کیا دیامر واقعہ حکومتی غفلت کا نتیجہ ہے؟


مملکت پاکستان میں اس وقت ایک طرف وفاق اور چاروں آئینی صوبوں میں 2018 کے عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کے عمل کے لئے سیاسی گھڑ جوڑ عروج پر ہے تو دوسری جانب گلگت بلتستان جیسے بے آئین خطے دہشتگردانہ کارروائیوں کی لپیٹ میں ہیں۔ نامعلوم شرپسندوں کی جانب ابتدائی طور پر گلگت بلتستان کے سب سے پسماندہ ضلع دیامر میں ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ایک ہی رات درجن سے زائد سکولوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان میں زیادہ تر تعداد لڑکیو ں کے سکولوں کی بتائی جارہی تھی۔

بعض سکولوں کی عمارتوں کو نذر آتش کیا گیا، کچھ میں توڑ پھوڑ کی گئی اور چند ایک سکولوں کو بم سے اڑانے کی بھی اطلاعات موصول ہوئیں۔ واقعہ کی خبر چند لمحوں میں سوشل میڈیا اور ٹی وی چینل کی وساطت سے جنگل کے آگ کی مانند پوری دنیا میں پھیل گئی۔ نگران وزیراعظم سے لے کر متوقع وزیراعظم، بلاول سے لے کر شہباز شریف، ملالہ سے لے کر ملیحہ، وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے لے کر فورس کمانڈر ناردرن ایریاز سب نے ان واقعات کی بھرپور مذمت کی۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اسے دیامر بھاشا ڈیم کے خلاف ایک بڑی سازش قرار دے کر سوموٹو ایکشن لیا۔ دیامر کے مختلف مقامات پر واقعے کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ مظاہرین نے اسے علاقے کے تابناک مستقبل پر حملہ قرار دیا۔

لیکن نہ جانے ضلعی انتظامیہ دیامر کو ایسی صورتحال میں اصل حقائق پر پردہ ڈالنے میں کیا عافیت جانی کہ فوری طور پر ایک پریس ریلیز کے ذریعے کہا گیا کہ شرپسندوں کی جانب سے ضلع میں بعض زیر تعمیر اور بعض تکمیل کے قریب سکولوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ مگر علاقے کے آزاد ذرایعے نے ضلعی انتظامیہ کے اس بیان سے اس لئے اتفاق نہیں کرتے کہ تباہ شدہ سکولوں میں بعض سوشل ایکشن پروگرام (سیپ) کے تحت چلنے والے سکول بھی شامل تھے جنہیں پرویز مشرف کے دور اقتدار میں عالمی بینک کی مالی معاونت سے تعمیر کیا گیا تھا۔ تاہم اس حقیقت سے انکاری نہیں کہ دیامر سمیت پورے گلگت بلتستان کے تمام سرکاری تعلیمی ادارے ان دنوں گرمیوں کی تعطیلات کے سلسلے میں درس و تدریس کے لئے بند ہیں۔ بند نہ بھی ہوں تو رات کے اندھیرے میں ان عمارتوں میں ویسے بھی سناٹا چھا جاتا ہے۔ لہذا شرپسندوں نے آرام سے اپنی کارروائی مکمل کر لی ہوگی۔

اگرچہ دہشتگردی کے ان واقعات میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا مگر قومی و بین الاقوامی سطح پر گلگت بلتستان کی سبکی ضرور ہوئی۔ وہ اس لحاظ سے کہ نقصان چاہے ایک سکول کا ہو یا درجنوں سکولوں کا، خبر یہ پھیل گئی کہ گلگت بلتستان میں تعلیمی اداروں پر دہشتگردانہ حملے ہوئے۔ وہ بھی لڑکیوں کے سکولوں کا تذکرہ ہونے پر تو خبر میں مزید سنسنی پیدا ہو گئی۔ چنانچہ اس سے گلگت بلتستان کی معیشت اور سیاحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔

اس واقعے کی جوابی کارروائی کے طور پر گلگت بلتستان پولیس نے دیامر کے علاقے داریل اور تانگیر میں مبینہ شرپسندوں کے خلاف فوری اپریشن کا آغاز کر دیا جس کے نتیجے میں حکام کے بقول ایک شرپسند ہلاک اور درجنوں مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ جبکہ اپریشن کے دوران مبینہ شرپسندوں کی فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار عارف حسین نے جام شہادت نوش کر دی۔ چنانچہ اس واقعے سے دنیا کو یہ تاثر گیا کہ گلگت بلتستان اب دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے۔

اگرچہ دیامر کی تاریخ میں شرپسندی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں نہ ہی یہ آخری واقعہ ہو سکتا ہے۔ یہاں پر ماضی قریب میں ایسے ایسے انسانیت سوز واقعات رونما ہوئے جن کا تذکردہ کرتے ہوئے بنی نوع انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ واقعات چاہے بسوں سے اتار کر بے گناہ مسافروں کے قتل عام کی صورت میں ہوں یا غیر ملکی سیاحوں کا خون ناحق بہانے کی شکل میں، ملکی دفاع پر مامور سیکورٹی اہلکاروں کو گولیوں سے چھلنی کرنے کی صورت میں ہوں یا مسلکی شناخت کی بنیاد پر لوگوں کا گلہ دبانے کی شکل میں ہوں۔ یہ سب واقعات خطے کی تاریخ کے سیاہ باب ہیں۔ جنہیں جتنی قیمتی صابن یا سرف سے دھونے کی کوشش کی جائے پھر بھی مٹائے نہیں جا سکتے کیونکہ تاریخ ایک مرتبہ رقم ہونے کے بعد پھر مٹائی نہیں جا سکتی۔

البتہ ماضی کی تاریخ سے سبق حاصل کر کے مستقبل کی حکمت عملی مرتب کی جا سکتی ہے بشرطیکہ حاکم وقت کو اس حکمت عملی سے متعلق شعور ہو۔ ورنہ حافظ حفیظ الرحمن جیسا حکمران ہو تو دہشتگرد گلی محلوں میں داخل ہونے تک بھی وہ یہ دعویٰ کرنے سے باز نہیں آئیں گے کہ گلگت بلتستان “ایشیا انڈکس” میں سب سے پر امن ترین خطہ ہے جس کا کریڈیٹ مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت کو جاتا ہے۔

دیامر میں رونما ہونے والے حالیہ واقعے کا سار ا ملبہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت پر ہی گرتا ہے۔ اس میں وفاقی حکومت کا قصور اس لئے نہیں کہ وفاق کی جانب سے اس واقعہ سے کم و بیش چھ ماہ قبل گلگت بلتستان انتظامیہ کو خطے میں ممکنہ دہشتگردی کے خطرے سے متعلق باضابطہ طور پر آگاہ کیا گیا تھا۔ وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے رواں سال 28 جنوری کو جاری کردہ خط میں یہ واضح لکھا گیا تھا کہ روایتی حریف ملک بھارت کی جانب سے گلگت بلتستان میں چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک) کی اہم تنصیبات اور شاہراہ قراقرم پر دہشتگردی کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے۔ لہذا گلگت بلتستان حکومت کسی بھی ممکنہ واقعے سے نمٹنے کے لئے اپنی تیار ی شروع کر دے۔

خط میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ بھارت کی جانب سے اس مقصد کی خاطر چار سو سے زائد مسلمانوں کو افغانستان میں تربیت کے لئے بھیجا گیا ہے جنہیں تربیت کی تکمیل پر سی پیک سے متعلق تنصیبات کو نشانہ بنانے کا ہدف دیا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزارت داخلہ کے اس خط کو نہ صرف پاکستانی بلکہ انڈین میڈیا میں بھی خوب اچھالا گیا۔ مگر کسی بھی ممکنہ دہشتگردی سے نمٹنے کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ نتیجاً پاکستان، دیامر بھاشا ڈیم اور سی پیک کے دشمن اپنے مذموم عزائم کے ساتھ خطے میں انٹری مارنے میں کامیاب ہوگئے جبکہ گلگت بلتستان حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔

دیامر واقعے کے جوابی کارروائی کے دوران گرفتارکیے جانے والے مبینہ ملزمان کو گلگت بلتستان پولیس کی جانب سے افغانستان سے تربیت یافتہ قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ سی پیک کے مرکزی روٹ کا گلگت بلتستان کے حدود سے گزرنا پاکستان دشمن قوتوں سے ہضم نہیں ہو رہا۔ تاہم شرپسندوں کی جانب سے تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچانے کے خلاف دیامر کے عوام کا احتجاج سے ملک دشمنوں کے لئے ایک واضح پیغام ہے کہ دیامر کے لوگ سادہ لوح ضرور ہیں مگر اس سادگی سے مراد کسی دشمن قوت کا اہلکار بننا ہر گز نہیں۔ دیامر کے عمائدین کی جانب سے علاقے میں چھپے شرپسندوں کی گرفتاری کے سلسلے میں گلگت بلتستان انتظامیہ اور پولیس سے تعاون علاقے کے عوا م کی حب الوطنی اور امن پسندی کی ایک زندہ مثال ہے۔

اس مثال کو مذید تقویت دینے کے لئے گلگت بلتستان کی صوبائی اور وفاقی حکومت کو دیامر میں تعلیمی پسماندگی کے خاتمے اور امن و بھائی چارے کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے لئے ایک جامع حکمت عملی کے تحت کام کرنے ضرورت ہے۔ جبکہ دیامر کے عوام پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دشمن قوتوں کے سد راہ بن کر علاقے کے امن اور روشن مستقبل کو سبوتاژ کرنے والوں کو اپنے صفوں سے نکال کر باہر پھینک دیں۔ ورنہ وقتی طور چند ملزمان کی گرفتاری عمل میں لاکر فتح کے جھنڈے گھاڑنے سے علاقے میں دیرپا امن اور پائیدار ترقی ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).