پاکستان کے الیکشن میں ملکی اداروں کا کھیل؛ حقیقت یا افسانہ؟


پاکستان کے کسی بھی الیکشن کے متعلق یہ کہنا محال ہے کہ وہ ملکی اداروں کی سازباز یا ان کی مداخلت سے یکسر پاک رہا ہو۔ یہ سلسلہ محترمہ فاطمہ جناح سے شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو جب حکومت سے ہٹانے کی ایک سازش پکڑی گئی اور اس میں شریک افراد سے پوچھا گیا کہ آپ لوگ انہیں کیوں ہٹاناچاہتے تھے تو ان ب اور دی افراد کا کہنا تھا کہ وہ انڈیا کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے اور محب وطن نہیں تھے۔ اس کے کچھ دن بعد ہی انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا۔ یہی رویہ فاطمہ جناح کے بارے میں بھی روا رکھا گیا۔ ایوب خان نے جس طرح الیکشن جیتا اور جو ہتھکنڈے ان کے خلاف اختیار کیے وہ بھی تاریخ کا ایک انوکھا باب ہے۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ فاطمہ جناح کا ساتھ دینے پر شیخ مجیب الرحمن کو غدار قرار دے دیا گیا۔

بعد میں یہی کھیل محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف کھیلا گیا اور یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے بھارت میں جاری تحریک خالصتان کے سرکردہ لوگوں کی فہرست بذریعہ اعتزازاحسن بھارت کے حوالے کردی تھی۔ اس بات سے پیپلز پارٹی کے خلاف نفرت ابھار کر نواز شریف کو آگے لایا گیا۔ نواز شریف اور بینظیر دونوں ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے۔ جب انہیں اس مکروہ کھیل کا احساس ہوا تو لندن میں ایک میثاق جمہوریت طے پایا جس میں یہ معاہدہ کیا گیا کہ آج کے بعد وہ ایک دوسرے کے خلاف ریاستی اداروں کے کھیل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ میثاق جمہوریت کا علاج یہ کیا گیا کہ دونوں کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔ جب بینظیر کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اڑایا جا رہا تھا ٹھیک اسی وقت اسلام آباد کی سڑک پر رواں دواں نواز شریف پر بھی گولیاں برسائی گئیں لیکن وہ محفوظ رہے۔

آج ایک بار یہی کھیل نواز شریف کے خلاف کھیلا جا رہا ہے اور نواز شریف کے خلاف نفرت ابھارنے کے لیے بھی ”مودی کا یار‘‘ جیسا نعرہ لگایاجا رہا ہے۔ یعنی ہر سیاسی رہنما کو بھارت نوازی کا طعنہ دے کر ہی عوامی منظر نامے سے ہٹانے کی کو شش کی جاتی رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ نواز شریف کے خلاف یہ سلسلہ کیوں اور کب شروع ہوا؟ اس کا بنیادی جواب تو یہی ہے کہ یہ سلسلہ تب سے شروع ہوا ہے جب سے ان کے دماغ میں ”سویلین بالادستی ‘‘ کا سودا سمایا ہے۔ ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسی ؛یہ دوایسے امور ہیں جو کسی صورت بھی آج تک سیاستدانوں کے ہاتھ نہیں دیے گئے۔ نواز شریف جب تیسری بار ملک کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے ہاتھ رکھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ ملک میں ہمیشہ سے یہ پروپیگنڈا (پروپیگنڈہ، لکھنا اردو قواعد کے لحاظ سے غلط ہے) کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کے حکمران پنے کسی بھی مؤقف پر دوسرے ممالک کو قائل کرنے میں ناکام رہتے ہیں کیونکہ ملکی امور میں دلچسپی کی بجائے وہ اپنی جائیدادیں بڑھانے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ یوں داخلی اور خارجی محاذ پر پاکستان کی ناکامی کا ملبہ ہمیشہ سیاستدانوں کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔

ملکی میڈیا اس کھیل کا اہم کرداربن جاتا ہے اور یہ سوال اٹھانے سے ہمیشہ کتراتا رہا ہے کہ آخر ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسی بناتا کو ن ہے؟ کیا کسی بھی دور میں داخلہ اور خارجہ پالیسی وضع کرنے یا اس کے خطوط استوار کرنے میں سیاستدانوں کو آزادانہ حیثیت دی گئی ہے؟ اس سوال کا جواب ہی ملکی مسائل کے ذمہ داران کا تعین کرنے کے لیے کافی ہے لیکن اس سوال کو ہمیشہ سے دبایا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ نواز شریف نے وزارت داخلہ کی ذمہ داری خود پانے پاس رکھی لیکن انہیں ممنوعہ حدودمیں آنے پر سبق سکھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ سب سے پہلے انہیں دھرنے کا انجیکشن لگایا گیا جس کامقصد نواز شریف کو ممنوعہ علاقوں کی طرف پیش قدمی کرنے سے روکنا تھا۔

نواز شریف کو اپنے اختیارات کی حقیقت معلوم ہوچکی تھی لہذا انہوں نے سوچا کہ خارجہ امور”اندروالوں ‘‘ کو ہی دینا بہتر ہے۔ ان کی جان شایدتب بھی نہ چھوٹتی اگر جاویدہاشمی اس موقع پر تمام سازش کا تیاپانچانہ کرتے۔ انہوں نے بتایا کہ منصوبہ یہی تھا کہ پارلیمنٹ اور سپریم کو رٹ پر چڑھائی کرکے کچھ لوگوں کو مروایا جائے گا اور اس بات کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت کا تختہ الٹ دیاجائے گا۔ لیکن اس چال کو جاوید ہاشمی کے ایک وارنے ناکام کردیا۔ ناکامی میں حکومت کی یہ منصوبہ بندی بھی شامل تھی کہ انہوں نے تمام اداروں کی حفاظت کی ذمہ داری فوج کے سپردکردی۔ اب صورتحال یہ تھی کہ اگردھرنابرینڈ حملہ آوروں کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی تو بھی حرف اداروں پرہی آنا تھا اور اگر حملہ آوروں کے جتھوں پر گولیاں برسائی جاتیں تو بھی یہی ادارہ ذمہ دارٹھہرتا۔

یعنی سیاستدانوں نے اپنے بچاؤکا خوب اہتمام کرلیا تھا۔ اس موقع پر طاہرالقادری نے بھی عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا۔ دھرنوں کو جوازدینے کے لیے الیکشن میں دھاندلی کا نعرہ بلند کیا گیا جس کی بعدازاں سپریم کو رٹ میں شنوائی ہوئی اور عمران خان کے تمام الزامات جھوٹے ثابت ہوئے۔ بعدمیں عمران خان نے تمام الزامات کو سیاسی بیان کہہ کر اپنی بخشی کرائی۔ سولین بالادستی کا خواب دیکھنے والے نواز شریف کی سزاکا یہ سلسلہ نہ صرف آج تک جاری ہے بلکہ اب اس کا دائرہ مزید وسیع کرکے ان کی پارٹی تک بڑھادیا گیا ہے۔ شہبازشریف کو قابو کرنے کی کو شش ناکام ہوتے دیکھ کرعابد باکسر کو میدان میں اتار دیا گیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ ہر جماعت چیخ رہی ہے کہ پری پول رگنگ جاری ہے جس کی تائید میں بہت سے شواہد بھی ہیں جیساکہ الیکشن کمیشن کا کاغذات جمع کرانے کی تاریخ میں عین وقت پر ایک دن کا اضافہ کرنا اور اسی دن بہت مسلم لیگی امیدواروں کا ٹکٹ واپس کرکے آزادانہ الیکشن لڑنا یا سابق وزیرداخلہ چوہدری نثارکی جیپ پر سوارہونا، مسلم لیگ کے امیدواروں کے علاوہ باقی سب کو الیکشن تک کسی بھی مقدمے میں پیش ہونے سے استثنادینا اور ان کے مقدمے کو الیکشن تک ملتوی کرنا وغیرہ۔ ان جیسے دیگر اقدامات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن میں مداخلت کی جارہی ہے۔ اس طرح کی باتیں جسٹس دوست محمد کھوسہ اور سپریم کو رٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ بھی کرچکے ہیں۔

اپنے ایک حالیہ کالم میں سابق آئی جی ذوالفقارچیمہ نے بھی یہی باتیں کسی اور پیرائے میں کہی ہیں۔ اسلام ہائی کو رٹ کے سینئر ترین جج اور مستقبل کے چیف جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے بھی یہی کہا ہے کہ ججوں کو اپروچ کرکے من پسند فیصلے حاصل کیے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے چیف جسٹس کو کہا گیا کہ الیکشن تک نواز شریف اور ان کی بیٹی کو کسی صورت بھی ضمانت پر باہر نہیں آنے دینا اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہا گیا کہ شوکت صدیقی کو ان کا مقدمہ سننے والے بینچ سے باہررکھنا ہے۔ شوکت صدیقی نے مزید الزام لگایا کہ انہیں بھی کہا گیا ہے کہ اگر وہ ان کی مرضی کے مطابق فیصلے دیں گے تو نہ صرف ان پر چلنے والاریفرنس ختم کرا دیا جائے گا بلکہ انہیں نومبر کی بجائے ستمبرمیں ہی چیف جسٹس بنا دیا جائے گا۔ یہ صرف چند ایک مثالیں تھیں ورنہ اور بھی بہت سے قرائن ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے مقتدرادارے الیکشن میں اپنی مرضی کے نتائج اور لولی لنگڑ ی پارلیمنٹ کے وجود کے لیے بقول سینیٹر رضا ربانی ٹیسٹ ٹیوب بے بی پیداکرنے کے لیے اپنی سیاسی لیبارٹری میں دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).