم نے ہٹلر کی آمریت میں دیکھا۔ جب ہزاروں کتابوں جلائی گئیں تھیں اور سیاسی اختلاف پر شدید ترین سنسر لگا دیا گیا تھا۔ یہی معاملہ سوشلسٹ سوویت یونین میں ہم نے دیکھا۔ عہد حاضر میں چینی عوام جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس سنسر شپ کا سامنا کر رہی ہے۔ پاکستان میں بھی بدترین فوجی آمریت نے الفاظ سے معانی چھیننے کے لئے اس پر سنسر شپ نافذ کی۔ یہی معاملہ ہم پاکستان میں آج کل کی سیاسی صورتحال میں بھی دیکھ رہے ہیں یعنی الفاظ کی بہتات ہے مگر معانی پر پہرہ ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا الفاظ و معانی پر آج مکمل سنسر شپ ممکن ہے۔ ہرگز نہیں۔ آج سوشل میڈیا ہے اور انٹرنیٹ کی دنیا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں اس وقت موبائل فون میں انٹرنیٹ سروس رکھنے والے شہریوں کی تعداد چالیس ملین سے زائد ہے جو کہ چار کروڑ سے زائد بنتے ہیں۔ آپ اخبار اور ٹی وی پر سنسر شپ لگائیں گے، مگر الفاظ و معانی کی رسائی ان چار کروڑ شہریوں تک موجود رہے گی۔

اس معاملے کو ایک غیر سیاسی زاویے سے بھی دیکھتے ہیں کہ آیا علم تک اتنی رسائی کا ہمارے علمی ارتقاء پر کیا اثر پڑا ہے؟ میرا مشاہدہ ہے کہ انسان کے سیکھنے کا عمل سست رفتار ہے۔ ہم دانائی کو آہستہ آہستہ جذب کرتے ہیں۔ آج علم و انکشافات کا سورج بھرپور انداز سے چمک رہا ہے اور ہم اس کی روشنی میں نہائے ہوئے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس ساری روشنی کو پوری فکری توانائی کے ساتھ جذب بھی کر رہے ہیں؟ میرے خیال میں نہیں۔ یہاں ہماری انسانی استعداد بہت بڑی رکاوٹ بن کر ہمارے سامنے آ رہی ہے۔

لارڈ رسل نے ایک جگہ لکھا ہے کہ فلسفہ میں اختلاف کا ایک بڑا سبب لینگویج اور ابلاغ (Communication ) کی پیچیدگیوں کے سبب ہے۔ ہر فلسفی اپنے خیالات کو الفاظ کے سپرد کرتا ہے اور قاری ان الفاظ سے معانی اخذ کرتا ہے۔ رسل کے نزدیک اگر تمام فلسفی مل بیٹھیں اور ان کے درمیان لینگویج اور ابلاغ کی رکاوٹیں ختم ہو جائیں تو وہ عموما ایک دوسرے سے اتفاق کرتے پائے جائیں گے۔ ول ڈیورانٹ بھی رسل سے اتفاق کرتا ہے اور ابلاغ کی خامیوں (Miscommunication) کو اتفاق رائے میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ بدقسمتی سے عصر حاضر میں یہ رکاوٹیں مزید بڑھی ہیں جن کا ایک بڑا سبب اگر ابلاغ کے مسائل ہیں تو دوسرا بڑا سبب علم کا ٹکڑوں میں تقسیم ہو جانا ہے جس کی وجہ سے محققین اپنے اپنے دائروں میں مقید رہنے پر مجبور ہیں۔

کچھ دن پہلے مشہور معیشت دان نوح سمتھ نے بلومبرگ میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ اکنامکس کا علم آہستہ آہستہ ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا جا رہا ہے اور پوری اکنامکس کو ایک وحدت (Unity) میں سمجھنے کا رجحان کم ہو رہا ہے۔ میں نے ان سے ٹویٹر ان باکس میں پوچھا کہ کیا اس کا سبب یہ تو نہیں کہ اکنامکس کی ہر شاخ پر اتنا کچھ شائع ہو رہا ہے کہ ہم اسے پڑھنے اور سمجھنے سے ہی فارغ نہیں ہو پاتے کجا یہ کہ دوسری شاخ کی فکر کریں اور اسے غور و فکر کا موضوع بنائیں۔ انہوں نے میری بات سے اتفاق کرتے ہوئے اسے ایک بڑا سبب قرار دیا مگر انہوں نے علم میں وحدت (Unity ) کے تصور پر شک کا اظہار ضرور کیا۔

اکنامکس کو ہی اگر ہم لیں جو راقم کے مطالعہ کا خاص میدان ہے۔ یہ بہت مشکل ہو گیا ہے کہ ہم کلاسیکل عہد کے لٹریچر کو بھی سمجھیں، گزشتہ صدی میں شائع ہونے والے لٹریچر کا بھی مطالعہ کریں، عہد حاضر کو بھی پڑھیں اور ہر نئی تحقیق (چاہے وہ معاشی تاریخ سے متعلق ہو یا پولیٹیکل اکانومی سے متعلق، میکرو اکنامکس سے متعلق ہو یا مائکرو سے متعلق، فنانشل اکنامکس سے متعلق ہو یا لیبر اکنامکس سے متعلق یا اکنامکس کی بہت ساری دیگر شاخوں سے اس کا تعلق ہو) سے مکمل باخبر (Update) رہیں۔ ، یہ سب بہت مشکل ہو گیا ہے۔ یہ تو صرف میں نے اکنامکس کی بات ہے۔ اگر تمام سوشل سائنسز، فزیکل سائنسز، فلسفہ، ادب اور تاریخ وغیرہ ان سب کو ایک ساتھ لے کر چلنا ہو تو یہ بڑی حد تک ناممکن ہو گیا ہے۔ یعنی علم میں وحدت کا تصور اب سراب ہی لگتا ہے۔ یاد رہے کہ روشن خیالی (Enlightenment ) کے کلاسیکل عہد (سترھویں، اٹھارویں اور انیسویں صدی ) کی سب سے بڑی خوبی ہی یہی علم میں وحدت کا تصور تھا جس نے تحریک احیاء العلوم کامیابی سے برپا کی اور فکر کو عمل کا امام بنایا۔

مستقبل قریب کا دور مصنوعی مشینی ذہانت (Artificial Intellegence ) کا دور ہے۔ اس آنے والے دور کے ماہرین کی ایک بڑی تعداد صحیح کہتی ہے کہ صرف ٹیکنالوجی میں ہی نہیں بلکہ انسانی صلاحیتوں میں بھی اضافہ کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے خیال میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے ایسی ٹیکنالوجی متعارف کروائی جائے گی جو انسان کو سپر ہیومن کے تصور کی طرف بڑھائے گی یعنی انسانی صلاحیتوں میں اضافہ ہو گا۔ اسی طرح Big data کے حامی ہمیں امید دلاتے ہیں کہ ڈیٹا علم میں وحدت کے تصور کو عملی جامہ پہنائے گا مگر محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جتنا انسانی معاشرہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے ڈیٹا کی تشریح بھی اتنی مشکل ہو رہی ہے اور اس ضمن میں بنائے گئے شماریاتی ماڈلز عملی زندگی میں بے کار ہوتے جا رہے ہیں۔ مگر امید تو کی جا سکتی ہے کہ دور جدید کی تحقیقات اور ایجادات سے شاید انسانی علم، ذہانت، لرننگ (Learning) اور دانائی کو بھی لمبی جست ملے اور ہم علم کی تمام شاخوں میں وحدت کے تصور سے کسی روز پھر سے آشنا ہو سکیں۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan