تبدیلی کا شعور سو ر ہا ہے


ملکی سطح پر منظر نامے کی تبدیلی کے اتار چڑھاؤ کو دیکھنے میں منہمک، تمام تر انتظامات کے باوجود قومی اور صوبائی اسمبلی کے لئے اکثریت کے گھن چکر میں مزید کھلاڑیوں کی تلاش میں جتے، اصولی سیاست کے علمبرداروں کی کہہ مکرنیوں کو ملاحظہ کرتی قوم، کل کو برملا ٹھکرائے جانے والے لیڈروں اور سیاسی جماعتوں کو آج جس طرح آغوش میں لیا جا رہا ہے، اوران کے لئے ہمنواؤں کی جانب سے دلائل کے طومار باندھے جا رہے ہیں۔ وہ حقیقت میں کسی طرفہ تماشے سے کم نہیں ہیں۔ قوم کے لئے اس تبدیلی کا انتخاب کرنے والی قیادت جو ہمیشہ ایسے اتحادوں اور گٹھ جوڑ کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے۔ ایسے اتحادوں کو محض اقتدار کے حصول کا ذریعہ قرار دیتی رہی ہے، اب خود اسی گرداب میں گھر کر رہ گئی ہے۔ جس سے یہ بات واقعی میں عیاں ہوچکی ہے، کہ یہاں اصول، افکار، نظریات، اعلی نصب العین، بس تقریروں اور نعروں کی حد تک ہی ہوتے ہیں، ہمارے یہاں کے لیڈروں کو بس کبھی بھی اور کسی وقت بھی موقع ملنے کی دیر ہوتی ہے، وہ سب افکارو نظریات پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں اور کرسی کا حصول اولیت اختیار کر جاتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آزاد پنچھیوں کو کسی شکاری کی طرح اچکنے اور انہیں کس طرح فیصلے کرنے پر مجبور کرنے کی سعی کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پرہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کیسے کیسے چہرے تبدیلی کا مفلر گلے میں لٹکانے کی سعادت حاصل کررہے ہیں، جب کہ انتخابات کے دوران آخر دم تک یہی دہرایا جاتا رہا کہ آزاد امیدواروں کی یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔

اس تناظر میں ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ تبدیلی کے دعویداروں کا وہ شعور بھی کہیں سوگیاہے جو کل کو بڑے فخر سے یہ کہتا سنائی دیتا تھا کہ “دیکھا تبدیلی کا ورکر کتنا باشعور ہے کہ اس نے ایک ریپ کے مجرم کی شمولیت پر کس طرح چیئرمین کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیا “ آج “شعور کا دعویدار وہ طبقہ “ بھی اس “ فاؤل “ پر کہیں آنکھیں بند کر کے خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے ہے۔ جب کہ کچھ من چلے ان کے لئے کچھ ایسے دلائل بھی دے رہے ہیں کہ جب یہی کام دوسرے کرتے تھے تو کیا وہ جائز تھا؟ یعنی وہ دوسروں کے ناجائز کاموں میں اپنے لئے جواز تلاش کر رہے ہیں، واہ کیا منطق ہے؟ اچھا تو صاحب! جب آپ نے اپنے سے پہلے والے کرپٹ عناصر کی ہی پیروی کرنی ہے اور انہی کرپٹ عناصر کی بارات میں ہی جلوہ فگن ہونا ہے، تو پھر آپ کی وہ “ تبدیلی “ کے دعوے کیا ہوئے؟ جس کے لئے آپ نے اتنا بکھیڑا کیا اور آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا، جب وہی کام آپ نے بھی کرنا ہے تو آپ میں اور “ ان “ میں کیا فرق رہ گیاہے؟ مگر جوش جنوں میں خرد کا ہوش کسے ہے۔

پھر یہ واویلا بھی کیا جا رہا ہے کہ دیکھو سب اس “ تبدیلی “ کے خلاف متحد ہوگئے ہیں اور ہم “ اکیلے “ ہی کافی ہیں، یہ کیسا اکیلا پن ہے، جس میں ہر طرف سے عجوبہ روزگاروں کی بڑی کھیپ کو جمع بھی کیا جارہا ہے، آزاد ارکان کو اس طرف ہانکا بھی جا رہا ہے۔ آزادامیدواروں سمیت آٹھ جماعتوں کو ساتھ ملانے کے بعد بھی خود کو اکیلے کے طور پہ پیش کرکے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا بھی شاید تبدیلی کا ہی خاصہ ہے، جب کہ مدمقابل صرف پانچ جماعتیں ہیں جو متحدہ اپوزیشن کریں گی۔ وہ نظریہ، وہ نعرے اور سوچ تو سب ایک ہی جھونکے میں اڑ گئے، وہ سب تو ریت کی دیوار ثابت ہوئے، اب اگلا ڈرامہ کیا ہوگا اس کو سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوسکتا۔

بہرحال ابھی تو ابتدائے عشق ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ عام انتخابات کے بعد جو بے یقینی اور بیشتر سیاسی جماعتوں کی طرف سے عدم اعتماد اور دھاندلی کے حوالے سے جو کچھ سامنے آرہا ہے، اسے دیکھ کر ایک عام آدمی جو سیاسی وابستگیوں سے بالاترہو، اس کے لئے یہ صورتحال کسی طرح بھی اطمینان بخش نہیں ہوسکتی۔ دوسری طرف اپوزیشن رہنماؤں کا اتحاد بھی اپنی سی کوششوں میں مصروف ہے، لیکن ملکی منظر نامے کو یہیں چھوڑ کر ہم اپنے علاقائی منظرنامے پر نظر دوڑائیں تو تلہ گنگ کے حلقہ این اے 65 سے نو منتخب رکن قومی اسمبلی اور مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنما چودھری پرویزالہٰی نے گجرات اور تلہ گنگ سے دونوں نشستوں کو چھوڑنے کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد زیادہ توقع یہ کی جا رہی تھی کہ ان کی جگہ سابق ایم این اے سردارممتازخان ٹمن انتخاب لڑیں گے۔ لیکن تبدیلی کے نام لیواؤں کو جو کہ سرداران ٹمن کے خلاف محاذ آرائی کے لئے پرتول رہے تھے، ان کی محاذ آرائی کی راہ روکنے کے لئے مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جب کہ ٹمن کے سردار آج بھی اسی زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ حلقہ کے بھیڑ بکریوں کو جس طرف ہانکیں گے وہ چپ چاپ چل دیں گے، کیا عوامی رائے کے بغیر پورے حلقے کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا انہیں کوئی اختیار ہے؟ حلقہ کے عوام ان کے اس فیصلے کو کس نظرسے دیکھتے ہیں؟

دوسری طرف مسلم لیگ ن کی علاقائی قیادت کا کہنا ہے کہ این اے 65 گجراتیوں کی چراہ گاہ نہیں بننے دیں گے، یہ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے کہ وہ جسے چاہیں ٹھیکے پر دے دیں، ہم ضمنی انتخاب میں ان کی بھر پور مزاحمت کریں گے۔ بہر حال تبدیلی ورکرز کی ممکنہ محاذ آرائی کے پیش نظر، کیا اس فیصلے کی بنیاد پر ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ق ایک مرتبہ پھر تبدیلی کا ساتھ حاصل کرنے میں کامیاب رہے گی یا نہیں؟ اس کا زیادہ انحصار پی ٹی آئی قیادت کے صوبائی سطح پر کیے جانے والے فیصلوں پر ہوگا، اگر پی ٹی آئی مسلم لیگ ق کو صوبے میں مطلوبہ پوزیشن دے دیتی ہے، جوکہ ان کاہدف ہے، تو اس اتحاد کے ضمنی انتخابات میں بھی قائم رہنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ دوسرا یہ کہ ملکی سطح پر حالیہ عام انتخابات کے بعد جس طرح ان کے متعلق شکوک وشبہات اورقومی لیڈروں کے بیانات آرہے ہیں، اس کے ممکنہ نتائج کیا ہوں گے؟

قومی اسمبلی سے لے کر پنجاب اسمبلی تک جورسہ کشی جاری ہے اس میں تبدیلی کی اتحادی جماعت، مسلم لیگ ق کس پوزیشن پر کھڑی ہے؟ جب کہ تبدیلی کے اسٹیج سے نیب زدگان کو اوپر نہ لانے کے دعوے بھی آڑے آرہے ہیں۔ چودھری برادران سمیت پی ٹی آئی کے علیم خان بھی اسی کشتی کے سوار ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہاں سے تبدیلی کیسے “ یوٹرن “ لے کر نیب میں چودھری بردران کے خلاف دی گئی درخواست پر کیا موقف اختیار کرتی ہے؟ بہر حال اس تمام منظر نامے میں سیاسی حکمرانی کے آئینے میں ایک چہرے کی اوٹ میں نئے چہرے کو دکھا کر جونئی توقعات وابستہ کرائی گئی ہیں۔ جس گرد کو صاف کرنے کے لئے جو رنگ آمیزی کی جا رہی ہے۔ جس طرح ادھر ادھر سے شکستہ اینٹوں کے ٹوٹے فٹ کر کے اس عمارت کی شکستگی کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ کہاں تک کامیاب ہو گی؟ اوراس سارے کھیل میں تبدیلی کا باشعور ورکر کب بیدار ہوگا؟ آنے والا وقت اس کو مزید واضح کر دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).