چلاس میں تعلیم دشمنوں کی کارروائی


شدت پسندوں نے چلاس کے علاقے دیامر میں 12 اسکولز کو جلا دیا ہے، افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس معاملے کو اتنا لائٹ لیا گیا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، اس علاقے میں دہشتگرد اتنے مضبوط ہیں کہ سیشن جج پر قاتلانہ حملہ کردیا گیا۔ ٹھیک چھ سال پہلے یعنی اسی چلاس میں دو اپریل 2012ء کو دہشتگردوں نے راولپنڈی سے اسکردو جانے والی بسوں کو روکا اور شناختی کارڈ چیک کرکے 20 افراد کو ناصرف گولیاں ماریں بلکہ لاشوں کی بےحرمتی کی، کئی لاشوں کے سر تن سے جدا کیے گئے اور پتھر اٹھاکر لاشوں پر برسائے گئے، یوں پاکستان میں بربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی تھی۔

بعد میں چھ مسافر چھ بسوں کو بھی آگ لگا دی گئی۔ سلام ہو اُن پرامن شہریوں پر جن کے گھروں میں جنازے گئے لیکن انہوں نے ریاست کے خلاف کوئی ایک جملہ تک ادا نہ کیا، ملک کا پرچم گرنے نہ دیا، انتقاماً کسی غیرملکی ایجنسی کے ایجنٹ نہ بنے، کسی بےگناہ کو شہید نہ کیا۔ لیکن یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ ریاست پاکستان نے سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ بھی نہیں کیا، قاتل آج بھی آزاد ہیں اور نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بچیوں کے اسکولز تک جلائے جانے لگے ہیں۔

دنیا بھر میں اسکولز بنائے جاتے ہیں لیکن یہ بدقسمت ملک پاکستان ہے جہاں اسکولز جلائے جاتے ہیں، جہاں جہالت پرموٹ کرنے والوں کو الیکشن لڑنے دیا جاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ریاست پاکستان 80 ہزار سے زائد شہداء کی قربانی دینے کے باوجود بھی کفیوز دکھائی دیتی ہے، جان بوجھ کر قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے۔ کیا بھیڑیے سے کوئی اور توقع واسبتہ کی جاسکتی ہے کہ وہ خون خرابہ نہیں کرے گا؟ اگر نہیں تو پھر آپ کیسے مسلح کارروائیوں پر یقین رکھنے والوں سے امن کی توقع رکھ سکتے ہیں، ان کے منہ کو تو خون کا چسکا لگ چکا ہے، یہ تکفیری اب داعش کو جوائن کرچکے ہیں، اور داعش کے پاکستان میں سہولتکاری سے لے کر کارروائیاں انجام دینے تک یہ ان کی مدد کر رہے ہیں۔

دوسری جانب ایف اے ٹی ایم نے پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کردیا ہے اور نام گرے لسٹ میں باقی رکھا ہے۔ دنیا پاکستان پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں کہ یہاں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ایسے دہشتگردوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی جن کو جیلوں میں بند ہونا چاہیے تھا۔ جبراً کچھ امن پسند علماء کو بھی تکفیریوں کے ساتھ بیٹھنے اور انہیں مین اسٹریم کرنے کے لیے مجبور کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان تکفیریوں نے اپنی تکفیر سے لاتعلقی ظاہر کی ہے؟ کیا اب یہ دہشتگردی سے تائب ہو چکے ہیں؟ کیا انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ وہ تمام مسلمہ مکاتب فکر کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ کیا انہوں نے شہداء کے گھرانوں سے معافی مانگ لی ہے جن کے پیارے منوں مٹی تلے چلے گئے ہیں۔ اگر ان تمام سوالوں کے جواب نفی میں ہے تو پھر اس ساری پریکٹس کا فائدہ کیا ہے۔

اس کی کیا گارنٹی ہے کہ آئندہ یہ مٹھی بھر گروہ کسی مسلک کی تکفیر نہیں کرے گا، جلسوں میں فرقہ وارنہ تقریریں نہیں ہوں گی۔ یہ ایسے نعرے نہیں لگائیں گے جن سے کسی متکب یا مسلک کی دل آزاری ہوتی ہے۔ جن کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی ان کی الیکشن کے دوران کی گئی تقریروں کا ہی آڈٹ کرا لیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ کیوں کہ ان کی سیاست اور دکان ہی فرقہ وارنہ مسائل سے چلتی ہے۔ اگر یہ اتنے ہی پرامن ہوتے تو خود دینی جماعتوں کے اتحاد ملی یکجہتی کونسل یا متحدہ مجلس عمل کا حصہ ہوتے۔

راقم نے خود ایک بار متحدہ مجلس عمل کی ایک بڑی شخصیت سے یہ سوال کیا تھا کہ آپ کالعدم تکفیری تنظیموں کو کیوں آپ اپنے ساتھ نہیں ملا لیتے، یا انہیں تکفیر سے تائب کر مین اسٹریم جماعتوں میں لاتے؟ جواب میں اس شخصیت نے کہا کہ بھائی جان یہ لوگ ناقابل اعتبار ہیں۔ یہ کل نیا پروجیکٹ مل جائے گا اور اپنی کی ہوئی سب باتوں سے پھر جائیں گے۔ اب اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ پیغام پاکستان بیانیہ تو بنوا لیا لیکن یہ دہشتگردی اور تکفیر کیسے رکے گی ریاست کے لیے ایک بڑا سوال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).